میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان اختلافات

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان اختلافات

جرات ڈیسک
جمعرات, ۲۱ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری نے کہا ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کی شکایت ن لیگ سے ہے اور مجھے یقین ہے نواز شریف وطن واپس آکر اپنے کیسز کا سامنا کریں گے۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ ن لیگ سے ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا تمام سیاسی پارٹیاں ایک ساتھ الیکشن کا مطالبہ کرتیں، پی ڈی ایم کے سب اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلا جاتا، ن لیگ نے بندوبست کیا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہو تو شکایت انہی کے خلاف ہوگی، کسی اور سے شکایت ہوتی تو میں اس کا نام لیتا، انہوں نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ کا فوری طور پر اعلان ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا پرانا مطالبہ تھا کہ نواز شریف واپس آئیں، پیپلزپارٹی انہیں ویلکم کرے گی، ہم بھی اپنے کیسز کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں، مجھے یقین ہے میاں نواز شریف بھی سامنا کریں گے، پی پی رہنماؤں کے خلاف نیب کیسز پرانے ہیں جو موجودہ الیکشن پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔دوسری جانب سابق وفاقی وزیر اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے کہ آصف زرداری ن لیگ سے لڑنا نہیں چاہتے ہیں۔وفاق میں نگراں حکومت دراصل ن لیگ کی ہے،   موجودہ کابینہ میں کچھ لوگ ن لیگ کے بیٹھے ہیں، پنجاب میں ہماری مرضی سے حکومت نہیں بنی۔اس وقت ملک میں ن لیگ کی حکومت ہے تو شکوہ بھی انہی سے ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ لیول پیلیئنگ فیلڈ فراہم کیا جائے۔ ہمیں خوشی ہے نواز شریف واپس آرہے ہیں، ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ میاں صاحب کو وطن واپس آنا چاہیے۔بلاول زرداری اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کے بیانات سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ پیپلزپارٹی ن لیگ کے خلاف خم ٹھونک پر میدان میں اُترنے کو تیار ہے اور اس کی خواہش ہے کہ نواز شریف کو وطن واپسی پراپنے مقدمات کا سامنا کرنے پر مجبور کیاجائے تاکہ انتخابی مہم پر دلجمعی کے ساتھ حصہ نہ لے سکیں،اور پیپلزپارٹی کو میدان کھلا مل جائے تاکہ انھیں اگلے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی ممکنہ طورپر مخلوط حکومت میں اپنا حصہ وصول کرنے کا موقع مل سکے۔
پاکستانی سیاست اس وقت عجیب دوراہے پر کھڑی ہے۔3 بڑی سیاسی پارٹیاں عوام میں مقبول ہیں اور تینوں ہی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کی دعویدار ہیں اور ایک دوسرے پر اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم ہونے کا الزام لگارہی ہیں۔ پاکستانی عوام چونکہ جمہوریت پسند ہیں اور آمریت کو پسند نہیں کرتے اس لیے وہ ان تینون کو سن رہے ہیں کیونکہ ان کے موقف میں قدرمشترک اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ ہے۔سیاسی منظر نامے پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کی لڑائی تیز ہوتے ہی عوامی حلقے یہ سوچنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ ان سیاسی جماعتوں سے ملک میں بہتری لانے کی امید کیونکر وابستہ کی جا سکتی ہے جو اقتدار کے فوائد مل کر سمیٹتی اور بحران کے وقت مفاہمت و بہتری کی بجائے ایک دوسرے سے لڑتی ہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ بعض مقبول سیاسی قوتوں کا کھیل سے باہر ہونا پی ڈی ایم نامی اتحاد کے اقتدار کا راستہ بن گیا۔ پی ڈی ایم بنیادی طور پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کا اتحاد تھا جس میں بعدازاں دیگر جماعتوں کو شامل کیا گیا۔ اس اتحاد کو ٹھیس اس وقت پہنچی جب پیپلزپارٹی نے بعض فیصلوں پر اعتماد میں نہ لینے کا الزام لگا کر خود کو اتحاد سے الگ کرلیا۔ اس علیحدگی کے باوجود پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم تحریک انصاف کی حکومت ختم کرنے کے ایجنڈے پر ایک دوسرے کی ساتھی رہیں۔ اچھے برے،قانونی و غیر قانونی اور آئینی و غیر آئینی اقدامات میں دونوں نے اتحادی کا کردار ادا کیا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر شہبازشریف کو اپنا وزیراعظم کہا۔ حکومت بننے سے پہلے اتحادیوں کے اجلاس میں آصف زرداری نے رانا ثنا اللہ کو وزیر داخلہ بننے کی قبل از وقت مبارکباد پیش کی۔ مسلم لیگ ن کی قیادت اور اس کے قریبی رفقاء پی پی قائدین کی جمہوری جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے رہے۔ مریم صفدر تو گڑھی خدا بخش میں بھٹو خاندان کی قبروں پر گئیں اور فاتحہ پڑھی۔ اس خیر سگالی اور باہمی محبت کے اظہارسے یہ تاثر اُبھرا کہ دونوں جماعتیں اپنے ماضی کے اختلافات کو دفن کر کے ملک میں جمہوری ترقی‘ معاشی خوشحالی اور سیاسی استحکام کے لیے مل کر کام کرنے پر تیار ہیں۔ پی ڈی ایم کی دونوں بڑی جماعتوں کے باہمی تعلقات 1990کے عشرے میں بدترین الزام تراشی، سیاسی دشمنی اور رقیق حملوں کی وجہ سے کشیدہ ہوگئے تھے۔ لیکن پرویز مشرف کے دور میں جلاوطن کیے گئے نواز شریف کو سیاست میں واپسی کے لیے کندھا پیپلزپارٹی نے دیا۔ 2006ء میں لندن میں ہونے والا میثاق جمہوریت اس حوالے سے حوصلہ افزا تھا کہ 2بڑی جماعتوں نے جمہوری اقدار، صوبائی خودمختاری، پارلیمنٹ کی بالادستی اور اسٹیبلشمنٹ کی غلامی نہ کرنے کا عہد کیا۔ یہ میثاق امریکی وزیر کنڈو لیزا رائس کے کہنے پر ہوا۔ بہرحال اس میثاق جمہوریت کے بعد عوام میں اسے عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے لیے جمہوری انتظامیہ کے دل میں پیدا گنجائش کے طور پر دیکھا۔ 2008کے انتخابات کے بعد دونوں نے مخلوط حکومت بنائی۔ چند ماہ کے بعد فطری اختلاف زندہ ہوگیا۔ دونوں ایک دوسرے کو کوسنے لگے۔ یہ اختلاف پرورش پاتا رہا حتیٰ کہ نوازشریف پیپلزپارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف خود کالا کوٹ پہن کر عدالت میں جا پہنچے۔ یوسف رضا گیلانی نااہل قرار پائے۔ اگلی باری مسلم لیگ ن کی تھی۔
2013 سے 2018ء تک مسلم لیگ نواز نے اقتدار سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ویسے بھی غور کیاجائے تو دونوں جماعتوں کی نظریاتی شناخت ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہے۔ اگر انہیں مشترکہ سیاسی خطرے کا سامنا نہ ہو تو ان میں کوئی چیز مشترک نہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت گرانے کے لیے پی ڈی ایم نے مہنگائی اور معاشی ابتری کو اپنا محور بنایا۔ بڑے دعوے کیے گئے کہ تجربہ کار شخصیات اور مستحکم تنظیم کے باعث پی ڈی ایم ملک میں استحکام لے آئے گی۔ کئی چھوٹی جماعتوں کو اقتدار کے فوائد دے کر اتحادی بنایا گیا۔ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ جو دعوے کیے وہ پورے نہیں ہو سکے۔ مہنگائی 13 سے بڑھ کر 50 فیصد تک جا پہنچی۔ زرمبادلہ کے ذخائر 17 ارب ڈالر سے گرے اور ساڑھے 3 ارب ڈالر تک چلے گئے۔ برآمدات تیزی سے کم ہونے لگیں، اسٹاک مارکیٹ روز کریش ہونے لگی۔ ایل سی کھولنے کے لیے رقم نہ رہی۔ ڈالر اور پیٹرول کے نرخ آسمان کو چھونے لگے، لیکن بلاول زرداری،شہباز شریف اور دوسرے اتحادی رہنما غیر ملکی دورے کرتے رہے یہاں تک کہ جو تعزیت فون پر کی جاسکتی تھی اور دنیا بھر کے رہنما ایک دوسرے سے تعزیت فون پر کرتے ہیں اس کیلئے بھی بھاری بھرکم وفد سے غیر ملکی دورے کیے گئے اور عوام کی آہ وفغاں سننے کیلئے کسی کے پاس کوئی وقت نہیں تھا،پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی اسی کارکردگی کی وجہ سے آج مسلم لیگ ن‘ پیپلزپارٹی اور ان کی جونیئر اتحادی جماعتوں کی مقبولیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کی قانون سازی پہلے ہی کئی شکوک پیدا کر رہی ہے۔ 16 ماہ کا اقتدار مسلم لیگ ن‘ پیپلزپارٹی اور ان کی اتحادی جماعتوں کے لیے ایک ناخوشگوار بوجھ بن چکا ہے۔ آزادانہ اور منصفانہ ماحول میں انتخابات ہوں تو یہ جماعتیں بری طرح سے مہنگائی سے تنگ عوام کے ردعمل کا نشانہ بن سکتی ہیں۔ دونوں کو اقتدار میں رہ کر جن مسائل کا اندازہ نہیں ہورہا تھا اب وہ مسائل عوام کا سامنا کرتے ہوئے کھل رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اپنے حالیہ دور اقتدار کی خرابیوں اور عوام دشمن پالیسیوں کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرا کر دراصل اپنی ذمہ داری سے فرار کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس تازہ جھگڑے سے کم از کم یہ تو ثابت ہو جاتا ہے کہ میثاق جمہوریت صرف اقتدار کے فائدے بانٹنے کا معاہدہ ہے۔ اقتدار نہ ہو تو کوئی جماعت اس میثاق کی روح کے مطابق کام کرنے کو تیار نہیں، نہ ہی میثاق معیشت یاد رہتا ہے۔یہی وہ صورت حال ہے جس کی وجہ سے اب پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے تمام خرابیوں کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہراکر خود کو عوام کا حقیقی ہمدرد ظاہر کرنے کیلئے آپس میں لڑنا شروع کردیا ہے، اور ایک دوسرے سے ایسے لڑنا شروع ہو گئی ہیں جیسے اور کوئی سیاسی میدان میں ہے ہی نہیں،حالانکہ یہ دونوں جب عوام میں جائیں گی تو انہیں معلوم ہو گا کہ حالات کس قدر غیر موافق ہیں۔مسلم لیگ ن کو عوام کی ناراضی کا کچھ اندازہ ہوچکاہے اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے یہ بھانپتے ہوئے کہ وہ نواز شریف کے استقبال کیلئے چند سو افراد کو بھی ایئر پورٹ لے جانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے، اپنے ہی بنائے گئے استقبالی شیڈول میں ترمیم کرکے یہ فیصلہ کیاہے کہ نواز شریف کے استقبال کیلئے کارکنوں کو ایئر پورٹ پر نہیں لے جایا جائے گا اور صرف پارٹی کے چنیدہ رہنما ایئرپورٹ پر ان کا استقبال کریں گے اور انھیں سڑک کے راستے استقالیہ جلسے میں لے جانے کے بجائے عوام کی نظروں سے بچاکر ہیلی کاپٹر کے ذریعہ مینار پاکستان پہنچایا جائے گا۔

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی لڑائی سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ یہ دونوں نورا کشتی کھیل رہی ہیں تاکہ عوام کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ اِن میں کوئی سیاسی اتحاد نہیں اور دونوں عوام کیلئے میدان میں ہیں، جبکہ عوام کے ذہن میں یہ تاثر آج بھی ہے کہ تحریک انصاف کے مقابل یہ تمام جماعتیں یکجا ہیں اور اُسے اقتدار میں آنے سے روکنا چاہتی ہیں۔سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ آخر اقتدار سے نکلنے کے صرف ایک ماہ بعد ایسا کیا ہوا کہ بلاول زرداری مسلم لیگ(ن) پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں،ابھی یہ بات تو عوام نہیں بھولے جب بلاول زرداری شہباز شریف کے ساتھ سفر کرتے تھے تو اُن کا بیگ خود اٹھاتے تھے۔ عمران خان پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے اور اس معاملے میں شہباز شریف کی باتوں کا دفاع کرتے تھے،آج انہیں یہ بھی یاد آ رہا ہے کہ مسلم لیگ(ن) نے ایک زمانے میں پنجاب سے پیپلز پارٹی کو کیسے نکالا تھا اور یہ بھی کہہ رہے ہیں مسلم لیگ(ن) ایک بار پھر پیپلزپارٹی کے خلاف سازش کر رہی ہے۔دوسری طرف مسلم لیگ(ن) کے رہنما بھی ترکی بہ ترکی جواب دے رہے ہیں اور ماحول کو سیاسی طور پر گرمانے کی کوشش کر رہے ہیں،عوام بھی خوب سمجھ رہے ہیں کہ کواکب کچھ نظر آتے ہیں۔بلاول زرداری نے یہ تو کہنا شروع کر دیا ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کے مخالف افسر تعینات کیے جا رہے ہیں، حالانکہ نگراں حکومت میں بھی کیا سندھ کے افسر پیپلزپارٹی کی منظوری سے تعینات کیے جانا چاہئیں، اِس کا جواب غالباً پیپلز پارٹی کے پاس یہ ہے کہ جب وفاقی حکومت میں احد چیمہ، فواد حسن فواد اور شاہد اشرف تارڑ کو عہدے دیے جا سکتے ہیں،جن کا مسلم لیگ(ن) سے تعلق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تو پھر سندھ میں اُن افسروں کو تعینات کرنے میں کیا حرج ہے،جنہیں اس صوبے کا تجربہ ہے۔خیر یہ باتیں ابھی وقت کے ساتھ ساتھ کھلیں گی،دونوں جماعتوں کی طرف سے تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) کی سندھ میں دلچسپی سے خفا ہے اور مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی کی پنجاب میں سیاسی مداخلت کا بُرا منا رہی ہے، جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پنجاب میں دونوں جماعتوں کیلئے حالات سازگار نہیں،ذرا کوئی اہل لاہور سے بھی غیر جانبدارانہ سروے کر الے تو اُسے اندازہ ہو لاہوریوں کا موڈ کیا ہے،حالات بہت بدل گئے ہیں،صورتحال بہت تبدیل ہو چکی ہے، مسلم لیگ(ن) نے یہ دعویٰ تو کیا تھا کہ نواز شریف جب واپس آئیں گے تو لاہور میں دس لاکھ افراد اُن کا استقبال کریں گے لیکن بات سینکڑوں سے آگے نہ بڑھنے کی وجہ سے سرے سے استقبال ہی نہ کرنے کافیصلہ کرلیاگیا۔ زمانہ بہت بدل چکا ہے اور اب ملک میں دو جماعتی نظام نہیں رہا۔زیادہ وقت تو گزرا نہیں جب یہی تیرہ جماعتیں ایک سیاسی جماعت کے خلاف سیاست کر رہی تھیں۔ کیا وہ سیاسی جماعت ختم ہو گئی ہے کہ اب یہ دونوں حریف جماعتیں ایک دوسرے کے سامنے سینہ تان کے آ گئی ہیں۔تحریک انصاف تو ہر حلقے میں اور ہر صوبے میں موجود ہے،اُس کا مقابلہ تو کرنا پڑے گا، کیا مائنس تحریک انصاف کی اسکیم تیار کر لی گئی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر یہ دونوں سیاسی جماعتیں بندر بانٹ کیلئے ایک دوسرے سے لڑ سکتی ہیں، وگرنہ حالات تو اتنے سازگار نہیں کہ ایک روایتی انتخابی مہم چلا کے عوام کو بیوقوف بنایا جا سکے۔ مسلم لیگ(ن) نواز شریف کو وطن واپس لا کر حالات دیکھنا چاہتی ہے۔اگر عوامی رائے عامہ میں تھوڑی بہت لچک نظر آئی اور تحریک انصاف کے راستے میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو نون لیگ الیکشن کی حمایت کرے گی وگرنہ یہ سلسلہ ابھی یونہی چلتا رہے گا۔ اگر آج پیپلزپارٹی کو کہیں سے گرین سگنل مل جائے تو بلاول زرداری کا لہجہ ہی بدل جائے گا،سو اِس وقت گومگو کی صورت حال ہے۔ دونوں کی نظر اِس بات پر بھی ہے کہ تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہے۔ کھٹکا یہ بھی لگا ہوا ہے کہ کہیں کوئی اُلٹی چال، بازی ہی نہ پلٹ دے۔عمران خان کی عوامی مقبولیت تو موجود ہے،اِس ملک میں کچھ بھی ہوتے دیر نہیں لگتی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں