مشعال خان کا قتل.... سانحہ کے اس پہلو پر بھی توجہ دی جائے
شیئر کریں
چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں طلبا کے تشدد سے ایک23سالہ طالب علم کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا سے 36 گھنٹے میں واقعے کی تمام تر تفصیلات اور اس حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کی پورٹ طلب کرلی ہے۔دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف نے عبد الولی خان یونیورسٹی میں طالبعلم کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں بے حس ہجوم کی طرف سے طالبعلم کے قتل پر بے حد دکھ ہوا۔وزیر اعظم ہاﺅس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کو ریاست کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔ملوث افراد کے خلاف کارروائی کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہا کہ واقعہ کے ذمہ داروں کی گرفتاری کے لیے پولیس کو ہدایت کردی ہے۔قانون پر عملدرآمد کی تلقین کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ قوم برداشت اور قانون کی حکمرانی کے فروغ کے لیے اتحاد کا مظاہرہ کرے، اس جرم کی مذمت میں پوری قوم متحد ہو۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی گستاخی کے الزام میں طالب علم کو ہلاک کیے جانے کے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مشعال کے مسئلے پر اجتماعی گروہ کی کارروائی کو اس معاشرے کے لیے شرمناک قراردیا ہے جو پیار، رحم اور ہمدردی کے علمبردار رسول پاک کی ذات پر یقین رکھتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کسی پر بنا تصدیق توہین رسالت کا الزام لگانا بھی توہین رسالت ہے، جبکہ یہ ہمارے پیارے نبی کی تعلیمات نہیں ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ مغرب ہم کو انتہاپسند کہتا ہے جب کہ دہشت گردی کا فلسفہ کچھ اور ہے، پاکستان کسی مذہب یا فرقے کی ملکیت نہیں بلکہ پاکستان پاکستانیوں کا وطن ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہب کو ذاتی مفادات کی خاطر استعمال کیا جا رہا ہے جب کہ ہماری درسگاہوں میں اگر مذہب کے نام پر تشدد کی لہر آ گئی تو یہ سب کچھ بہا کر ساتھ لے جائے گی۔ڈی آئی جی مردان عالم شنواری کے مطابق ہلاک ہونے والے طالب علم پر الزام تھا کہ اس نے فیس بک پر ایک پیج بنا رکھا تھا، جہاں وہ توہین آمیز پوسٹس شیئر کیا کرتا تھا۔انہوں نے بتایا کہ اسی الزام کے تحت مشتعل طلبہ کے ایک گروپ نے مشعال پر تشدد کیا، جس کے نتیجے میں طالب علم ہلاک ہوگیا۔پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس کے ذمہ دار عناصر کو کڑی سزا دلانے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔
مردان یونیورسٹی میں مشعال خان کے ساتھ پیش آنے والا یہ سانحہ اس بات کا عکاس ہے کہ پڑھے لکھے تعلیم یافتہ طبقے میں بھی ہنوز وہ شعور بیدار نہیں ہو سکا جو اعلیٰ تعلیم اور علم پیدا کرتا ہے۔ اصل حقیقت کو جانے بغیر کسی بات کی تحقیقات کیے بغیر ایک جعلی فیس بک اکاﺅنٹ اور اس کے ریمارکس پر مشتعل ہوکر پڑھے لکھے نوجوانوں کے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کے اس واقعے سے یہ سوال بھی پیداہوتاہے کہ کیا اس یونیورسٹی کے ہجوم میں جہاں نوجوان اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ لیتے ہیں ہجوم میں ایک بھی ایسا تعلیم یافتہ اورباشعور نوجوان نہیں تھا جو عقل کا راستہ اختیار کرتا اوراس مشتعل ہجوم کوسمجھانے کی کوشش کرتا۔جہاں تک مذہبی جذبات کا تعلق ہے تو ہمارا مذہب تو پہلے چھان بین کا حکم دیتا ہے۔ محسن انسانیت، سرور کائنات حضرت محمد مصطفی نے ہمیشہ شرف انسانیت کو مقدم رکھنے کا درس دیا۔ بالفرض اگر مقتول مشعال خان کے حوالے سے کوئی ایسی بات گردش کررہی تھی تو پہلے اس کی تصدیق کیو ںنہیں کی گئی۔ قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت تو کسی صورت نہیں دی جاسکتی۔ اس حوالے سے یہ بات اطمینان بخش ہے کہ پولیس نے واقعہ میں ملوث بیشتر فراد کوگرفتار کرکے ان سے پوچھ گچھ کرنے کے لیے ان کاریمانڈ بھی حاصل کرلیا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے بھی واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ عمران خان بھی سخت کارروائی کا کہہ چکے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے اہم اور خوش آئند بات یہ ہے کہ اب خیبر پختونخواہ کے عوام جن میں باریش بزرگ بھی شامل ہیں مشعال خان کوہلاک کرنے کے واقعے کی مذمت میں سڑکوںپر نکل آئے ہیں اور اس سے ظاہر ہوگیا ہے کہ مردان کے عام لوگ بھی اس سنگین جرم کے مرتکب ملزمان کومذہب کی اوٹ میں چھپنے کا موقع دینے کو تیار نہیں ہیں،تاہم موجودہ حالات میں یہ کیس جہاں خیبر پختونخوا حکومت کی گڈ گورننس کے لیے ایک چیلنج ہے وہیں یہ کیس خود وزیر اعظم نواز شریف اوروزیر داخلہ چوہدری نثار کے لیے بھی ایک چیلنج سے کم نہیں ہے اب انہیں یہ ثابت کرناہے کہ وہ اس ملک میں ہر قیمت پر قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں مخلص ہیں اور اس حوالے سے کسی کوبھی کسی بہانے اورلبادے کواستعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس حوالے سے مقتول مشعال خان کے والد اقبال شاعر کا یہ کہنا اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ صرف میرا بیٹا ہی قتل نہیں ہوا، بلکہ اس حکومت کی رٹ کو بھی چیلنج کیا گیا ہے، اگرحکومت اس کی کچھ خبر لے گی تو میری بھی دادرسی ہوجائے گی یعنی ملزمان کو قرار واقعی سز ا دے کر ہی مقتول کے والدین کو کچھ دلاسا دیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک مقتول مشعال خان کاتعلق ہے تو اس حوالے سے مقتول کے والد نے صاف صاف لفظوں میں بتایاہے کہ میں نے اپنے بیٹے مشعال خان کوپال پوس کے بڑا کیا تھا، خدا کو علم ہے، اور لوگوں کو پتہ ہے کہ میں نے اپنے بچوں کو بند دروازوں کے پیچھے بڑا کیا تھا، اگر میرے محلے میں کسی نے میرے بچوں پر انگلی اُٹھائی ہو تو بتا دیں میں ذمّہ دار ہوں گا۔ جہاں تک اس کے خیالات کا تعلق ہے توجب بھی دین کی بات آتی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیتا، اور چوں کہ وہ صحافی تھا سو اس نظام پر تنقید بھی کرتا تھا، اور اس وقت بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کا حوالہ دیتا تھا۔
مشعال خان کے قاتلوں کو سزا سے بچانے کی کوشش کرنے والا ایک حلقہ اب یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہاہے کہ وہ چونکہ روسی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتارہاتھا، اس لیے وہ کمیونزم کے خیالات رکھتاتھا۔مشعال خان کے قاتل گروپ کے حامیوں کی یہ دلیل بہت بودی ہے کیونکہ کسی کو صرف کمیونزم کے خیالات رکھنے یا روس یاچین میں تعلیم حاصل کرنے کی بنیاد پر کسی کے بارے میں یہ تصور کر کے کہ وہ ضرور اسلام سے برگشتہ ہوچکاہوگا درست نہیں ہے ،شاید مشال خان نے اپنے خیالات کا استعمال غلط انداز سے غلط لوگوں کے سامنے کیا ہوگا ۔ جب آپ ایسے لوگوں سے بحث کرتے ہیں جن کو اپنے عقیدوں کا تحفظ، بات چیت کے ذریعے نہیں آتا ایسے لوگوں کے سامنے بات چیت کا نتیجہ ایسا ہی نکلتا ہے کیونکہ جب ایک فریق کے پاس کہنے کو کچھ نہ ہو تو وہ زور بازو کا استعمال کرتا ہے اور ایسا ہی ہوا۔ مشعال خان کے پروفائل کے مطابق وہ خود کو انسان دوست (humanist) کہتے تھے۔ وہ باچا خان کے پیروکار تھے۔ ان کے پوسٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک تنقیدی سوچ رکھنے والے انتہائی حساس انسان تھے۔ ان کے کئی پوسٹوں سے لگتا ہے کہ معاشرے اور وہ انسانی رویوں سے بہت مایوس تھے اور کئی دفعہ پر شکوہ باتیں بھی شئیر کی تھیں۔ وہ ریاستی پالیسی پر بھی تنقید کرتے تھے۔ ایک پوسٹ میں انہوں نے لکھا تھا کہ ہمیں تاریخ میں صرف جھوٹ اور نفرت سکھائی جاتی ہے۔ ان کی کئی پوسٹس سفر کرنے اور سیکھنے سے متعلق تھیں۔ ایک پوسٹ میں انہوں نے دعا مانگی تھی کہ "اے خدایا تو مجھے جہالت میں خوش رکھے یا علم برداشت کرنے کی استطاعت دے!”اس طرح کی پوسٹس سے کہیں سے بھی یہ ثابت نہیںہوتاکہ مشعال خان مذہب سے برگشتہ نوجوان تھا یا وہ نبی کریم کے حوالے سے توہین آمیز خیالات کاحامل تھا ،اگر کچھ تھا بھی تو یہی کہ وہ معاشرے میں موجود بددیانتیوں اور منافقت سے نالاں تھا جو تمام نوجوانوں کو ہونا چاہیے۔اگر معاشرے کی بے اعتدالیوں اور منافقتوں سے بیزاری کا اظہار کسی کو سزائے موت کا سزاوار قرار دیتا ہے تو پھر اس معاشرے کا خدا ہی حافظ ہے، ارباب اختیار اور خاص طورپر ہمارے علمائے دین کو اس طرح توجہ دینی چاہیے اور انہیں نوجوانوں کو اسلام کی بنیادی تعلیم یعنی عفو ودرگزر کی راہ اختیار کرنے اور انتہائی اشتعال انگیز صورت حال میں بھی صبر وبرداشت کادامن تھامے رکھنے کی سختی کے ساتھ تلقین کرنی چاہیے ، اگر ایسا نہ کیاگیا تو یہ معاشرہ جو پہلے ہی بکھرتا جارہاہے مزید بکھر جائے گا او ر پھر اسے سیمٹنا شاید ممکن نہ رہے ۔
مشعال خان کے قتل کی تحقیقات کے دوران اس پہلوپر بھی توجہ دی جانی چاہیے کہ یہ کارروائی کہیں ان مذہب دشمنوں کی تو نہیں جو اسلامی قوانین اورخاص طورپر توہین رسالت کے قانون کو ختم کرانے کے درپے ہیں اور سالہاسال سے اس قانون کوختم کرانے کی کوششیں کررہے ہیں، ہوسکتاہے کہ ہر طرف سے مایوسی کے بعد انہوں نے یہ خطرناک کھیل کھیلا ہو اور چند سرپھرے نوجوانوں کو اپنا آلہ کار بنا کر اس قانون کو ختم کرانے کی سازش کررہے ہوں۔
حکومت سے امید ہے وہ انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی تاکہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔