آئینی عدالت کا فیصلہ کہیں چیلنج نہیں ہوسکے گا، حکومتی مسودے کے نکات سامنے آگئے
شیئر کریں
آئینی ترامیم سے متعلق حکومتی مسودے کے نکات سامنے آگئے۔حکومت نے وفاقی آئینی عدالت بنانے کا فارمولہ سیاسی جماعتوں سے شیئر کردیا۔ مجوزہ ترمیم کے مطابق وفاقی آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت 7 ارکان پر مشتمل ہوگی، چیف جسٹس اور دو سینیئر ترین ججز رکن ہونگے۔حکومتی مسودے میں تجویز کیا گیا ہے کہ ایک وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی جس کے پہلے چیف جسٹس کا تقرر صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر کرینگے جبکہ آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس اور تین سینیئر ججز کا تقرر کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا اور کمیٹی میں 4 ارکان پارلیمنٹ، وفاقی وزیر قانون اور پاکستان بار کونسل کا نمائندہ شامل ہوگا۔مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ آئینی عدالت کے ججز کے تقرر کیلئے کمیشن تشکیل دیا جائے گا جس کے سربراہ چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت ہونگے اور کمیشن میں آئینی عدالت کے پانچ سینئر ترین ججز ممبران ہونگے۔اس کے علاوہ صوبائی آئینی عدالتیں چیف جسٹس، صوبائی وزیرقانون، بارکونسل کے نمائندے پرمشتمل ہوگی۔مجوزہ ترمیم کے مطابق جج کی اہلیت رکھنے والے کیلئے نام پرمشاورت کے بعد وزیراعظم معاملہ صدرکوبھجوائیں گے، وفاقی آئینی عدالت کے باقی ممبران کا تقرر صدر چیف جسٹس کی مشاورت سے کرینگے، چیف جسٹس اور ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے وزیراعظم کو دیے جائیں گے۔مجوزہ ترمیم کے تحت جج کی عمر 40 سال، تین سالہ عدالت اور 10 سالہ وکالت کا تجربہ لازمی ہوگا، جج کی برطرفی کیلئے وفاقی آئینی کونسل قائم کی جائے گی اور کسی بھی جج کی برطرفی کی حتمی منظوری صدر مملکت دیں گے۔مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکے گا، چاروں صوبائی آئینی عدالتوں کے فیصلوں پر اپیل وفاقی عدالت میں ہوسکے گی۔مجوزہ ترمیم کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر بھی 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہوگا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر تین سینیئر ترین ججز میں سے کیا جائے گا۔