میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مودی سرکار  نے کشمیری صحافت کا گلا گھونٹ دیا

مودی سرکار نے کشمیری صحافت کا گلا گھونٹ دیا

جرات ڈیسک
پیر, ۴ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

رشی ملہوترا

٭کشمیری صحافی جبر کا شکار ہیں اور ان کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ کوئی بھی خبر آپ کی آخری خبر ہو سکتی ہے، اس لیے مودی کے خلاف یا بھارتی افواج کے خلاف کوئی بھی خبر فائل کرنے سے پہلے دو بار ضرور سوچا جائے
٭معروف کشمیری صحافی آصف سلطان پر مسلم اکثریتی کشمیر میں عسکریت پسندی کی مدد کرنے کا الزام لگایا گیا تھا، جس سے انڈین حکومت کے خلاف 1989میں بغاوت کو ہوا ملی
٭ بھارتی مودی سرکار آصف کو ایک مثال بنانا چاہتی تھی تاکہ کوئی بھی ایسے موضوعات پر لکھنے اور انھیں شائع کرنے کی جرات نہ کرے جو حکومت کی مرضی کے خلاف ہوں
٭ ڈیجیٹل آن لائن میگزین کے ایڈیٹر فہد شاہ کو فروری 2022 میں انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، ان پر دہشت گردی کے پرچار کا الزام لگایا گیا
٭ 90فیصد کشمیری صحافیوں نے تصدیق کی کہ ان کو کم از کم ایک بار اور زیادہ سے زیادہ دس بار کشمیری پولیس نے طلب کیا اور خبر کے بارے میں دھمکایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کشمیری صحافت مودی کے معاندانہ اقدامات کا شکار ہے۔ نیم جاں کشمیری صحافت کے بارے میں خود بھارت کا مین اسٹریم میڈیا خموش ہے جیسے کہ اس کو کسی کی پروا ہی نہیں۔ بھارتی سینئر صحافی نے اپنانام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی ہے کہ کشمیری صحافی جبر کا شکار ہیں اور ان کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ کوئی بھی خبر آپ کی آخری خبر ہو سکتی ہے، اس لیے مودی کے خلاف یا بھارتی افواج کے خلاف کوئی بھی خبر فائل کرنے سے پہلے دو بار ضرور سوچا جائے۔ معروف کشمیری صحافی آصف سلطان پر مسلم اکثریتی کشمیر میں عسکریت پسندی کی مدد کرنے کا الزام لگایا گیا تھا، جس سے انڈین حکومت کے خلاف 1989میں بغاوت کو ہوا ملی۔ان پر انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت الزام لگایا گیا ہے جسے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا ایکٹ (UAPA) کہا جاتا ہے جس میں ضمانت حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ان کے خلاف دوسرا الزام ایک اور متنازع قانون، پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ہے، جو سکیورٹی اداروں کو دو سال تک بغیر کسی الزام کے حراست کی اجازت دیتا ہے اور اسی متنازع بھارتی قانون کے تحت درجن بھی سینئر صحافی اور محقق بھارتی قید میں موجود ہیں اور ان کو ضمانت بھی نہیں مل رہی ہے۔ کشمیری صحافی محمد سلطان ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کے ساتھی ہیں نا ہمدرد، بس اپنا کام کررہے ہیں۔ ان کے والد کہتے ہیں کہ آصف ایک پروفیشنل رپورٹر ہیں اور انھیں عسکریت پسندی کے بارے میں لکھنے کی وجہ سے جیل بھیج دیا گیا۔ آصف کا عسکریت پسندوں سے کوئی تعلق نہیں، وہ مزید کہتے ہیں کہ بھارتی مودی سرکار آصف کو ایک مثال بنانا چاہتی تھی تاکہ کوئی بھی ایسے موضوعات پر لکھنے اور انھیں شائع کرنے کی جرات نہ کرے جو حکومت کی مرضی کے خلاف ہوں۔

عالمی خبری ادارے اور برطانوی براڈ کاسٹنگ ادارے کا کہنا ہے کہ کئی دوروں کے دوران انہوں نے دو درجن سے زیادہ صحافیوں سے بات کی، ایڈیٹرز، رپورٹرز اور فوٹو جرنلسٹ جو آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں نیز ایسے صحافیوں سے بھی جو علاقائی اور قومی صحافتی اداروں کے لیے بھی کام کر رہے ہیں، ان سب نے حکومتی اقدامات کو اپنے لیے ایک انتباہ کے طور پر پیش کیا اور اپنے تحفظات اور بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیری صحافت کیخلاف کریک ڈاؤن کی تصدیق کی۔ بھارتی استبداد کا شکار ایک اور کشمیر ی صحافی فہد شاہ بھی ہیں جو پابند سلاسل ہیں۔ ایک ڈیجیٹل آن لائن میگزین کے ایڈیٹر فہد شاہ کو فروری 2022 میں انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، ان پر دہشت گردی کے پرچار کا الزام لگایا گیا ہے، ثبوت نہیں ہیں لیکن فہد شاہ کی کوئی شنوائی نہیں ہے۔ شاید اسی لئے کہ وہ کشمیری اور مسلمان ہیں۔ جنوری دو ہزار بائیس ہی میں فری لانس صحافی سجاد گل کو گرفتار کیا گیا تھا جب انھوں نے سوشل میڈیا پر مقامی لوگوں کی ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں انڈیا مخالف نعرے لگائے گئے تھے۔ سجاد پر مجرمانہ سازش کا الزام تھا۔ دونوں کو نئے الزامات کے تحت دوبارہ گرفتار کیا گیا ہے۔بھارتی افواج اور پولیس کی جانب سے حکومتی ایما پر کشمیری صحافیوں کی گرفتاری کے سلسلے میں تازہ ترین واقع اس سال مارچ میں پیش آیا۔ جس میں عرفان معراج نامی ایک ایسے صحافی کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے کے کے الزام میں حراست میں لیا گیا، معراج بین الاقوامی صحافتی اداروں کے لیے کام کررہے تھے۔

اس پورے منظر نامہ کا افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ کشمیری صحافت کے خلاف کریک ڈاؤن اور اس کا گلا گھونٹنے کے بارے میں انتظامیہ اور پولیس یا مقننہ کی جانب سے کوئی واضح موقف پیش نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے درجن بھر سے زیادہ کشمیری صحافی گرفتار ہیں اور درجنوں کو مقدمات اور معاندانہ کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ تین ماہ قبل مئی میں سری نگر میں جی 20 اجلاس میں خطے کے اعلیٰ منتظم منوج سنہا نے میڈیا پر کریک ڈاؤن کے الزامات کے بارے میں کہا کہ پریس مکمل آزاد ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ صحافیوں کو دہشت گردی کے الزامات اور سماجی ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوششوں کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔ 90فیصد کشمیری صحافیوں نے تصدیق کی کہ ان کو کم از کم ایک بار اور زیادہ سے زیادہ دس بار کشمیری پولیس نے طلب کیا اور خبر کے بارے میں دھمکایا۔ ایک کشمیری صحافی نے کہا کہ ہم اس خوف میں رہتے ہیں کہ کوئی بھی خبر ہمارے کیرئیر کی آخری خبر ہو سکتی ہے۔ اور پھر آپ جیل میں ہوں گے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ انگریزی رپورٹنگ کرنے والے ایک کشمیری صحافی نوجوان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں صحافت مر چکی ہے اور یہیں دفن ہے۔ ایک کشمیری صحافی نے بتایا کہ بھارتی انٹیلی جنس، پولیس اور انتظامیہ کا تال میل ان کیلئے حیران کن ہے کیوں کہ ان کے پاس جب ایک پولیس افسر کی کال آئی تو اس نے ان کے تمام خاندانوں والوں کا ڈیٹا سنایا کہ کون کہاں رہتا ہے اور کیا کام کرتا ہے اور ان کے بچے کن اسکولز اور کالجوں میں پڑھتے ہیں۔ یہ کال اور ہمارے فیملی ممبرز کا ڈیٹا ان کے پاس موجود ہونا ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ پیدا کرنے کیلئے کافی تھا اور ان کیلئے یہ پیغام واضح تھا کہ وہ کشمیر میں ہر صحافی کی مکمل جانکاری رکھتے ہیں کہ کب کس وقت ان کو ہینڈل کیا جائے؟

ایک صحافی نے کہا:کشمیر میں صحافیوں کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ہم پر ملک دشمن، دہشت گردوں کے ہمدرد، اور پاکستان کے حامی رپورٹروں کا لیبل لگایا جاتا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ ہمارا کام ہے کہ ہم سب کے بارے میں خبر رکھیں۔تحقیق کے دوران کم از کم چار کشمیری صحافیوں نے عوامی سطح پر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ انھیں انّیا سے باہر جانے سے روکا گیا، ان کے بورڈنگ پاسز پر امیگریشن حکام نے بغیر کوئی وجہ بتائے ’منسوخی‘ کی مہر لگا دی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ایک ’پلٹزر‘انعام یافتہ فوٹوگرافر جو ایوارڈ کی تقریب میں شرکت نہیں کر سکے۔ جن کشمیری صحافیوں کو انڈیا چھوڑنے کی اجازت نہیں دی گئی اس فہرست میں درجنوں نام ہیں لیکن اس فہرست کو عام نہیں کیا گیا۔ ہم نے پولیس سے ان ’مطلوب افراد کی فہرست‘ کی قانونی حیثیت کے بارے میں پوچھا، جیسا کہ ان کا سرکاری زبان میں حوالہ دیا جاتا ہے، مگر حکام کی جانب سے اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔بعض صحافیوں نے بتایا کہ جب اُنھوں نے میعاد ختم ہونے والے پاسپورٹ سرکاری دفاتر میں جمع کروائے تاکہ نئے حاصل کیے جا سکیں تو ان کے پاسپورٹ بھی روک لیے گئے تھے۔ حالیہ ہفتوں میں، کچھ صحافیوں کو پہلے جاری کیے جانے والے پاسپورٹ بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ان صحافیوں کو انڈیا کے لیے ’خطرناک‘سمجھا جاتا ہے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں