حکومت کی وعدہ خلافی، بلاول ناراض، احتجاجاً جوڈیشل کمیشن سے اپنا نام واپس لیا
شیئر کریں
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کی جانب سے جوڈیشل کمیٹی میں مساوی نمائندگی کے وعدے کو پورا نہ کرنے پر احتجاجاً گزشتہ ہفتے جوڈیشل کمیشن سے اپنا نام واپس لے لیا۔تفصیلات کے مطابق حکومت کی اہم اتحادی جماعت پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے مسلم لیگ (ن) پر اہم معاملات پر وعدہ خلافی اور مشاورت سے راہ فرار اختیار کرنے کا الزم عائد کرتے ہوئے ناراضی کا اظہار کردیا۔ ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ حکومت نے جوڈیشل کمیٹی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی مساوی نمائندگی کے وعدے کو پورا نہیں کیا۔ذرائع نے دعویٰ کیا کہ بلاول بھٹو زرداری نے بطور احتجاج گزشتہ ہفتے جوڈیشل کمیشن سے اپنا نام واپس لیا۔ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت کے ساتھ پی پی پی کے مستقبل کا فیصلہ اب پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کرے گی، بلاول بھٹو وطن واپسی پر سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلائیں گے جس میں اہم فیصلے ہوں گے ۔یاد رہے کہ ابتدائی طور پر حکومتی اتحاد کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے لیے ایوان زیریں (قومی اسمبلی) سے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جب کہ ایوان بالا (سینیٹ) سے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی کو نامزد کیا گیا تھا۔بعد ازاں، قومی اسمبلی سے مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی شیخ آفتاب کو نامزد کیا گیا جب کہ اپوزیشن سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمر ایوب اور خاتون نشست پر روشن خورشید بروچہ کو نامزد کیا گیا۔ علاوہ ازیں، سینیٹ سے جوڈیشل کمیشن کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فاروق نائیک اور پی ٹی آئی کے سینیٹر اور اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نامزد کیے گئے ۔کمیشن کے ارکان میں وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور کم از کم 15 سالہ تجربے کا حامل پاکستان بار کونسل کا ایک نمائندہ بھی شامل ہوگا۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے مطابق 13 رکنی جوڈیشل کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان ہوں گے جب کہ عدالت عظمیٰ کے 3 سینئر ترین ججز بھی کمیشن کا حصہ ہوں گے اور آئینی بینچ کا سینئر ترین جج بھی جوڈیشل کمیشن کا رکن ہوگا۔آئینی بینچز کی تشکیل کے بعد آئینی بینچ کا سب سے سینئر جج جوڈیشل کمیشن کا رکن بن جائے گا، اگر آئینی بینچ کا سینئر ترین جج پہلے سے کمیشن کا رکن ہوا تو اس کے بعد کا سینئر جج رکن بن جائے گا۔ یوں 26ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں جوڈیشل کمیشن 13ارکان پر مشتمل ہو جائے گا۔واضح رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کیا گیا ہے ، اس سے قبل الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ کا سب سے سینئر جج ہی ملک کا چیف جسٹس ہوتا تھا۔