نمازپڑھنا بھی 'جرم' ہوگیا صاحب
شیئر کریں
معصوم مرادآبادی
جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے والی اس ویڈیو کو جس نے بھی دیکھاوہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکا۔ واقعہ ہی ایسا تھا کہ ہر مسلمان کا خون کھول اٹھا۔ویڈیو دہلی کے اندرلوک علاقے کا تھا، جس میں ایک پولیس انسپکٹر نمازجمعہ کی ادائیگی میں مصروفمسلمانوں کو ایسے ٹھوکریں ماررہا ہے ، جیسے وہ انسان نہیں حیوان ہوں۔پولیس انسپکٹر نمازادا کرنے والوں کو دھکے ہی نہیں دے رہا تھابلکہ ان کو تھپڑبھی ماررہا تھا۔ نیت باندھے ہوئے نمازی ادھر ادھر گررہے تھے ۔ یہ منظر اتنا تکلیف دہ اور توہین آمیز تھا کہ اسے دیکھ کر ہر مسلمان کا خون کھول اٹھا۔لیکن پھر بھی انھوں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کی۔اندرلوک علاقہ کی جس مکی مسجد میں نماز جمعہ ادا کی جارہی تھی، وہاں کے لاؤڈاسپیکر سے باقاعدہ امن وامان برقرار رکھنے کی اپیل کی گئی۔ حالانکہ اس واقعہ کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد دہلی کے مسلم علاقوں میں اتنی کشیدگی پھیل گئی تھی کہ پولیس کو وہاں اضافی بندوبست کرنا پڑا۔اندرلوک کے مسلمانوں کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ مکی مسجد میں جگہ کی قلت کے سبب سڑک پر نیت باندھے ہوئے تھے ۔
شرمناک واقعہ کی ویڈیوآناً فاناً پوری دنیا میں پھیلی اور یہ سوال پوچھا جانے لگا کہ کیا ہندوستان میں اب نماز پڑھنا بھی جرم ہوگیا ہے اور ہندوستانی پولیس اتنی غیرانسانی ہوگئی ہے کہ وہ عبادت کرنے والوں کو بھی اپنی وحشت کا نشانہ بناسکتی ہے ۔ یہ وہی پولیس ہے جو اترپردیش میں کانوڑیاترا نکالنے والوں پر ہیلی کاپٹر سے پھول برساتی ہے ۔ ان کے لیے مہینوں عام شاہراہوں کو ہی نہیں بلکہ قومی شاہراہوں کو بھی بند کردیا جاتا ہے تاکہ کانوڑیوں کونقل وحمل میں کوئی دشواری پیش نہ آئے ۔ یہ سلسلہ دوچار دن نہیں مہینوں جاری رہتا ہے ۔ کانوڑ یاترا بھی سڑکوں کو گھیر کر نکالی جاتی ہے ۔ اگر چند منٹ کے لیے مسلمان سڑک پر جمعہ کی نماز اداکرتے ہیں تو ایسا کون سا آسمان ٹوٹ پڑتا ہے کہ پولیس انھیں دیکھ کر اپنا آپا کھوبیٹھتی ہے اور ان کے ساتھ وحشیانہ سلوک پر اترآتی ہے ۔ گویا نماز پڑھنے والے کوئی عادی مجرم ہوں اور انھیں سرعام ان کے جرم کی سزا دی جارہی ہو۔سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ نمازیوں کوٹھوکریں اس وقت ماری گئیں جب وہ خدا کے حضور میں سجدہ ریز تھے ۔ اگر یہ ٹھوکریں کسی اور موقع پر ماری گئی ہوتیں تو شاید اتنا اشتعال نہیں پھیلتا،کیونکہ یہ ہندوستانی پولیس کا عام طرزعمل ہے اور وہ عوام کے ساتھ اسی طرح پیش آتی ہے ۔ حالانکہ قانونی طورپر کسی بدترین مجرم کو بھی مارنا پیٹنا قانوناً جرم ہے ۔ کسی بھی مجرم کو سزا دینے کا اختیار صرف عدالت کو ہے ۔ قانون کسی بھی ملزم یا مجرم کو زدوکوب کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ پولیس کی ٹھوکریں کھانے والے نہ تو کوئی عادی مجرم تھے اور نہ ہی انھیں کسی غیر قانونی سرگرمی میں گرفتار کیا گیا تھا بلکہ وہ عام مسلمان تھے اور اپنے رب کا حکم بجارہے تھے ، لیکن انھیں اس بات قطعی اندازہ نہیں تھا کہ اب اس ملک میں مسلمان ہونا ہی سب سے بڑا جرم بنتا جارہا ہے ۔
پولیس کے طرزعمل میں اچانک تبدیلی کا سبب کیا ہے ، مجھے نہیں معلوم۔ مگر میں نے اسی دہلی کے گاندھی نگر علاقہ میں جہاں ریڈی میڈ گارمنٹ کی ایشیاء کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے ، ہر جمعہ کو جمنا پشتے کی سڑک پر نمازیوں کے لیے پولیس کو خصوصی انتظامات کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔یہاں لب سڑک ایک چھوٹی سی مسجدواقع ہے ، لیکن جمعہ کے دن نمازیوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ جاتی ہے تو پولیس ان کے لیے نہ صرف سڑک بند کردیتی ہے بلکہ نماز کی پرامن ادائیگی کے لیے خصوصی بندوبست کیا جاتا ہے ۔لیکن اندرلوک میں اسی دہلی پولیس کا یہ مکروہ چہرہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے ۔ جب سے ملک میں نیا نظام آیا ہے سب کچھ بدل گیا ہے ۔ مسلمان اجنبی ہوگئے ہیں اور ان کی ہر حرکت وعمل پر نظر رکھی جارہی ہے ۔ یہاں تک کہ انھیں عبادت کرنے سے بھی روکا جارہا ہے ۔ ان کی مسجدوں کے خلاف مقدمے قائم ہورہے ہیں۔ ہر تاریخی مسجد کے نیچے ایک مندر تلاش کرنے کی شرانگیز مہم چلائی جارہی ہے ۔ان کے مدرسوں اور مکتبوں کو بند کرنے کے احکامات دئیے جارہے ہیں۔ مزاروں اور مسجدوں کو ناجائز تعمیرات قرار دے کر ان پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں۔ واقعی میرا بھارت بدل رہا ہے اور میں اس بھارت کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھارہا ہوں جہاں اوپر والے کا خوف سب سے زیادہ تھا۔ لیکن اب نیچے والوںنے دلوں پر اتنی دہشت بٹھا رکھی ہے کہ سب کچھ ان ہی کی مرضی کے مطابق ہورہا ہے ۔
شمالی دہلی کے اندرلوک علاقہ میں نمازیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرنے والے سب انسپکٹرنریندرسنگھ تومر کو فی الحال معطل کرکے محکمہ جاتی کارروائی شروع کردی گئی ہے لیکن یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس کے اندر اتنی ہمت کہاں سے آئی کہ وہ عبادت میں مشغول مسلمانوں پر وحشیانہ انداز میں حملہ آور ہوگیا؟ کانگریس پارٹی کی ترجمان سپریا شیرنیٹ نے وائرل ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے درست ہی لکھاہے کہ امت شاہ کی دہلی پولیس کا مقصد امن، خدمت اور انصاف ہے اور وہ بہترین کام کررہے ہیں۔ دراصل دہلی میں سرکار تو عام آدمی پارٹی کی ہے ، لیکن یہاں کا نظم نسق براہ راست مرکزی وزارت داخلہ کے کنٹرول میں ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ یہ وہی پولیس ہے جس کی ایک ویڈیو 2020میں شمال مشرقی دہلی کے ہولناک فساد کے دوران وائرل ہوئی تھی۔اس ویڈیو میں پولیس والیشدید زخمی مسلم نوجوانوں کو اسپتال پہنچانے کی بجائے ان سے حب الوطنی کے نغمے سنانے کا مطالبہ کررہے تھے ۔ بعد میں ان میں سے ایک نوجوان نے اسپتال میں دم توڑ دیا تھا۔ عدالت کی پھٹکار کے باوجود دہلی پولیس ان جوانوں کی شناخت نہیں کرسکی ہے جو اس انسانیت سوز حرکت میں ملوث تھے ۔
اندرلوک کا واقعہ دراصل اس نفرت کا ہی نتیجہ ہے جو ایک منصوبے کے تحت اس ملک کے اکثریتی طبقے میں مسلمانوں کے خلاف بھردی گئی ہے۔ یہ نفرت دن بہ دن بڑھتی چلی جارہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو دیکھ کر دہلی پولیس کا ایک سب انسپکٹر اپنا آپا کھوبیٹھتا ہے اور اپنا اخلاق، اپنی تہذیب اور دیگر مذاہب کا احترام سب کچھ بھول کر ایک وحشی کی طرح ان پر ٹوٹ پڑتا ہے ۔ ظاہر ہے ہمارے حکمرانوں کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ ہاں دنیا ان واقعات کوبڑی تشویش کے ساتھ دیکھ رہی ہے اور وہ اس پر فکر مند ہے ۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے ہندوستان میں اقلیتوں، میڈیا اور سیول سوسائٹی پر حملوں کی اطلاعات پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے 2024کے عام انتخابات سے قبل فوری اصلاحی کارروائی کا مطالبہکیاہے ۔اقوام متحدہ کے ماہرین نے آنے والے انتخابات سے قبل صورتحال مزید بگڑنے کا اندیشہ ظاہر کیا۔اس سے قبل واشنگٹن سے کام کرنے والی’انڈیا ہیٹ لیب’نے گزشتہ ہفتہ اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہہندوستان میں نفرت کی سیاست تمام سابقہ
ریکارڈ توڑتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔رپورٹ کے مطابق ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر میں 2023 کی دوسری ششماہی میں پہلی ششماہی کے مقابلے 62 فیصد کا اضافہ ہواہے ۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ہندوستان میں حالیہ کچھ عرصے میں ایسی تنظیموں اور گروپ میں اضافہ ہوا ہے ، جو ملک میں نفرت انگیزی کے لیے ذمہ دار ہیں۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں مسلم مخالف اشتعال انگیزی میں ریکارڈ اضافہ ہورہا ہے اور یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔ دہلی کے اندرلوک علاقہ میں سجدہ ریز مسلمانوں کے ساتھ پولیس کا وحشیانہ سلوک اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔