حکومت انجام سے بے پروا آئینی ترامیم منظور کرانے پر تُل گئی
جرات ڈیسک
اتوار, ۲۰ اکتوبر ۲۰۲۴
شیئر کریں
ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے آئینی ترامیم کا معاملہ سانپ کی آنت کی طرح لمبا ہی ہوتا جا رہا ہے، ویسے تو جس طرح 18ویں ترمیم کے لئے ایک سال سے زیادہ کا وقت لگ گیا تھا تو اس کے سامنے ایک ماہ کا عرصہ تو کچھ بھی نہیں ہے لیکن یہاں مسئلہ قاضی صاحب کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ کا ہے جسے حکومت ہی نہیں بلکہ حزب اختلاف نے بھی ریڈ لائن بنا رکھا ہے۔ حکومت ہر صورت یہ چاہتی ہے کہ کچھ بھی ہو لیکن 26ویں آئینی ترمیم 25 اکتوبر سے پہلے پہلے ہو جائے اور تحریک انصاف سمیت حزب اختلاف کی پوری کوشش ہے کہ یہ معاملہ 25 کے بعد تک چلا جائے۔ اس حوالے سے دونوں اطراف کے جو خدشات ہیں ان میں وزن ہے۔ میرا جج اور تیرا جج کی سوچ نے یہ سارے مسائل پیدا کئے ہیں۔ تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ اگر یہ ترامیم 25 اکتوبر سے پہلے ہو گئیں جن کا محور و مرکز عدالتی اصلاحات ہیں تو آئینی عدالت بنتی ہے یا آئینی بینچ اگر ان میں تقرر کا اختیار حکومت کے پاس چلا گیا اور حکومت میرے جج نہیں بلکہ اپنے جج مقرر کر دے گی تو پھر آئینی معاملات پر اس کی شنوائی نہیں ہو سکے گی اور ترامیم کی منظوری کے بعد قاضی فائز عیسیٰ کی موجودگی میں اگر ان ترامیم کو چیلنج کیا گیا تو سپریم کورٹ اس پٹیشن کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دے گی اور آئینی ترامیم کے بعد چاہے آئینی عدالت بنتی ہے یا آئینی بینچ بنتا ہے دونوں صورتوں میں حکومت کی مشکلات میں کافی کمی آ سکتی ہے۔آئینی ترامیم پر جو کچھ ہو چکا، وہ ہونا نہیں چائیے تھا، ویسے تو گزشتہ مختصر عرصے میں عوام کے ذہنوں میں جمہوریت کا بچا کھچا بھرم بھی دھندلا چکا ہے، جس کا ذمہ دار موجودہ حکمرانوں کے سوا کوئی نہیں، جنہیں جمہوریت کی مالا جپنے کا بہت ذوق تھا، پی ڈی ایم پارٹ ون حکومت کے ایڈونچر سے ہے، پی ڈی ایم حکومت پارٹ ون نے اپنے آخری اجلاس میں 77 بل پاس کئے، عدالتوں کے فیصلوں کو خاطر میں نہیں لایا گیا۔ نیب قوانین میں ترامیم کر کے خود ہی حکمران اور ان کی اولادیں ریلیف حاصل کرتی رہیں۔ پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے اسلام ف دونوں جماعتیں موجودہ حکومت کو عوام کی منتخب کردہ حکومت تسلیم نہیں کرتیں، مولانا نے آئینی ترمیم کے تناظر میں تیسرے مرحلے کے دوران اپنی قیام گاہ پر پی ٹی آئی کے وفد سے ملاقات میں حکومت کو نامزد کردہ حکومت قرار دیا، پی ٹی آئی اس حکومت کو سرے سے تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور اسے فارم 47 کی حکومت قرار دیتی ہے، تاحال حکومت کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت ججز کی تعیناتی وغیرہ کے اختیارات اس کے پاس آ جائیں، حکومت اپنے جن مقاصد کی تقویت چاہتی ہے، اس میں بظاہر عدلیہ کی آزادی کو حکومت کے تابع اور محدود کرنا ہے یعنی پی ڈی ایم پارٹ ون کی حکومتی روش اور پالیسوں کا تسلسل چاہتی ہے مگر اس مرتبہ واضح فرق یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام ف ان کے ساتھ نہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ن لیگ کے بیشتر ارکان کو بھی ایسی آئینی ترمیم پر اندرون خانہ تحفظات ہیں دوسری طرف حکومتی خدشات میں بھی خاصا وزن ہے اور اس کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں ایک تویہ کہ ثاقب نثار کے دور سے نواز لیگ کو خاص طور پر اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے بڑے سنجیدہ تحفظات ہیں اور گذشتہ دو ڈھائی سال کے دوران جس طرح کے فیصلے آئے ہیں اور ”گڈ ٹو سی یو‘‘اور بندیال کا نیب کو حکم دینا کہ انھیں رات اپنے ریسٹ ہاؤس میں رکھیں اور ان کے عمران خان کے ساتھ ڈائیلاگ کہ آپ رات دوستوں کے ساتھ گپ شپ کریں اور عمران خان کو ملزمان کے بجائے ججز گیٹ سے سپریم کورٹ لانا یہ سب باتیں حکومت کے لئے بڑے سنجیدہ معاملات ہیں اور اب جس طرح مخصوص نشستوں کا فیصلہ آیا اور اس پر مزید ستم یہ کہ الیکشن کمیشن کی درخواست پر جس ٹائمنگ کے ساتھ اس فیصلے کی تشریح سامنے آئی اس نے بھی حکومتی صفوں میں مستقبل کے حوالے سے خوف کا عنصر شامل کر دیا ہے اور سب سے بڑی بات کہ اس میں سچائی ہے یا نہیں یہ ایک الگ بات ہے کہ کچھ حلقوں کی جانب سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر تحریک انصاف کی قیادت نے ایک پٹیشن تیار کر رکھی ہے اور وہ بس قاضی فائز عیسیٰ کے جانے کا انتظار کر رہے ہیں جیسے ہی ان کی جگہ دوسرے چیف جسٹس چارج لیں گے تو اس کے فوری بعد اس پٹیشن کو دائر کر دیا جائے گا کہ جس میں سپریم کورٹ سے استدعا کی جائے گی کہ فروری 2024 کے الیکشن پر ایک جوڈیشل کمیشن بنایا جائے جو فارم 45 اور فارم 47 کی جانچ کرے اور اگر ایسا کوئی جوڈیشل کمیشن بن جاتا ہے تو تحریک انصاف کو پورا یقین ہے کہ اس جوڈیشل کمیشن کی فائنڈنگ کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ خاص طور پر کراچی میں متحدہ کی سیٹیں کافی کم ہو جائیں گی اور یہ تمام نشستیں تحریک انصاف کو مل جائیں گی جس کے بعد وہ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم اور پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کو اعتماد کے ووٹ کا کہیں گے جو اس تبدیلی کے بعد حاصل نہیں ہو پائے گا اور اس طرح وفاق اور صوبوں میں موجودہ حکومتی سیٹ اپ کی جگہ تحریک انصاف کی حکومتیں آ جائیں گی۔
گزشتہ رات کو تحریک انصاف کے وفد کی ایک بار پھر مولانا سے ملاقات ہوئی اور ملاقات کے آخر میں مولانا نے موجودہ صورت حال کے تناظر میں ایک مرتبہ اپنا مشہور و معروف انقلابی جملہ دہرایا کہ ‘‘ہم نے تو پہلے دن ہی حکومتی مسودے کو مسترد کر دیا تھا اور آج بھی مسترد کرتے ہیں ‘‘جبکہ تحریک انصاف والوں کا اس حوالے سے کوئی بھی موقف نہیں ہے اس لئے کہ ان کی ابھی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات ہوئی ہے اور ایوان میں موجود تحریک انصاف کے ارکان یہ واضح کرچکے ہیں کہ ابھی انھیں اس پر غور کرنے کیلئے وقت کی ضرورت ہے لہٰذا وہ فوری طورپر اس کے حق میں ووٹ نہیں دے سکیں گے، مولانا کی رہائش گاہ پر حکومتی وفد مسلسل حاضری دیتا رہاہے لیکن اب تک کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آ سکی۔آئینی ترمیم کے معاملے پر حکومت ایک بار ناکام ہو چکی ہے۔اس ناکامی کی اہم وجہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خدشات تھے۔اپوزیشن نے اپنے خدشات کا اظہار واضح طور پر کیا تھا کہ حکومت چیف جسٹس کو توسیع دے کر کچھ خاص مقدمات پر اثر انداز ہونا یا انہیں التوا میں رکھنا چاہتی ہے۔خود چیف جسٹس نے اس خدشے کو بے بنیاد قرار دیا لیکن نئے چیف جسٹس کا نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے کی وجہ سے ابہام موجود رہا۔اپوزیشن کا ایک خدشہ آئینی عدالت کے متعلق تھا کہ اس سے سپریم کورٹ کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔پی ٹی آئی اور جمعیت علما اسلام اس تجویز کو مسترد کر رہی ہیں۔پارلیمنٹ میں نمایاں تعداد میں ارکان رکھنے والی جماعتوں کے علاوہ وہ آوازیں بھی ترمیم کے متعلق خدشات کا اظہار کر رہی ہیں جنہیں سیاسی معاملات پر صائب تبصرہ خیال کیا جاتا ہے۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنا ماضی کی غلطیوں کا حل نہیں
ہے۔مجوزہ ترامیم پر انہوں نے حکومت کے اقدامات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، اس کے مینڈیٹ پر سوال اٹھایا۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ”ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے کی اجازت دینے والے مجوزہ قانون کا استعمال ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیا جائے گا۔” مزید یہ کہ اس سے شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کمزور ہو گا۔وطن عزیز میں یہ عجب چلن پرورش پا رہا ہے کہ کسی جماعت کے پاس پارلیمنٹ میں اتنا مینڈیٹ نہیں ہوتا کہ وہ کوئی قانون بنا سکے یا آئین میں ترمیم منظور کرا سکے لیکن پھر بھی آئینی ترمیم پر ضد کی جاتی ہے۔حکومت کے پاس ریاست کی طاقت ہوتی ہے۔اس طاقت کو عوام کی بہبود و حفاظت کے لئے بروئے کار لایا جاتا ہے لیکن یہاں شکایت پیدا ہو چکی ہے کہ ریاستی طاقت کو حکومت اپنے مخالفین کو دبانے کے لئے استعمال کر رہی ہے،طاقت کے ذریعے مخالف اراکین پارلیمنٹ کو ووٹ دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ آئین میں ترمیم کے لئے حکومت کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں اور اپوزیشن جماعتوں کو قائل کرے۔آئینی ترمیم کے متعلق پہلی ذمہ داری بلاول زرداری نے اٹھائی اور ایک بار کونسل سے خطاب کے دوران آئینی عدالت سمیت کئی نکات پر ترمیم کرنے کا پر یقین لہجہ اختیار کیا۔حقائق سامنے آنے کے بعد حکومت اور انہیں پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔حکومت اپنے مرکزی رہنماوں کی کوششیں ناکام رہنے کے بعد اب سید خورشید شاہ کی خصوصی کمیٹی اور مولانا فضل الرحمان سے امید لگائے ہوئے ہے لیکن عوامی سطح پر ترمیم کے نکات پوشیدہ رکھنے پر جو شکوک پائے جاتے ہیں۔ اپوزیشن ان کا فائدہ اٹھا کر حکومت کے خلاف فضا سازگار کر رہی ہے۔ترمیم کے کون سے مسودے اصل ہیں اور کون سے محض طفل تسلی،اس کا اندازہ نہیں ہو رہا ہے۔حکومتی اتحادیوں کے پاس الگ الگ مسودے بتائے جاتے رہے ہیں، اسی طرح اپوزیشن سے رابطے کے لئے حکومت مولانا فضل الرحمان پر سب سے زیادہ انحصار کر رہی ہے لیکن مولانا بھی مسودے پر شبہات ظاہر کرتے رہے ہیں۔سنجیدگی سے دیکھیں تو یہ سارا معاملہ اصولی اور قانونی ہونے کے باوجود عجیب و غریب ہو چکا ہے،جس میں ترمیم کے لئے مینڈیٹ نہ ہونے کی معذوری کو مصنوعی طریقے سے دور کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یہ سب اپنی جگہ لیکن اس دوران اگر چیف الیکشن کمیشن کی جانب سے ا سپیکر قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے ا سپیکر ز کی طرف سے لکھے گئے خطوط کی روشنی میں حکومت کے حق میں فیصلہ آ جاتا تو یہ ساری ملاقاتیں اور آنیاں جانیاں دھری کی دھری رہ جاتیں لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا اور سپریم کورٹ کے 8 ججز نے ایک اور فیصلہ جاری کرکے سابقہ فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کو ضروری قرار دے دیا ،اب اگر حکومت قومی اسمبلی سے کسی طرح ترمیم منظور کرانے مین کامیاب ہوبھی جاتی ہے تو اسے وکلا تحریک کا سامنا کرنا پڑسکتاہے اور اگر وکلا تحریک چل پڑتی ہے احتجاج ہوتا ہے تو اسے طاقت سے روکنا شاید موجودہ حکومت کیلئے آسان نہ ہو،لیکن معلوم ایسا ہوتاہے کہ حکومت انجام سوچے بغیر ہر قیمت پر آئینی ترمیم کرانے کے درپے ہے ،جبکہ حقائق وشواہد بتاتے ہیں کہ اگر حکومت نے سب کچھ نظر انداز کرکے اپنی من مانی ترامیم منظور کرا نے کی کوشش کی تو تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی مل کر حکومت مخالف تحریک شروع کرسکتے ہیں اور اگر مولانا فضل الرحمان نے حکومت مخالف تحریک کیلئے تحریک انصاف کے ساتھ ہاتھ ملالیا تو پھر حکومت کو لینے کے دینے پڑجائین گے کیونکہ مولانا کو حکومت مخالف تحریک کیلئے کارکن کسی اور صوبے سے لانے کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ ملک ہر شہر اور قصبے میں مولانا اور ان کے ماننے والوں کے ہزاروں مدرسے پھیلے ہوئے ہیں اور مولانا کی ایک کال پر ان مدرسوں کے طالب عمل لاٹھیاں لے کر سڑکوں پر آکر پورے ملک کا پہیہ جام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ایوانوں سے یہ ترامیم کس طرح منظور کراتی ہے؟