سی پیک پاکستان کی ادائیگیوں کے توازن پر شدید دبائو پڑنے کا خدشہ
شیئر کریں
حکومت پاکستان کے چیف ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ پاکستان کا قرضہ اور پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے میں دی جانے والی دیگر ادائیگیاں 2022ء تک 5 ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں گی۔چین نے پاکستان میں ریلوے، سڑک اور توانائی کے شعبوں میں شاہراہ ریشم پر 57 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے کا عہد کیا ہے۔ماہرین نے امید ظاہر کی ہے کہ گوادر پورٹ کے آغاز اور موٹروے مکمل ہونے کے بعد پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والی تجارت میں اضافہ ہوگا۔پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ پاکستان کی سست معیشت کو بڑھانے کے لیے ایک قرضہ ہے لیکن سرمایہ کاروں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ جیسے ہی قرضوں کی واپسی کا سلسلہ اور چینی کمپنیاں منافع اپنے ملک لے جانا شروع کردیں گی تو پاکستانی کرنسی شدید دباؤ کا شکار ہوجائے گی۔وزیراعظم کے مشیر برائے سی پیک ندیم جاوید نے غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ خدشات غلط ہیں کیونکہ اسلام آباد چین سے آنے اور جانے والی اشیا پر فیس کی مد میں کثیر رقم کمائے گا۔ندیم جاوید نے کہا کہ گوادر سے سنکیانگ تک یہ راہداری اگلے برس جون سے قابل عمل ہوجائے گی اور پاکستان کو امید ہے کہ دنیا بھر کی تجارت کا 4 فیصد تک کا حصہ اس راہداری سے ہی گزرا کرے گا۔وزارت منصوبہ بندی کے چیف ماہر اقتصادیات کا کہنا تھا کہ تمام قسم کے ٹول ٹیکس اور کرایوں کی مد میں پاکستان کو اندازاً 6 سے 8 ارب ڈالرز تک سالانہ فائدہ حاصل ہوگا، ساتھ ہی انہوں نے امید ظاہر کی کہ 2020ء تک پاکستان یہ توازن حاصل کر لے گا۔ان کا کہنا تھا کہ چین کے لیے مغربی دنیا کے ساتھ تیل اور دیگر اشیا کی تجارت کی غرض سے سی پیک کو استعمال کرنا فائدہ مند ہے کیونکہ سی پیک نے چین کے روایتی راستے کو 15 ہزار کلومیٹر تک کم کردیا ہے جبکہ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسے کروڑوں لیٹر ایندھن کی بچت بھی ہوگی۔
مستقبل کی پیش گوئی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ تجارت کوئی درست سائنس نہیں ہے، اگر پاکستان کی بہتر صورتحال خراب ہوتی ہے تو پاکستان کے بلند نظر اہداف دوبارہ ماند پڑ سکتے ہیں۔تاہم چینی حکام نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ ملک میں سیکورٹی کی صورتحال کو مزید بہتر کیا جائے اور اسی وجہ سے پاکستانی حکام نے بلوچستان میں غیر ملکیوں کی نقل و حمل کو محدود کردیا ہے۔سرمایہ کار بھی پاکستان کے بڑھتے ہوئے خسارے پر نظر رکھے ہوئے ہیں جو سی پیک منصوبے کے لیے برآمد کی جانے والی مشینری کی وجہ سے 6 ارب 10 کروڑ ڈالرز تک پہنچ جائے گا۔ندیم جاوید کا کہنا تھا کہ قرض کی ادائیگی اور سی پیک سے ہونے والے منافع کی منتقلی 2019 ء سے شروع ہوجائے گی اور یہ 1 ارب 50 کروڑ ڈالر سے 1 ارب 90 کروڑ ڈالر تک ہوگی جو کہ بڑھ کر آئندہ سال 3 ارب ڈالر سے 3 ارب 50 کروڑ ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ آغاز میں یہ ادائیگی کم رہے گی لیکن 2022ء تک یہ اپنی انتہائی سطح پر پہنچ کر 5 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی جبکہ حکومت اس امکان کے بارے میں نہیں سوچ رہی کہ اس صورتحال میں پاکستان ادائیگیوں کے بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔
اس سے قبل 2013ء میں بھی پاکستان اسی قسم کی مالی مشکلات کا شکار ہوا تھا، جس کے بعد اس نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے مدد حاصل کی تھی۔ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ سی پیک ملکی اقتصادی ترقی کو فروغ دے گا اور اس سے بجلی نظام میں 7 ہزار میگا واٹ کے پاور پروجیکٹس کی تکمیل کے بعد ملک میں جاری توانائی بحران کو کم کرنے میں مدد ملے گی اور در آمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔ندیم جاوید نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان اور چین نے دونوں ممالک کے مرکزی بینکوں کے مابین کسی بھی تیسری بین الاقوامی کرنسی کے استعمال سے بچنے کے لیے طریقہ کار وضع کرنے کا معاہدہ کرنے کے حوالے سے بھی بات چیت کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسا طریقہ کار لاگو ہو جاتا ہے تو یہ ایک بفر کی طرح کام کرے گا جو کسی بھی غیر متوقع حالات میں ہونے والی نادہندگی کی روک تھام کر سکتا ہے۔تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی بھی غیر متوقع حالات کی صورت میں ہنگامی انتظامات موجود ہیں۔
جہاں تک چین کے’ایک خطہ، ایک سڑک’ منصوبے کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کے حوالے سے بعض حلقوں کی جانب سے ظاہر کیے جانے والے خطرات کا تعلق ہے، خود چین کے سفیر سن ویڈونگ نے پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سے متعلق سامنے آنے والی ان افواہوں کو مسترد کردیا اورکہا کہ اس منصوبے پر ماحول پر کسی طرح کے منفی اثرات رونما ہونے کاکوئی خدشہ نہیں ہے۔ چینی سفارت خانے اور پاک چین انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے مشترکہ طور پر منعقدہ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے چینی سفیر سن ویڈونگ کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان اور چین اسٹریٹیجک تعاون کے شراکت دار ہونے کی حیثیت سے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے فروغ میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں’۔یہ پروگرام چین میں بین الاقوامی تعاون کے لیے 14 سے 15 مئی کے درمیان منعقد ہونے والے بیلٹ اینڈ روڈ فورم کی مناسبت سے منعقد کیا گیا تھا۔اس فورم میں پاکستان سمیت 28 ممالک کی اعلیٰ قیادت، جبکہ 110 ممالک اور 60 بین الاقوامی اداروں کے نمائندے شرکت کریں گے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینتونیو گیوٹیرس بھی اس کا حصہ بنیں گے۔چینی سفیر کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ ‘ایک خطہ، ایک سڑک منصوبے کی بنیاد روایتی چینی تہذیب پر رکھی گئی ہے جس کی اہم ترین روایات امن، ترقی اور خوشحالی ہیں’۔سی پیک کے تحت جاری منصوبوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے چینی سفیر نے کہا کہ 18.5 ارب ڈالرز کے معاہدے کے حجم کے 19 ابتدائی منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے۔سن ویڈونگ کا کہنا تھا کہ سی پیک کے تحت تیار ہونے والے چینی منصوبے پاکستان میں ماحولیاتی مسائل کا سبب نہیں بنیں گے اور نہ ہی سی پیک سے پاکستان کے مالی بوجھ میں کسی قسم کا اضافہ ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ چین پاکستان کے ساتھ یک طرفہ تجارت نہیں کرے گا بلکہ پاکستانی مصنوعات کی چین کو برآمد کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس حوالے سے سہولیات کی فراہمی بھی یقینی بنائے گا۔اس موقع پر سی پیک کی پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین اور سینیٹر مشاہد حسین سیدکا کہنا تھا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات میں خاصی وسعت دیکھنے میں آئی ہے۔
ایچ اے نقوی