میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پرامن اور شفاف انتخابات کا عزم، عوام ہنسے یا روئیں؟

پرامن اور شفاف انتخابات کا عزم، عوام ہنسے یا روئیں؟

جرات ڈیسک
جمعرات, ۴ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انتخابی عمل پر امن بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔انتخابات کو پرامن بنانے کا عزم انتظامی مشنری کی جانب سے بھی بار بار ظاہرکیا جارہا ہے۔ وزیراعظم جنہیں یہ یاد نہیں رہا ہے کہ وہ”نگراں“ ہے، اُنہیں انتخابات کو پرامن بنانے کے لیے کسی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔مگر کسی سوال کے جواب میں وہ برائے وزن بیت انتخابات کو پرامن بنانے کی بات ایسے ہی کر لیتے ہیں جیسے چیف الیکشن کمشنر انتخابات کو شفاف کرانے کا عزم ظاہر کر دیتے ہیں۔ نگراں وزیراعظم اور چیف الیکشن کمیشن کے اس رویے پر عوام اب ہنسیں یا روئیں؟
یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ پاکستان کے بارہویں قومی انتخاب تاریخ کے سب سے دھاندلی زدہ انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ جس پر انتخابات سے قبل ہی ناقابل اعتبار ہونے کی مہر لگ چکی ہے۔ بدقسمتی سے ان انتخابات سے پاکستان میں جاری بحرانوں میں کسی عارضی وقفے کی جھوٹی امید بھی نہیں کی جاسکتی۔ اس کے برخلاف یہ انتخابات پاکستان کے جاری بحرانوں میں انتہائی سنگین خطرات کا اضافہ کر سکتا ہے۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے بصد ادب یہ سوال ہے کہ اُنہوں نے اب تک پاکستان کے انتخابات کو پرامن بنانے کے لیے کون سے اقدامات اُٹھائے ہیں؟الیکشن کمیشن سے لے کر آئی جی کے دفاتر تک امیدواروں کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے، کیا اس کی انہیں کوئی خبر نہیں پہنچ رہی۔ کیا نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے علم میں نہیں کہ ایک سیاسی جماعت تحریک انصاف کے ساتھ ان انتخابات میں کیا سلوک ہو رہا ہے؟ امیدواروں کے تائیدکنند گان، تجویز کنندگان تک کو ہراساں کیا جارہا ہے، اُنہیں بلامقدمہ گرفتار کرکے دباؤ کا شکار بنایا جارہا ہے۔ اُنہیں امیدواروں کی تائید وتجویز سے دستبرداری کے لیے دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ پورے انتخابی عمل سے تحریک انصاف کو نکال باہر کرنے کے لیے پوری ریاستی مشنری وقف کردی گئی ہے جس کے وزیراعظم نگران ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس جمہوریت کش رویے کے خلاف کہیں پر بھی کوئی آواز تک اُٹھانے نہیں دی جا رہی۔ مگر وزیراعظم انتخابات کو پرامن بنانے کے دعوے کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ انتخابات کسی مریخ سیارے پر پرامن منعقد ہو رہے ہیں یا سرزمین پاکستان پر؟
نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی بنیادی ذمہ داری ہی یہ ہے کہ وہ انتخابات کو پرامن بناتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے آئینی مدت کے اندر اندر سبکدوش ہو جائیں۔ مگر یہ احساس اُن سمیت اُن کی وفاقی کابینہ کے کسی بھی وزیر میں دکھائی نہیں دیتا۔ اُصولی طور پر تمام اہم قومی معاملات سے نگراں وزیراعظم اور اُن کی کابینہ کو دور رہنا چاہئے تھا۔ تاکہ چندماہ کی اُن کی عبوری اور نگراں حکومت پر کسی مستقل نوعیت کے فیصلے کابوجھ نہ پڑے۔ مگر اپنے رجحانات میں پاکستان کے آئینی اور سیاسی ڈھانچے سے مخالفت و مخاصمت کا رویہ رکھنے والے نگراں وزیراعظم نے کسی ایک ایسے معاملے کو بھی نہیں چھوڑا جس پر رائے زنی نہ کی ہو۔بدقسمتی سے وہ اتنی غیر محتاط گفتگو کے عادی ہو چکے ہیں کہ اُن کا یہ رویہ بجائے خود پاکستان کے موجودہ حالات میں آتشیں صورت حال پیدا کررہا ہے۔اور پاکستان کے عمومی ماحول کو بدامنی کی آگ میں جھونکنے کا موجب بن سکتا ہے۔ افغانستان کے معاملے میں اُن کی غیر محتاط گفتگو کے سنگین مضمرات ہیں۔ اسی طرح وہ بلوچستان کے لاپتہ لوگوں کے معاملے میں بھی انتہائی غیر محتاط گفتگو کے شکار ہور ہے ہیں۔ جس کا نقد نقصان یہ پہنچ سکتا ہے کہ بلوچستان میں اس پر شدید ردِ عمل پیدا ہو جو بلوچستان میں انتخابی عمل ہی کو ناممکن بنا دے۔ انتخابی عمل کوئی معمولی واقعہ نہیں ہوتا۔ سادہ لفظوں میں تو یہ ایک انتخابی سرگرمی ہے۔ مگر پاکستان میں جہاں تصادم کے منطقے زیادہ اور اتفاق کے جزیرے کم پائے جاتے ہیں۔ جہاں ثقافتی، لسانی، تہذیبی اور جغرافیائی مسائل بھی سراُٹھاتے رہتے ہیں۔مختلف قوموں میں عدم اعتماد پیدا کرنے کی منظم سازشیں بھی رچائی جاتی ہیں۔ ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی سرحدیں ملک کے اندر رہنے کے بجائے غیر ملکی سرحدوں تک میں داخل ہو جاتی ہیں۔ جہاں ہر ایک کی حب الوطنی پر سوال اُٹھتے ہیں۔ وہاں انتخابات وہ واحد عمل ہے جو سب کو یکسو کرنے ایک دوسرے کے قریب لانے اور ریاست پر اعتماد پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ہم انتخابات پرا ثرانداز ہونے یا پھر انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کے نتائج ماضی میں بھگت چکے ہیں۔ انتخابات پر اثرانداز ہونے کے باعث مختلف سیاسی تحریکیں جنم لیتی رہی ہیں۔ جبکہ انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کے باعث پاکستان دولخت ہو چکا ہے۔ ایسا ہولناک ماضی رکھنے کے باوجود ہمارے ناعاقبت اندیش وزیراعظم قوم کی مختلف اکائیوں سے بات کرتے ہوئے اُنہیں بار بار یہ کیوں یاد دلاتے ہیں کہ یہ 1971ء نہیں ہے؟ ایسا کہہ کر وہ پاکستان کے پِچھڑے ہوئے لوگوں کو کس کیفیت میں ڈالنا چاہتے ہیں؟
پاکستان کے انتخابات کو پرامن بنانا محض الفاظ کی جادو گری یا کسی تقریب کے روایتی بیانئے تک محدود تقاضا نہیں ہے۔یہ اس سے بڑھ کر پاکستان کے ہولناک ماضی کے استحضار وا دراک کاتقاضا کرتا ہے۔ یہ دراصل یہ یاد دلاتا ہے کہ جب تاریخ کی قوتیں بے لگام ہو جاتی ہیں تو ٹینکوں سے چڑھائی اور فضا سے بمباری کرتے ہوئے بھی معاملات سنبھالے نہیں جا سکتے۔ یہ دراصل یہ سمجھاتا ہے کہ دباؤ کی حکمت عملی مستقل کام نہیں کرتی۔ یہ اس حقیقت سے سامنا کرنا ہے کہ عوام کا سیلاب جب بے قابو ہوتا ہے تو یہ طاقت کے روایتی سانچوں اور ڈھانچوں کو توڑ پھوڑ دیتا ہے۔ اس لیے انتخابات کی سرگرمی کو عوامی اعتماد میں اضافے کے لیے استعمال کیا جانا چاہئے۔ اس کے برعکس حالیہ انتخابی سرگرمیاں نہ صرف عوامی اعتماد میں کمی پیدا کر رہی ہیں بلکہ امن کے ماحول کو بھی کشیدہ کرنے کے خطرات کا باعث بن رہی ہیں۔
نگرا ں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو بدقسمتی کی اس عموی فضا میں اس امر پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے کہ انتخابات پر عدم اعتماد پیدا کرنے والے محرکات کوکیسے ختم کیا جائے؟ ایک مخصوص جماعت کے خلاف یکطرفہ اقدامات کا خاتمہ کیسے کیا جائے؟ الیکشن کمیشن کو راہ ِ راست پر لانے کے آئینی راستے کون سے ہیں؟ چیف الیکشن کمشنر کو کیسے سمجھایا جائے کہ وہ الیکشن کرا رہے ہیں کسی مخصوص جماعت کے خلاف لڑ نہیں رہے؟ ریاست کی سرکاری مشنری کو کیسے قانونی اور آئینی ڈھانچے میں رکھتے ہوئے غیر جانب دار رکھا جائے؟ ریاست کا ہر ستون آئینی حدود میں کیسے کارگزار ہونے کاپابند بنایا جائے؟اُن کی یہ تمام ذمہ داریاں صرف و محض انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے ہیں۔ اس کی راہ میں رکاؤٹیں پیدا کرنے والے محرکات کو انگیخت کرنے میں نہیں۔ نگراں وزیراعظم کو یاد رکھنا چاہئے کہ افغان پالیسی، اسرائیل پالیسی اور دوسری مستقل نوعیت کی پالیسیوں پر لن ترانی کے سرکاری اختیار ات اُن کے بہت محدود ہیں۔ وہ اگر اس پر بات کرنا چاہتے ہیں تو پھر وہ اپنی آئینی ذمہ داریوں سے عہدہ برآں ہونے کے بعد اس ”آزادی“ کو استعمال کریں۔ اُنہیں مستقل نوعیت کی پالیسیوں پر نگراں دور کی محدود آئینی ذمہ داریوں کے اس عرصے میں انتہائی محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ نیز انتخابات کو پرامن بنانے کے لیے روایتی لفظوں کے استعمال تک محدود ہو کر نہیں رہ جا نا چاہئے جو اُن کی اصل ذمہ داری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں