جمہور اور جمہوریت
شیئر کریں
ایم سرور صدیقی
کیا ہم دنیا میں مذاق نہیں بن رہے؟ جمہوریت کے نتیجہ میں بننے والی دنیا کی پہلی مملکت میںجمہوریت کا مستقبل کیا ہے؟ سیاستدانوں اور بیوروکریسی پر مشتمل اشرافیہ عوام کے ساتھ کیا سلوک کررہی ہے؟خدکی پناہ ڈبل شہریت کے حامل22ہزارپاکستانی ملک کے تمام تر وسائل پر قابض ہیں ان لوگوںنے اس انداز سے 25 کروڑ عوام کا استحصال کررکھاہے کہ غربت عام آدمی کیلئے بد نصیبی بنادی گئی ہے۔ اشرافیہ سے اس مملکت ِ خدادادکی جان کب اور کیسے چھوٹے گی؟ یہ سوالات ہر ذی شعور محب وطن کے د ل و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں ۔اشرافیہ کیلئے کسی قانون کی اہمیت ہے نہ اخلاقی اقدار کی پاس داری ۔انہیں صرف اپنے مفادات عزیز ہیں، جن کے حصول کیلئے وہ حدسے گزر جاتے ہیں۔ اخلاقیات کے منافی حقائق دنیا دیکھتی ہے تو ہم پر ہنستی ہے کیونکہ اشرافیہ کے شاہی وفود قرض لینے کیلئے بھی کسی ملک کا دورہ کرتے ہیں تو ان کیلئے مہنگے ہوٹلوںمیں لگژر ی روم مہیا کئے جاتے ہیںجنہیں دیکھ دنیا بھرمیں ہمارے ملک کا مذاق اڑایا جاتاہے۔ یہ ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان میں رہنا بھی پسند نہیں کرتے۔ اسی لئے لگتاہے پاکستان میںکوئی قانون ہے نہ اخلاقی اقدار ویسے ہم اکثرشور مچاتے پھرتے ہیں پاکستان اسلام کا قلعہ ہے ،اس اسلام کے قلعہ کا تقدس اس حدتک مجروح کردیا گیاہے کہ غیرممالک ہمیں منہ تک لگانے کو تیار نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں کے باوجود خلیجی ممالک میںپاکستانیوں پر نت نئی پابندیاں عائدکی جارہی ہیں ،ان کی جیلوںمیں ہزاروں پاکستانی معمولی معمولی جرائم میں سالوں سے قیدہیں لیکن پاکستان کے کسی حکمران تو درکنا رکسی سفارتخانے نے اپنے ہم وطنوںکے مفادات کیلئے سوچنا گوارا نہیں کیا۔تین سال پہلے صرف عمران خان نے سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے حکمرانوںسے جیلوںمیں بند پاکستانی قیدیوں کی رہائی کی بات کی تھی۔ اکثر ممالک میں پاکستان مخالف لابیاں ایکٹو ہے۔ ان کا مقابلہ کرنے کیلئے کسی حکمران کو ہوش نہیں۔ یہی وجہ ہے ہماری ایکسپورٹ کم ہوتی جارہی ہے۔ جب پاکستانی حکمرانوں کے نزدیک فقط اپنا ہی مفاد پیش ِ نظر ہو تو کون کہاں تک صرف نظر کرے گا؟ کیا یہ تلخ حقیقت نہیں ہے کہ پاکستان اس وقت اقوام ِ عالم کا واحد ملک ہے جہاں ملزمان نے اپنے اپنے کرپشن و بدعنوانی کے کیسز ختم کرانے کیلئے قانون ہی بدل ڈالا، جس کی بڑی مثال نیب قوانین میں ترامیم ہیں۔ اسی طرز ِعمل نے دنیا بھر میں وطن عزیز کو مذاق بنا کر رکھ دیا ۔ شنیدہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی ترامیم کے مطابق نیب قوانین میں جتنی ترامیم ہوں گی وہ یکم جنوری1985 سے لاگو ہونگیں۔اس کے علا اوہ ان ترمیم کاسب سے ز یادہ فائدہ1990ء کی دہائی سے لیکر اب تک شہباز شریف فیملی کو اپنے کرپشن کے کیسوں میں ہو گا۔ دوسری ترمیم کے بعد اب ملزمان کے اہلِ خانہ کے ا ثاثے ملزمان کے اثاثے تصور نہیں ہوں گے۔ یعنی موجاں کرو! اس ترمیم سے وہ تمام ملزمان جنہوں نے اپنے بیوی،بچوں،رشتہ داروں کے نا م پر جائیدادیں بنا رکھیں اُن سب کو کوئی پوچھنے کی جرأت نہیں کر سکتا ۔ تیسری ترمیم تو کمال کی ہے ۔اس ترمیم کے بعد کسی ملزم کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس کے اثاثہ جات جائز بلکہ ناجائز دولت، کرپشن، بے نامی اکائونٹس، منی لانڈرنگ سے بنائی جائیداد یا ناجائز اثاثوں کو ناجائز ثابت کرنا نیب کاکام ہوگا۔ ملزمان کو کسی قسم کی منی ٹریل دینے کی ضرورت نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر نیب نے کسی پر آمدن سے زیادہ آثاثے بنانے کا ریفرنس بنایا تو اسے ثابت کرنا نیب کا کام ہوگا۔ چوتھی ترمیم بھی کمال کی ہے جس کے مطابق ملزمان کی جائیداد اور اثاثوں کی قیمت مارکیٹ ریٹ کی بجائے ڈی سی ریٹ کے مطابق ہوگی، مطلب جائیداد ایک لاکھ کی،ڈی سی ریٹ ایک ہزار کا،اس سے ارربوں،کھربوں کی جائیداد کروڑوں کی ظاہر کرکے ملزمان پتلی گلی سے صاف نکل جائیں گے اور احتساب کرنے والے ادارے لکیر پیٹتے رہ جائیں گے۔ پانچویں ترمیم کا فائدہ بھی ناجائز دولت، کرپشن، بے نامی اکائونٹس، منی لانڈرنگ کرنے والوںکو ہوگا کیونکہ دورانِ کیس ملزم اپنی کرپشن سے بنائے گئے متنازع اثاثے فروخت کر سکتا ہے، پہلے نیب کی اجازت کے بغیر جائیداد بیچی نہیں جاسکتی تھی،اب ایک طرف جائیداد پکڑی گئی دوسری طرف ملزم جائیداد بیچ کر فارغ ہوجائے گا چھٹی اور سب سے مزے کی ترمیم پر تو انعام دینے کو جی چاہتاہے۔ اگر نیب کیس ثابت نہ کر پایا تو متعلقہ نیب افسر کوپانچ سال قید کی سزا دی جاسکے گی ۔اب آپ ہی انصاف کریں اس کے بعد کون سا بیوقوف اور پاگل نیب افسر ہوگا جو کسی طاقتور پر کیس بنائیگا ؟ کیاہم دنیا میں مذاق نہیں بن رہے؟ یہ سوال ہر ذی شعور محب وطن کے دل و دماغ پر چھایا ہوا ہے ،یہ اخلاقیات کے منافی حقائق دنیا دیکھتی ہے تو لگتاہے پاکستان میںکوئی قانون ہے نہ اخلاقی اقدار۔ اس کے علاوہ و ججز،فاقی و صوبائی وزراء ،ارکان ِ اسمبلی اور سینیٹرزکی تنخواہوں، مراعات اور الائونسزمیں لاکھوںکا اضافہ اس غریب ملک کو مزید مقروض کرنے کے مترادف ہے جس ملک کا بچہ بچہ مقروض ہووہاں ایسی عیاشیوں کوملک دشمنی سے تعبیرکیا جاسکتاہے ۔ جبکہ ہر وزیر کو1500 سی سی گاڑی اور 400 لیٹر پیٹرول دیا جاتا ہے۔ قوم کے ساتھ گذشتہ نصف صدی سے جو کچھ ہو رہاہے اس میں ڈکٹیٹر، رہبر ، راہزن ،افسر شاہی الغرض سب نے دل کھول کر بھرپور حصہ ڈالا اور اس قوم کی بدقسمتی کہ کسی کو اپنے ایسے فعل یا کردار پر رتی بھر شرمندگی نہیں ہے۔ یوں لگتاہے ہم پاکستانی ایک ہجوم ِ نابالغاں ہیں جو ہر قسم کی سوچ یا احساس سے عاری دکھائی دیتے ہیں۔اداروں کا ٹکرائو ،کرپشن، مہنگائی ،بیروز گاری ، لوڈ شیڈنگ ،مذہبی منافرت ، لسانی جھگڑے ، بھتہ خوری اور اقتصادی عدم توازن نے ملکی معیشت کو تباہ کرکے ر کھ دیا ہے اور ظلم در ظلم یہ ہے کہ حکومتی سطح پر قابل ِ ذکر اقدامات نہ ہونے کے برابر ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے اس ملک میں حکمران پکنک منانے آتے ہیں او ر عوام کی بے بسی نے اقتدار کی قوتوںکو بے حس بنادیا ہے کوئی سیاسی پارٹی حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کرتی ،جب مراعات کی بات ہوتی ہے ،محمود ایاز کا فرق مٹ جا تاہے ہر حکمران نے اقتدار کو بندر بانٹ کا ذریعہ سمجھ رکھاہے۔ مہنگائی کے ستائے، بھوک سے بلبلاتے غریب عوام کی کمائی پر وزیروں مشیروںکی فوج ظفر موج ہماری اقتصادی صورت ِ حال پر مونگ دل رہی ہے اور ہم عوام جن کی حیثیت کیڑے مکوڑے سے زیادہ نہیں جلنے ،کڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتے۔لیکن یہ سب کچھ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا ہمیں اس صورت ِ حال سے نکلنے کیلئے کچھ نہ کچھ توکرنا چاہیے۔ مل بیٹھ کر سب کو سو چنا ہوگا یہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے کہ جب تلک آپ خود اپنی بہتری کیلئے کوشش نہیں کریں گے آپ کی قسمت نہیں بدل سکتی۔ ان حالات میں عوام کی ذمہ داری ہے کہ اجتماعی طاقت کو اپنا شعار بناکر اپنے حقوق کیلئے متحد ہو جائیں ۔پاکستانی کی سلامتی،مسائل کے حل ، کرپشن ، ظلم اور اختیارات کے تجاوزکے خلاف آواز بلند کریں۔ پر امن جدو جہد سے انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ اپنی اپنی سطح پر ہمیں غیر سیاسی ، غیر لسانی اور مذہبی منافرت سے بالاتر ہوکر کام کرنا ہوگا۔ صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں ۔پاکستان کی بہتری کیلئے بھرپور جدوجہد کریں ۔ اگر آپ اس امتحان سے گزر گئے تو پھر ایک روشن مستقبل آپ کا منتظر ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔