خون کی ندیاں بہانے میں ہوئیں صدیاں تمام
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
تاریخ کااگرہم بغورمطالعہ کریں توپتہ چلتاہے کہ جوثقافت یاتہذیب تمام معاملات پرچھائی ہوئی ہوتی ہے، اس کے رجحانات بھی عالمی رجحانات بن کررہ جاتے ہیں۔اس وقت مغرب ہراعتبارسے دنیاپرچھایاہواہے۔علمی،فنی،معاشی،مالیاتی اورعسکری برتری کے حامل مغرب کے اذہان پرجنگ چھائی ہوئی ہے۔یہی سبب ہے کہ دنیابھرمیں جنگ کاماحول ہے کہ ختم ہونے کانام نہیں لیتا۔ سب جانتے ہیں کہ جنگ ایک ایسی جہنم ہے جس کے ہاتھوں سب کچھ بربادہوجاتاہے لیکن اس کے باوجودپھربھی جنگ سے اس کاجی بھرتاہے نہ پیٹ۔فلموں میں،ڈراموں میں،گیمزمیں،کتابوں میں،گانوں میں ہرجگہ جنگ وجدل سے رغبت کاماحول دکھائی دے رہاہے۔ایسالگتاہے کہ جنگ مغرب کی ثقافت کاجزوِ لاینفک ہوکررہ گئی ہے۔
جنگ کوپسند کرنے والی ذہنیت پیداکرنے اورپروان چڑھانے پربہت توجہ دی جارہی ہے۔عنفوان شباب ہی سے جنگ کوپسند کرنے کا رجحان مغرب کے عام فردکے ذہن میں جنم لے چکاہوتاہے۔کھلونابندوقیں،ماڈل ٹینک اوربورڈگیمزجنگ کوذہنی ساخت کا اندرونی یا کلیدی حصہ بناکراس بات کاپورااہتمام کیاگیاہے کہ مغرب کے باسی زندگی بھرجنگ کو اپنے نظام اورزندگی دونوں کا لازمی حصہ تصور کریں۔ آج دنیابھرمیں جنگ وجدل سے بھرپوروڈیوگیمزبہت مقبول ہیں۔مغربی معاشروں سے ہٹ کربھی کروڑوں بچے یہ وڈیو گیم دیکھ دیکھ کرجنگ کواپنے مزاج میں شامل کرتے جا رہے ہیں۔قتل وغارت دیکھ دیکھ کرذہن کی کیاحالت ہوجایا کرتی ہے،اس کااندازہ کچھ انہی کو ہو سکتاہے،جن کی پوری زندگی جنگ وجدل میں گزری ہو۔مغرب اپنی نئی نسل میں جنگ پسندی کوایک رجحان کی حیثیت سے پروان چڑھا رہاہے۔نئی نسل قتل وغارت دیکھنے اورپھرسہنے کی عادی سی ہوکررہ گئی ہے۔جنگ وجدل کے ماحول پرمبنی وڈیوگیم بچوں کے ذہن میں جنگ پسندی کے رجحان اورقتل وغارت سے رغبت کوکیل کی طرح ٹھونک دیتے ہیں۔
مغرب اورخاص طورپرامریکاکی ثقافت جنگ پسندی کی بنیادپرکھڑی ہے۔ان کے ادراک اورفکرپرجنگ وجدل سے رغبت اس بری طرح سوارہے کہ اب اس کے بغیرزندگی بسر کرنے کاتصوربھی محال ہے۔جنگ وجدل سے رغبت نے ان کی اقدارکی ساخت میں بھی شدیدمنفی اثرات مرتب کردیئے ہیں۔امریکاکیلئے جنگ ایک ایسی حقیقت ہے جوکہیں اور واقع ہورہی ہو،اگرامریکاکسی جنگ میں براہِ راست شریک ہوتب جنگ اس کی سرزمین سے بہت دورلڑی جارہی ہوتی ہے۔امریکاکی بنیادی حکمت عملی یہ ہے کہ جنگ دوسروں کولڑنی چاہیے اوراس جنگ کوجاری رکھنے میں مدددینے کیلئیہتھیارامریکی ہونے چاہئیں!امریکی سیاستدان اورووٹرہتھیاروں کے حوالے سے شدید ناپسندیدگی کااظہارکرتے ہیں مگرریاستی ڈھانچہ اورپالیسی سازی کاعمل کچھ اس قسم کا ہے کہ بات بنتی نہیں،دال گلتی نہیں۔
امریکاجنگ کوہوادینے کاالزام ہمیشہ دوسروں پرعائدکرتاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنگ پسندی کی ذہنیت کوعام کرنے میں خود اسی نے کلیدی کرداراداکیاہے۔امریکاہی نے اپنی پالیسیوں کی مددسے دنیابھرمیں جنگ کوہوادی ہے۔کئی خطوں کوجنگ وجدل کی دلدل میں امریکاہی نے پھنسایاہے اوریورپ نے اس معاملے میں اس کیلئے معاون کاکرداراداکیا ہے۔اس وقت دنیابھرمیں جوخانہ جنگیاں برپاہیں ان کی غالب اکثریت کیلئے امریکی پالیسیاں اوراقدامات ذمہ دارہیں۔یورپ بھی بہت کچھ کرتاہے اورمزید بہت کچھ کرسکتاہے مگرمغرب کے بیشتراقدامات امریکاکی مرضی سے طے پاتے ہیں۔وہ صورتِ حال کافائدہ بھی اٹھاتاہے۔جب ایساہے تو پھرکسی بھی بڑی خرابی کی ذمہ داری بھی امریکاہی کوقبول کرنی چاہیے۔
جنگ کوایک پسندیدہ عمل کی حیثیت سے قبول کرنے کیلئیذہن تیارکرنے میں مغربی میڈیانے خاصانمایاں اوربھیانک کردارادا کیا ہے۔ امریکااوریورپ کے بیشترمیڈیاآوٹ لیٹس جنگ کوایک ایسی ناگزیرحقیقت کے طورپرپیش کرتے ہیں جوقوم قبول کرلے۔ جنگ وجدل کی کوریج کچھ اس اندازسے کی جاتی ہے کہ لوگ قتل وغارت کے مناظرکوبھی بخوشی قبول اورہضم کرلیں۔جنگ کوایک ناپسندیدہ اورتباہ کن حقیقت کی حیثیت سے پیش کرنے کے بجائے قابل قبول اوربہت حد تک کام کی چیزبناکرپیش کیاجارہا ہے۔مغربی میڈیاکی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جنگ کی کوریج دیکھتے ہوئے لوگ بے مزانہ ہوں۔جولوگ جنگ لڑتے ہیں اوراسے بھگتتے ہیں وہ زندگی بھرکیلئے ذہن اورجذبات کی سطح پرعدم توازن کاشکارہوجاتے ہیں۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنگ کسی بھی معاشرے کوکس حد تک بربادکردیتی ہے مگران کے پاس طاقت ہے نہ آواز۔وہ اگر چاہیں بھی توجنگ کے خلاف ذہن سازی نہیں کرسکتے۔ایک بڑی مصیبت یہ بھی ہے کہ معاشرہ ان لوگوں سے کچھ سننے کیلئے تیاربھی نہیں جوجنگ کے تباہ کن نتائج اچھی طرح جانتے ہی نہیں بلکہ بھگت بھی چکے ہیں۔عوام کسی بھی جنگ کواسی طرح دیکھتے ہیں، جس طرح وہ انہیں دکھائی جاتی ہے۔ اگر آپ کویادہوتوبن غازی(لیبیا)کے حوالے سے مائیکل بے نے13گھنٹیاس طورپیش کی کہ دھماکے،جوکسی بھی جنگ میں سب سے خطرناک حقیقت ہوتے ہیں،دیکھتے ہی دیکھتے”کول”یعنی قابل قبول ہوجاتے ہیں۔
گزشتہ ایک برس سے غزہ اوردیگرعلاقوں پرروزانہ کی بنیادپربمباری اوراس کے نتیجے میں زندہ انسانوں کے جس طرح پرخچے اڑائے جا رہے ہیں،ہسپتالوں تک کونہیں بخشاگیااور یہ سلسلہ ابھی تک نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں شدت پیدا ہونے کاامکان بڑھتاجارہاہے اور امریکانہ صرف اس کی مکمل پشت پناہی کررہاہے بلکہ انتخابی مہم میں دونوں امیدوار اسرائیل کی مکمل حمائت کررہے ہیں۔ٹرمپ کایہ بیان کہ "اسرائیل کوفوری طورپرایران کے ایٹمی پروگرام پرحملہ کرکے اسے تباہ کر دینا چاہئے”کیااس بات کاثبوت نہیں کہ اقتدار کے حصول کیلئے اس سارے خطے کوملیامیٹ کردیناان کامشن ہے۔یادرہے کہ اسرائیل گزشتہ ایک سال میں اس علاقے کی آبادیوں پر80ہزارٹن بارود برسا چکاہے جوعالمی جنگ میں استعمال ہونے والے گولہ بارود سے کہیں زیادہ ہے اورابھی تک یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔
امریکی فوج اب بھی یہی چاہتی ہے کہ جنگ کوایک بھرپوررجحان کی حیثیت حاصل رہے۔اس مقصدکاحصول یقینی بنانے کیلئے اخبارات وجرائداورٹی وی چینلزکے ساتھ ساتھ بالی وڈکی فلموں سے بھی کام لیاجارہاہے۔نئے ہتھیاروں کی تیاری کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔بہت سی فلموں کے ذریعے نئے ہتھیاروں اوران کی ٹیکنالوجی کا پرچار کیاجارہاہے۔ مقصدباقی دنیاکویہ باورکراناہے کہ اگر وہ آج کی دنیامیں جیناچاہتی ہے توجدیدترین ہتھیارحاصل کرنے کے ساتھ ساتھ جنگ پسندی کے رجحان کوپروان بھی چڑھاناہوگا۔
امریکااوریورپ نے اب تک دفاعی ٹیکنالوجی کے نام پرانتہائی خطرناک ہتھیارتیارکرنے پرغیرمعمولی توجہ دی ہے اورپھربہت سے خطرناک ہتھیاردنیابھرمیں فروخت بھی کئے ہیں ۔امریکی فوج تواس جنون میں مبتلارہی ہے کہ اس کے پاس انتہائی خطرناک ہتھیارہوں اوراس معاملے میں کوئی بھی اس کے پاس سے ہوکرگزرنے کی پوزیشن میں نہ ہو۔یہ سارا تماشاووٹروں کے اداکردہ ٹیکس کی مددسے برپا کیا گیاہے۔تعلیم اورصحت کے اداروں کی ضرورت ہے مگراس طرف متوجہ ہونے کی کسی کوتوفیق نہیں۔ منتخب ایوانوں میں بھی یہ نکتہ کم لوگ اٹھاتے ہیں۔سب کچھ قومی سلامتی کوبچانے کی چوکھٹ پرقربان کردیاگیاہے۔قدم قدم پر سیکیورٹی رسک کاروناروکرشہریوں کویہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کے بنیادی مسائل کے حل کیے جانے سے کہیں اہم ملک کا برقراررہناہے،ملک ہوگاتوان کے مسائل بھی حل ہوں گے۔ ہتھیاروں کواپ گریڈکرنے اورنئے ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے تحقیق وترقی کی مدمیں خطیررقوم مختص کی جاتی ہیں۔ کوئی خطرہ سامنے ہویاابھررہاہوتوٹھیک ورنہ نئے خطرات پیداکرکے پروان چڑھانے سے بھی گریزنہیں کیاجاتااورجیسے ہی کوئی بیرونی خطرہ ابھرتاہوامحسوس ہوتاہے،نئے ہتھیاروں کی تیاری اورپہلے سے موجودہتھیاروں کی اپ گریڈیشن کیلئے مختص کی جانے والی رقوم میں بھی اضافہ ہوجاتاہے۔
ویسے توخیرپورے یورپ کوامریکی نائن الیون کے بعدخاصے دشمن میسرآگئے ہیں مگرامریکااس معاملے میں خاص طورپر خودکفیل ہے اوران میں سے بیشترخودامریکی پالیسیوں کے پیداکردہ ہیں۔اسلحہ سازفیکٹریوں کوچلانے کیلئے ہروقت کوئی بڑا دشمن یامخالف میکانزم موجودرکھاجاتاہے۔امریکی سیاستدان دشمنوں کی تعداد میں اضافہ دکھانے کیلئے اگر کوئی بھرپور اور حقیقی دشمن نہ ہوتوفرضی دشمن کھڑاکرنے میں مہارت رکھتے ہیں جس کیلئے دہشتگردگروپوں کی درپردہ افزائش سے گریز نہیں کیاجاتاتاکہ امریکا کیلئے دنیابھرمیں کارروائیاں کرنے کاجوازباقی رہے۔چندعشروں کے دوران امریکانے کئی دہشتگردگروپ کھڑے کیے ہیں اوران سے بھرپورکام بھی لیاہے۔آپ نے بھی غورتوکیاہوگاکہ انتخابی مہم کے دوران وہی امیدوارسب سے زیادہ مقبولیت اورپھرکامیابی بھی حاصل کرتاہے جوملک وقوم کے دفاع پرسب سے زیادہ زوردیتاہے۔جودفاع پرزیادہ زوردیتاہے اسی کومحب وطن سمجھاجاتاہے۔
امریکااوریورپ میں ہتھیاروں کی صنعت کیلئے بہت سی مشکلات بھی پیداہوتی رہتی ہیں۔کسی بھی حریف میں اتنی قوت نہیں کہ امریکا اور یورپ کی سرزمین پرحملہ کرے اورجنگ کو وہاں تک مرتکزرکھے۔جب کسی حریف میں اتنادم ہے ہی نہیں توپھر ہتھیاروں کی صنعت چلتی رکھنے کاجوازکیاہے؟بس یہی وہ نکتہ ہے جس پراہلِ مغرب غورکرنے اوراس حوالے سے عملی طور پرکچھ کرنے کیلئے تیارنہیں۔دورنہ جائیں، اسی مثال کو لے لیں کہ امریکااب تک دنیاکے36ممالک میں جارحیت کامرتکب ہواہے اورکسی ایک بھی ملک میں نہ صرف بری طرح ناکام ہواہے بلکہ انتہائی ذلت ورسوائی کے ساتھ راہِ فراراختیارکرناپڑی ہے۔ ویتنام اورافغانستان میں بیس بیس سال تک آگ وخون کا کھیل کھیلتارہالیکن ویتنام سے راہِ فراراختیارکرتے ہوئے اس کی فوج کوہیلی کاپٹروں سے لٹک کربھاگناپڑالیکن اس کے باوجود 30 اگست2021کوافغانستان کے کمبل سے جان چھڑائی تھی لیکن امریکی جنگی مافیانے24فروری2022کویوکرین کی جنگ میں کود پڑا اورابھی تک جنگ جاری ہے۔پرنسٹن محققین کے مطابق” پچھلے دوسالوں میں جوہری جنگ کاخطرہ ڈرامائی طورپربڑھ گیا ہے کیونکہ امریکا اورروس نے جوہری ہتھیاروں پرقابوپانے کے طویل معاہدوں کوترک کردیاہے،نئی قسم کے جوہری ہتھیارتیارکرناشروع کردیے ہیں اور ان حالات کوبڑھادیاہے جن میں وہ جوہری ہتھیاراستعمال کرسکتے ہیں۔
امریکی جارحانہ پالیسیوں کے مطابق امریکااب بھی چاہتاہے کہ بعض شرپسندگروپ مستحکم رہیں اورمیدان سے نہ بھاگیں،انہیں کسی نہ کسی طورزندہ اورتوانارکھنے پرخاطرخواہ توجہ دی جاتی ہے۔ان گروپوں ہی کے دم سے امریکاکیلئیامکانات کی دنیا بھی اب تک جوان ہے۔ امریکااوریورپ دونوں ہی نے دہشتگردی برپاکرکے اس سے بھرپورفائدہ اٹھایاہے۔ امریکی پالیسیوں کی کوکھ سے خرابیوں نے جنم لیا ہے۔ ان خرابیوں کے ردعمل میں جوگروپ امریکاکے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ان کی درپردہ معاونت کرکے امریکانے یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ اسے نادیدہ دشمن یعنی دہشت گردوں کاسامناہے۔اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ امریکانے نائن الیون کے فوری بعد پاکستان کو”پتھرکے دورمیں بھیجنے”کی دہمکی دیکرہرقسم کی زمینی مددکے حصول کے بعدصرف ایک ماہ میں افغانستان پر57ہزارفضائی حملے کرکے اسے کھنڈرات میں تبدیل کردیالیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی وفاں کایہ بدلہ دیاکہ افغانستان میں اپنی موجودگی میں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کووہاں پاکستان کے خلاف دہشتگردی کیلئے فری ہینڈمہیاکردیااورآج تک بھارت امریکاومغرب کی پشت پناہی سے ان دہشت گردپراکسیزکی مکمل معاونت کررہاہے تاکہ پاکستان چین کے تعاون سے مکمل ہونے والے”سی پیک”کوختم کردے۔
12/اگست 2016 کوریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ نے براک اوبامااورہلیری کلنٹن کودولتِ اسلامیہ کے”شریک بانی”قرار دیتے ہوئے اپنے اس دعوے کی تردید کی کہ وہ عسکریت پسندگروپ کے عروج کے ذمہ دارہیں۔عرب ممالک کے سیال مادے سیاکٹھی کی گئی بے پناہ دولت جوامریکی بینکوں میں ہی محفوظ ہے،اس خطیررقوم سے پہلے توامریکی اسلحہ سازی کے کارخانوں نے امریکی معیشت کوسنبھال رکھاہے جس کیلئے خودمشرقِ وسطی میں پہلے اسرائیل کاخطرہ دکھاکران ممالک کومنہ مانگی قیمت پراسلحہ خریدنے پرمجبورکیاگیالیکن بعد ازاں خودانہی ممالک کے درمیان ایسی فسادکی آگ بھڑکادی کہ اب ان کی اسلحہ سازی کی صنعت کاپہیہ دن رات تیزی سے چل رہاہے۔
عراق کوایک سازش کے تحت پہلے ایران کے ساتھ آٹھ سال تک ایسی جنگ میں الجھادیاگیاجس کی قیمت صرف ان دوملکوں نے نہیں بلکہ تیل سے مالامال دوسرے پڑوسی ممالک کو بھی اس جنگ کی قیمت اداکرنی پڑی۔ابھی یہ عذاب ختم نہیں ہواتھاکہ عراق کوایک گھناؤنی چال میں پھنساکرکویت پرحملہ کروادیااورپھرسعودی عرب اورکویت کی مددکے بہانے ورلڈآرڈرکاآغازکرتے ہوئے خودباقاعدہ اس خطے میںاپنی پوری جنگی حکمت عملی کے تحت اپنی اوراتحادیوں کی افواج کے ساتھ عراق پرحملہ کرکے کویت کوواگزارکرایاگیا اورخود امریکی ریکارڈ کے مطابق امریکا نے جہاں کویت اورسعودی عرب سے اپنی خدمات کیلئے ان دونوں ممالک سے178/ارب ڈالروصول کیے اورعراق پر مجوزہ پابندیاں لگاکرعراق سے بھی120/ارب ڈالرخراج وصول کیا وہاں خطے کی سب سے بہترین اورجنگی وسائل سے مالامال عراقی فوج کو مکمل طورپرتباہ کرکے اپنے لے پالک اسرائیل کو عراق سے لاحق خطرات سے بھی محفوظ کردیاجبکہ اسرائیل پہلے ہی عراقی ایٹمی پروگرام کو ایک ایسے فضائی حملے میں تباہ کرچکاتھاجس کیلئے اس نے باقاعدہ سعودی عرب اورکویت کی اجازت سے ان ملکوں کی فضاوں کواستعمال کیا۔
اسی پراکتفانہیں کیاگیابلکہ بعدازاں ایک سازش کے تحت عراق پرخفیہ کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کاالزام لگاکرحملہ کرکے محض اس لئے تباہ برباد کردیاکہ عراق نے امریکی جارحیت کے بعداپنی فوج کوازسرنومنظم کرنے کیلئے روس اورچین سے عراقی تیل کے عوض کئی معاہدے کئے اور تمام ممالک سے عراقی پٹرول کی قیمت ڈالرکی بجائے یورواوردیگرکرنسیوں کی شرط رکھ دی اورامریکانے عراق پرقبضہ کرکے عراقی تیل
کے تمام ذخائرکی بیش بہادولت کاٹھیکہ امریکی کمپنیوں بالخصوص امریکی نائب صدرڈک چینی کے حوالے کردیاگیا۔ صدیوں سے محفوظ عراقی تہذیب کے بڑی بے رحمی کے ساتھ پرخچے اڑا دیئے گئے اورآج تک عراق میں خانہ جنگی جاری ہے اورتیل کی بے تحاشہ دولت والاملک آج غربت کی چکی پیس رہا ہے۔
تنازعات اور تشدد معاشروں کاحصہ ہے۔ بہت سی ثقافتوں میں جنگ وجدل سے رغبت ہردورمیں رہی ہے۔آج بھی ایسی بہت سی جنگیں لڑی جارہی ہیں جن کاامریکااورمغرب سے کوئی تعلق نہیں مگرپھربھی امریکاومغرب کا ہاتھ نمایاں ہے۔امریکی اور مغربی معاشرے اپنے ہتھیارفروخت کرنے کیلئے جنگ پسندی کوفروغ دے رہے ہیں۔کئی خطوں کوسلامتی کے حوالے سے شدید اندرونی خطرات سے دوچار کر دیاگیاہے۔متعددممالک کوغیرضروری طورپرجنگ میں الجھادیاگیاہے۔افغانستان،عراق،شام،لیبیااور یمن اس کی بہت واضح مثالیں ہیں۔ آج کے مغرب میں میڈیا،معیشت،سیاست،انٹرٹینمنٹ سبھی کچھ جنگ پسندی کے آغوش میں ہے، جب تک یہ رجحان ترک نہیں کیا جائے گاتب تک دنیا میں حقیقی امن کی راہ ہموارنہیں ہوسکتی۔