میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کیا نئی ڈاکٹرائن میں افغانستان کو پاکستان کا دشمن بنانا مقصود ہے؟

کیا نئی ڈاکٹرائن میں افغانستان کو پاکستان کا دشمن بنانا مقصود ہے؟

جرات ڈیسک
بدھ, ۳ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ان دنوں انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ کونسلر کی سطح کے لوگ پاکستان کے اعلیٰ مناصب پر بیٹھ کر اہم ترین قومی معاملات میں روزانہ ایسی ایسی پھلجڑیاں چھوڑ رہے ہیں کہ جس سے اُٹھنے والی کوئی ایک چنگاری بھی ہمارے دو برادر اسلامی ملکوں کی سرحدوں میں نہ ختم ہونے والی آگ لگاسکتی ہے۔ مگر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بڑھتی ؎ کشیدگی کے تلخ ایام میں یہ خوشگوار خبر آئی ہے کہ افغان طالبان کے سینئر رہنما اور صوبہ قندھار کے گورنر ملا شیریں اخونداگلے چند دنوں میں اسلام آباد تشریف لا رہے ہیں، جہاں وہ پاکستان افغانستان کے درمیان صورت حال کی بہتری کے لیے بات چیت کریں گے۔ پاکستان اور افغانستان دو برادر اسلامی ممالک ہیں جن کے درمیان تاریخی، نسلی، لسانی معاشی، جغرافیائی اور تہذیبی رشتے ہیں۔ یہ رشتے تبدیل نہیں ہو سکتے۔ ان اٹوٹ رشتوں نے دونوں ممالک کو باندھا ہوا ہے۔مگر گزشتہ چند ہفتوں سے ان تعلقات پر مختلف قسم کے سائے پڑ رہے ہیں۔افغان تارکین وطن اور پاکستان میں دہشت گردی کی لہر کے باعث افغان حکومت کے رویے پر پاکستان شاکی دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کے اندر عسکری حلقوں سے بھی مختلف قسم کی شکایتیں افغانستان کے باب میں سنائی دے رہی ہے۔ اس معاملے کی تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی نزاکتوں سے قطع نظر یہ پہلو نہایت حساس ہے کہ خود پاکستان اپنی تمام سرحدوں پر اب ناخوشگوار معاملات کا سامنا کر رہا ہے۔ لہٰذا حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر معاملے کی تہہ داریوں کو اچھی طرح جانچ پرکھ کر انتہائی محتاط الفاظ کا استعمال کر نا چاہئے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں کچھ عرصے سے کچھ ناعاقبت اندیش دانشور وں اور حکمرانوں کے لب ولہجے ایسے ہوتے جا رہے ہیں کہ وہ افغانستان کو ایک دشمن ملک کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ایسا لب ولہجہ اختیار کر رکھا ہے جو وزیر اعظم کے منصب پر فائز کسی بھی شخص کو زیب نہیں دیتا۔ہو ایک سادہ موقف کو بھی ایسے الفاظ میں پیش کرتے ہیں کہ جیسے یہ اُن کے ذمہ ہے کہ وہ اپنی بات کرنے کے بجائے اس میں سامنے والے فریق کو دشمن بنا کر چھوڑیں۔ مثلاً غیر قانونی تارکین وطن افغانیوں کے معاملے میں اُنہوں نے یہ الفاظ کہے کہ ”ہماری اہم ذمہ داری پاکستان ہے افغانستان نہیں“۔ یہ الفاظ یورپی ممالک میں غیر قانونی تارکین وطن کے لیے بھی کبھی وہاں کی حکومتوں سے نہیں سنے جاتے۔ جبکہ وہاں جانے والے لوگ اُن ملکوں سے کوئی تاریخی، نسلی، ثقافتی، لسانی یا تہذیبی تعلق واسطہ بھی نہیں رکھتے۔ جبکہ یہاں پر موجود ان تارکین وطن کا معاملہ سادہ طور پر غیرقانونی مقیمین کا بھی نہیں تھا۔ بلکہ یہ عجیب وغریب تہہ داریاں بھی رکھتا تھا۔ ایک اچھا بھلا پاکستان کا تاریخی اقدام بھی ہمارے لب ولہجے اور الفاظ کی گراؤٹ سے حسن سلوک کے بجائے بدقسمتی سے بدسلوکی، غیر شائستگی اور بدتہذیبی کے تلخ و ترش انداز میں ڈھل گیا۔ یہی کام نہایت بھلے طریقے سے بھی ہو سکتا تھا۔ اور اس پرنگراں وزیراعظم کی سطح پر کسی بیان بازی کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی جانب سے پاکستان میں جاری دہشت گردی کے باب میں بھی پاکستان کا موقف اچھے الفاظ میں پیش نہیں کیا گیا۔ ایک درست موقف کو بھی انتہائی غلط الفاظ میں پیش کرنے کا کڈھب رویہ انوارالحق کاکڑ کی پہچان بنتا جارہا ہے۔ مثلاً نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے دو ملکوں کے تعلقات کو گلی محلے کے آستین چڑھانے والے انداز کی سطح پر اتارتے ہوئے یہ الفاظ استعمال کیے کہ ”وہ اچھے طریقے سے جانتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کہاں موجود ہے، اگر کوئی پاکستان کے عوام اور سیکیورٹی فورسز پر حملہ آور ہوگا تو اس کا جواب دیا جائے گا اور اس کو خاموشی سے برداشت نہیں کریں گے“۔ یہ کافی نہ تھا کہ ایک خصوصی انٹرویو میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے یہ تک کہہ دیا کہ ”افغانوں کے دل و دماغ جیتنے کا ہدف ہی غلط ہے۔ ہماری اہم ذمہ داری پاکستان ہے افغانستان نہیں“۔یہ حیرت انگیز امر ہے کہ دنیا بھر میں یہ جو ہائبرڈ وار کا چرچا ہے جس میں حریفوں تک کے دماغوں میں داخل ہونا ہدف قرار دیا جاتا ہے اور یہ جو ففتھ اور سکس جنریشن وار کے تذکرے اکثر آئی ایس پی آر کی طرف سے سنائی دیے جاتے ہیں کہ دشمن ہمارے اندر کیا حرکتیں کر رہا ہے۔ یہ سب دل ودماغ جیتنے ہی کے حربے ہوتے ہیں۔ یہ ہدف تو دشمن ملکوں کے لیے بھی ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے الفاظ سے پتہ چلتا تھا کہ وہ تو دوست ملکوں کو بھی دشمن بنانے کے ہدف پر نکلے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہے اس کے پیچھے کوئی منظم منصوبہ ہے یا یہ ایک اوسط سے کم درجے کے آدمی کو اعلیٰ ترین منصب سپرد کرنے کے ناگزیر نقصانات ہیں اس کا جواب تو ابھی کہیں سے مل نہیں سکا مگر پاکستان کے یہ سطحی اور اور حد درجہ نچلی زبان سے گفتگو کرنے والے وزیراعظم کے انداز وتیور سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ اُن کے اس رویے پر وزارت خارجہ یا کسی بھی سطح سے اُنہیں کوئی آگہی دی گئی ہوگی کہ کس معاملے میں کیسی زبان استعمال کرنی چاہئے؟
بہرحال اب افغانستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ بداعتمادی کی فضا میں یہ اچھی خبر ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر رابطے جاری رکھنے اور مسائل نمٹانے کے لیے بات چیت کا عمل جاری رکھنے کی سوچ موجود ہے۔ اسی کو دل ودماغ جیتنے کی کوشش کہا جاتا ہے۔ جس کے متعلق انوار الحق کاکڑ فرماتے ہیں کہ یہ ہمار ہدف ہی نہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ افغانستان کو گزشتہ چار دہائیوں میں عالمی طاقتوں کی جانب سے دومرتبہ فوج کشی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جس سے افغانستان اندرونی او ربیرونی سطح پر مختلف قسم کے مستقل مسائل کا شکار ہے۔ افغان بھائیوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ان معاملات کو حل کرنے میں پاکستان نے اپنا دستِ تعاون ہمیشہ دراز کیا ہے۔جنگ کی تباہ کاریوں کے دوران میں لاکھوں افغان خاندانوں کا پاکستان پہنچنے پر نہ صرف اُن کا استقبال کیا گیا۔ بلکہ دنیا میں جہاں کہیں تارکین وطن کے کیمپ قائم کیے جاتے ہیں اور اُن پر جو پابندیاں لاگو کی جاتی ہیں، اُن کا بھی کوئی اطلاق ان پر نہیں کیا گیا۔ بلکہ ان افغان بھائیوں کو پاکستانی معاشرے میں پوری طرح جذب ہونے کی اتنی آزادی دی گئی کہ وہ پاکستان بھر میں اپنے کاروبار کرسکتے تھے، یہاں تک کہ وہ اس معاملے میں اپنے ذاتی قضیوں کو بھی اس طرح نمٹاتے تھے کہ اس میں اُنہیں کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا گیا کہ وہ یہاں پر غیر قانونی مقیم ہیں۔ اس معاملے میں پاکستانی شہریوں کو اکثر شکایات بھی رہتی تھیں، مگر مخصوص حالات کے باعث ان شکایتوں کو مسلسل نظراندازکیا جا تا رہا۔ پاکستان میں نوگیارہ کے بعد
افغانستان پر امریکی کی قیادت میں نیٹو کی لشکر کشی کے باعث اسلام آباد حکومت پاکستان کے اندرونی حالات میں کچھ ایسی لاچاریوں اور مجبوریوں کی شکار ہوئیں اور کچھ ایسے اقدامات کی بداحتیاطیاں ہوئیں کہ جس کے اثرات ختم ہونے میں نہیں آرہے۔ اس ناپسندیدہ صورت حال نے افغان طالبان کی امریکا کے خلاف بے مثال مزاحمت کی حمایت مقامی سطح پر مختلف انداز میں ہوئیں۔ جس میں سے ایک شکل تحریک طالبان پاکستان کی شکل میں نکلی۔ بدقسمتی سے یہ تحریک افغانستان میں طالبان مزاحمت کی حمایت تک محدود نہیں رہ سکی اور اس نے پاکستان کے اندر مخصوص اقدامات کے خلاف ایک ردِ عمل دینا شروع کیا۔ تب پاکستان کے اندر بھی ایک گہری تقسیم پیدا ہوئی۔ ایسے لوگ وسیع تعداد میں موجود تھے جو افغانستان کے ردِ عمل میں پاکستان کے اندر جاری مخصوص امریکی حمایت یافتہ سرکاری کارروائیوں پر سوال اُٹھاتے تھے۔ اسی طرح جو جو گھر نشانہ بن رہے تھے اُن کے ممکنہ ردِ عمل کے اثرات کی مسلسل نشاندہی بھی کر رہے تھے۔ اب یہ حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔ افغانستان کے اندر خیر سے طالبان کی اسلامی حکومت موجو دہے۔ جو پوری آزادی سے اپنے قومی فیصلے کر رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان اُن جنگجو گروپوں کے خلاف کارروائی چاہتا ہے جو تاحال پاکستان کے اندر کسی نہ کسی بہانے کوئی نہ کارروائی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر چہ افغانستان کی طالبان حکومت خود کو اس سے بری الذمہ قرار دے چکی ہے اور طالبان امیر ملاہیبت اللہ اخوند زادہ کی جانب سے ایک فتویٰ بھی سامنے آچکا ہے کہ پاکستان کے اندر ہر قسم کی کارروائی حرام ہے۔ مگر اس کے باوجود عسکری گروپوں میں اس پر ایک جوابی مذہبی جواز پیش کیا جاتا ہے اور اپنی کارروائیوں کو چھوڑنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا جا رہا۔ اس عالم میں پاکستان افغانستان سے یہ چاہتا ہے کہ وہ ان گروپوں کا خاتمہ کرے۔ دوسری طرف افغان حکومت افغانستان کے مخصوص جغرافیہ اور اندرونی مخصوص حالات کے باعث بعض مجبوریوں کا ذکر کرتی ہے۔ ان مجبوریوں میں ان گروپوں پر مکمل اثر نہ ہونے کا بھی ایک جواز موجود ہے۔ اسی طرح ان گروپوں کا خود طالبان کے خلاف کھڑے ہو کر ایک بڑے خطرے داعش کے ساتھ ملنے کا اندیشہ بھی برقرار ہے۔ چنانچہ ایسے گروپوں کو ختم کرنے کے لیے ایک وقت اور حکمت کی ضرورت پر افغانستان کی جانب سے زور دیا جارہا ہے۔مگر پاکستان ا س معاملے میں کسی قدر عجلت یا سرعت دیکھنا چاہتا ہے۔ بہرحال اندرون خانہ معاملات جو بھی ہو، مگر یہ ایک خوشگوار بات ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے اندر بات چیت کرنے کی کوششیں سامنے آ رہی ہیں۔ بس ان کوششوں کو اوسط درجے سے کمتر نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی بیان بازیوں سے بچانے کی ضرورت ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں