کشمیر......فولادی عزم کی ضرورت
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
سوبدائی بہادرمنگولوں کے عظیم بادشاہ چنگیزخان کاایک نامورسالارگزراہے۔خانہ بدوش منگول لٹیرے تموجین سے خان اعظم چنگیزخان بننے تک کے سفرمیں سوبدائی کاسب سے اہم حصہ رہاہے۔عسکری ماہرین کہتے ہیں کہ اگرسوبدائی چنگیزخان کا کمانڈر نہ ہوتاتوشایدمنگول اس قدرحیران کن فتوحات نہ حاصل کرپاتے۔سوبدائی نے بیس کے قریب جنگیں اوربے شمارلڑائیاں لڑیں مگر کسی میں شکست نہیں ہوئی۔ تاریخ شاہدہے کہ بطورکمانڈراس نے جس قدرعلاقہ فتح کیا،انسانی تاریخ میں اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔سوبدائی انتہائی زیرک اور شاطرجنگجوتھا۔اسلامی تاریخ کے ایک بے مثل جنگجو بیبرس نے عین جالوت کے مقام پرہلاکوخان کے سالاربوغاکوشکست دی جومنگولوں کو 38 برس میں ہونے والی شکست تھی جوان کے زوال کاسبب بنی۔
سوبدائی نے چین اورمشرقی یورپ میں شاندارفتوحات حاصل کیں۔پولینڈاورہنگری کی فوجوں کوصرف دودنوں میں تباہ وبرباد کر دیا۔ منگولوں کے مطابق سوبدائی پرچالیں دیوتاؤں کی جانب سے اترتی ہیں۔چنگیزخان کے بعداس کابیٹااوغدائی خان اعظم بنا۔روس،بلغاریہ اور دوسرے علاقوں پرحملہ کیلئے اس نے منگول شہزادے باتوخان کی رہنمائی کیلئے سوبدائی کوبھیجا۔ سوبدائی بوڑھااوراس قدرموٹاہوچکاتھاکہ گھوڑے کیلئے اس کاوزن اٹھاناممکن نہیں رہا۔اس کے باوجود باتوخان سوبدائی کوایک رتھ میں بٹھاکرساتھ لے گیاتاکہ جنگ کے دوران سوبدائی کی شاطرانہ چالوں سے فائدہ اٹھاسکے۔اوغدائی کے بعداس کابیٹا قویوق خان اعظم بنا۔اس نے سوبدائی کوبلابھیجا۔سوبدائی نے پیرانہ سالی کے باعث مستعفی ہونے کی درخواست کی تونوجوان قویوق نے تجربہ کارسالارسے پوچھاسوبدائی بہادر!میں فیصلہ سازی میں کمزورہوں۔مجھے بتاؤکہ میراعظیم داداکیاکرتاتھا؟ سوبدائی بہادر نے اپنے گنجے سرپرہاتھ پھیرتے ہوئے ترچھی آنکھوں سے خان اعظم قویوق کودیکھااوراپنی روایتی صاف گوئی سے بولا،مجھے تمہاری بات سن کرخوشی نہیں ہوئی۔یادرکھو!بادشاہ کبھی اپنے فیصلوں میں گومگو کا شکار نہیں ہوتے۔ مستقبل کے اندیشوں اورممکنہ خطرات سے گھبراناسپاہیوں کونہیں تاجروں کوزیب دیتاہے۔تمہارے داداچنگیزخان کی فتوحات کاسب سے بڑارازتربیت یافتہ فوج اورجنگی چالوں سے زیادہ اس کافولادی عزم اورواضح اہداف تھے۔خان اعظم کے بے شمار دشمن تھے۔ خود منگولوں میں سے کئی سرداراس کے مخالف تھے۔ اس کے باوجودخان کبھی بھی سازشوں سے نہیں گھبرایا۔ مضبوط عزم اورواضح اہداف رکھنے والاسالاریابادشاہ کبھی شکست سے دوچارنہیں ہوتا۔
امیرتیمورایک شاندارجنگجواورداناشخص تھا۔اس کی سوانح پڑھ کراحساس ہوتاہے کہ اپنے تمام ترمظالم اورشخصی کمزوریوں کے باوجود وہ ایک غیرمعمولی شخص تھا۔امیرتیمورکامشہورقول ہے کہ کمزوری یاطاقت کوئی الگ شے نہیں۔مخالف کی کمزوریاں کسی شخص کوطاقتوربنادیتی ہیں۔اسی طرح اس کی اپنی کمزوری دشمن کوطاقتوربناتی ہے۔منگول قائدکے ایک قول کو ہمیشہ دہراتا تھاکہ ”سپاہی کے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے۔بہادری،جرات اوردلیری کاراستہ،جسے مضبوط عزم ہی سے عبورکیاجا سکتا ہے”۔
اس قصے پرسنجیدگی سے غورکریں توہمیں تین کامیاب اسباق ملتے ہیں:
پہلاتونوجوان منگول کابہادرسودائی کے سامنے یہ اعتراف کہ”میں فیصلہ سازی میں کمزورہوں اوراس کے جواب میں سودائی کے تاریخ سازجواب دوبارہ پڑھ لیں کہ فیصلوں میں گو مگو،اندیشوں اورممکنہ خطرات سے گھبرانے کی کیفیت سے گریزاور فولادی عزائم کواپنانے کی نصیحت نظرآتی ہے۔اسی سبق کی روشنی میں ہم اپنامحاسبہ کرتے ہیں کہ کیاہم آج تک کشمیرکے معاملے میں گومگوکابری طرح شکار نہیں ہیں۔ پچھلی سات دہائیوں میں کشمیرکے بارے میں اپنی خارجہ پالیسی کاجائزہ لیں توکوئی ایک پالیسی بتادیں جس پرہم نے باقاعدہ عمل کرکے کشمیرکی ایسی وکالت کی ہے جس کی بناپرہم اقوام عالم کومجبورکرسکیں کہ مشرقی تیمورکی طرح کشمیرکا تنازع حل کیے بغیردنیاکاامن مسلسل ایک ایساخطرناک بن سکتاہے کہ جس سے ساری دنیاکوتباہی کامنہ دیکھناپڑ سکتاہے۔میں آپ سب کے سامنے تارِیخ کاوہ آئینہ رکھ دیتاہوں جس میں ہم اپنے چہرے کاجائزہ لے سکتے ہیں:ہم نے آج تک کشمیر کا ساتھ جس طرح دیاہے،وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔
76سالوں سے ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔لاکھوں کشمیری شہیدہوگئے ہم ساتھ کھڑے ہیں۔لاکھوں کشمیری بہنوں بیٹیوں کی عزتیں لٹ گئیں مگرہم ساتھ کھڑے ہیں۔ لاکھوں مائیں بیوہ ہوگئیں ہم ساتھ کھڑے ہیں۔لاکھوں بچے یتیم ہوگئے ہم ساتھ کھڑے ہیں۔ لاکھوں کشمیری معذورہوگئے ہم ساتھ کھڑے ہیں۔اب کشمیرکی شناخت بھی ختم کر دی گئی ہے اورہم ساتھ کھڑے ہیں۔آخر ہم سچ کب بولیں گے کہ کشمیری ہمارے وعدوں پریقین کرکے لٹ گئے جبکہ ہم لیٹ گئے ہیں۔کیاہم یہ بھول گئے کہ امریکاکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ٹرمپ نے برملاکشمیرکے معاملے پرثالثی کی آفرکی تواس سے اگلے دن ہی میں نے ایک عالمی ٹی وی چینل پر اپنے پروگرام میں یہ دہائی دی کہ لوگواب کشمیرہمارے ہاتھوں سے مکمل طورپرنکل گیاہے توبے شماریوتھیوں نے سوشل میڈیاپراپنی جس تربیت کااظہارکیا،وہ سارے پھول میں نے اپنے دامن میں جمع کرلئے ہیں اوریوم آخرت کویہ سارا گلدستہ اپنے رب کے ہاں پیش کردوں گا۔
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
کشمیریوں کوذلت کی زندگی سے نکالنے کیلئے گومگوکی کیفیت سے نکل کریقینِ محکم کے ساتھ فیصلے کرناہوں گے اورپھر ان فیصلوں پراسی طرح ڈٹ کرکھڑاہوناپڑے گاجیسافیصلہ23 سال پہلے ملاعمرنے کیاتھااوراس فیصلے کانتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ اس سرزمین کے سپوتوں نے دنیاکی تین بڑی طاقتوں کے قبرستان اپنے ہاں قائم کرکے ایک تاریخ رقم کی ہے۔اسی طرح کشمیرمیں بھی درجنوں شہدا کے قبرستان وجودمیں آچکے ہیں اوران شہدا کے قبرستان سے مجھے کشمیرکامردحرسید علی گیلانی یادآگئے جنہوں نے ان شہداکے قبرستان میں دفن ہونے کی وصیت کی تھی لیکن بزدل ہندوبنیاان کی میت سے بھی اس قدرخوفزدہ ہواکہ زبردستی ان کے اہل خانہ سے ان کی میت چھین کراپنی مرضی سے حیدرپورہ کے قبرستان میں دفن کر دیااوربعدازاں ان کے اہل خانہ پرمقدمہ دائرکردیاگیاکہ انہوں نے اس میت کوپاکستانی جھنڈے میں کیوں لپیٹ کررکھاہواتھا۔
مانگے جوکوئی مجھ سے تیرے نام کاصدقہ
میں خودکوپھینک دوں تیرے سرسے وارکر
جب سیدعلی گیلانی کی طبیعت اچانک اس قدربگڑگئی کہ کئی ایسی افواہوں نے جنم لے لیاکہ ساری دنیامیں ان سے محبت کرنے والوں میں ایک اضطراب پیداہوگیااورمیں خودپرقابونہ رکھ سکااورفوری طورپررابطہ کیاتوان کے فرزندِارجمند ڈاکٹر نعیم صاحب نے افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہاکہ اس میں شک نہیں کہ حالت بہت نازک ہوگئی ہے اوردعاؤں کی بھی اشد ضرورت ہے مگروالدمحترم نے مودی سرکارکی طرف سے میڈیکل سہولت اورخصوصی طیارے کی آفر کو مکمل طورپر مستردکرتے ہوئے سارامعاملہ اللہ پرچھوڑدیاہے اورموسم کی خرابی کی بنا پرہم اپنے تئیں کم ازکم آج دہلی جانے سے قاصر ہیں۔پھران کے وصال سے چندگھنٹے قبل کی ویڈیونے توساری دنیا کو ششدر کر دیا کہ کس طرح اللہ اوررسول کی گواہی دینے کے بعدپاکستان کے قومی ترانے کے بول ان کے لبوں پرتھے،جب موت سامنے ہوتوبڑے بڑے بہادروں کاپتہ پانی ہوجاتاہے اورصرف صاحبِ کردارہی ایسی مثالیں قائم کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔میری جب ان سے بات ہوئی تو بڑی دلسوزی سے فرمانے لگے: سننے میں آیاہے کہ پاکستان بھارت کو”’موسٹ فیورٹ ملک”کادرجہ دینے کیلئے تیارہے اوراب صرف کسی بھی وقت اعلان کرناباقی ہے۔اس بارے میں ہم جموں وکشمیرکے مظلوم عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہمیں بھارت کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے،بھارت اورپاکستان کے درمیان تعلقات خوشگوارہوجائیں اس کیلئے ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ بھارت جوجموں وکشمیرکے عوام کا بنیادی اورپیدائشی حق پچھلے محض طاقت کی بنیادپرسلب کئے ہوئے ہے اور اب تک جموں وکشمیرکے عوام نے 1947سے لیکر اب تک اپنے بنیادی حق کے حصول کیلئے سوالاکھ سے زائد اپنی جانوں کی جوقربانیاں دی ہیں،عزتیں اورعصمتیں لٹ گئیںہیں،بستیاں اجاڑدی گئیں ہیں اوراب تک بھارتی فورسز کی جانب سے جموں وکشمیر کے عوام کو بے پناہ مظالم کانشانہ بنایا جا رہا ہے، اب ایسے ماحول میں پاکستان کابھارت کوبہت ہی پسندیدہ ملک قرار دیناجموں وکشمیرکے مظلوم عوام کے زخموں پرنمک پاشی کے مترادف ہو گا اورجموں وکشمیرکی غالب اکثریت بہت ہی دکھ اورصدمہ محسوس کرے گی کیونکہ پاکستان نے بھی جموں وکشمیرکے مسئلے کے حل کیلئے اب تک بے مثال قربانیاں دی ہیں اورہندوستان کی ہٹ دھرمی اورضدکے کے نتیجے میں اب تک بڑی تکالیف،جبروستم اورمظالم کانشانہ بنائے جا رہے ہیں توایسے ماحول میں بھارت کوپسندیدہ ملک قراردینا،یہ جموں وکشمیرکے عوام کی بے پناہ قربانیوں اورخودپاکستانی عوام کی بے مثال قربانیوں کے منافی ہوگااوریقیناکشمیری اورپاکستانی عوام اس عمل کوانتہائی ناپسندکریں گے کہ ان کی قربانیوں اور اصولی مقف کوپاک بھارت تجارت پرقربان کردیاجائے”۔
دوسراسبق سیکھنے کایہ ہے کہ”سپاہی کے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے۔بہادری،جرات اوردلیری کاراستہ،جسے مضبوط عزم ہی سے عبورکیاجاسکتاہے کوئی بھی نہیں کہے گاکہ جنگ کرنااچھی بات ہے،جنگ سے ملک تباہ ہوجاتے ہیں،ناقابل تلافی حدتک جانی ومالی نقصان معیشت کوبربادکردیتاہے۔بظاہرایسے حقائق بہت وزنی معلوم ہوتے ہیں اورکوئی بھی اس سے انکارنہیں کرسکتا لیکن:
1۔گزشتہ دوصدیوں سے امریکانے ایک دن کیلئے بھی جنگ بندنہیں کی۔
2۔اپنے قیام سے لیکرآج تک اسرائیل حالتِ جنگ میں ہے اوراس جنگ نے اسے مضبوط اورطاقتوربنادیاہے جبکہ جنگ سے منہ چھپانے والے عرب دن بدن کمزوراوربزدل ہوگئے ہیں۔
3۔گزشتہ صدی میں سب سے طویل اورخوفناک جنگیں جاپان،جرمنی اورکوریانے لڑی ہیں اورآج یہی تین ممالک ترقی میں سب سے آگے نکل گئے ہیں اوردنیاکی مضبوط ترین معیشت کے مالک ہیں۔
4۔پہلی 12صدیوں میں مسلمان مسلسل جنگوں میں مصروف رہے(جہاد،جس کاحکم اللہ نے قرآن میں 484مرتبہ دیاہے)اسی دوران وہی سب سے زیادہ ترقی یافتہ،طاقتور اور مضبوط رہے جبکہ گزشتہ دوصدیوں سے مسلمانوں کوجنگوں سے ڈرنے اور بزدلی کاسبق پڑھایا گیا ہے۔ حالیہ دوصدیوں میں مسلمان نہ صرف غربت کاشکارہوئے ہیں بلکہ ترقی میں بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اسی لئے ہم کفارکاترنوالہ بن گئے ہیں۔یادرکھیں جوقومیں تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتیں،ان کاجغرافیہ تبدیل ہو جاتاہے اورہمارے ساتھ تویہ ہو چکا ہے۔کیامودی نے بنگلہ دیش کی سرزمین پرجاکرخودیہ اقرارنہیں کیاکہ ہم نے قیامِ پاکستان کے وقت ہی اس کوختم کرنے کی پالیسیوں پرعملدرآمدشروع کر دیا تھااوربنگلہ دیش میں سب سے پہلے ہم نے اسکول،کالجز اوریونیورسٹی میں ہندواساتذہ کودوقومی نظریئے کی تنسیخ کاکام سونپاجس کے نتیجے میں ہم نے دوقومی نظریے کوخلیج بنگال میں ڈبوکربنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی اورآخری حربے کے طورپرہم نے اپنے فوجیوں کواس سرزمین پر اتار کرپاکستان کودوحصوں میں تقسیم کردیا۔کیاہماری کسی بھی حکومت نے ہندوستان کے اس ظالم ومکار ہندومودی کے اس بیان کے خلاف عالمی عدالت میں جنگی جرائم کامقدمہ دائرکیا؟کیا اقوام متحدہ میں اس بیان کے خلاف صدابلندکی گئی؟
اس بیان کے بعدہمارے دفترخارجہ نے کیااقدامات اٹھائے؟کیاقوم کاکروڑوں روپے کابجٹ ہرسال ان کی عیاشی کیلئے مختص کیا جاتا ہے؟ہم نے کشمیر کمیٹی تشکیل دی اورسب سے بڑامذاق اس کے ساتھ اب بھی جاری ہے۔جب سے اس کمیٹی کااعلان ہواہے،اس کی کارکردگی پرکوئی رپورٹ جاری ہوئی؟ہم نے اس کمیٹی کوقائم کرکے سیاسی مفادات کے حصول کاایک ذریعہ بنالیااورایسے افرادکی تقرری کی گئی جس کوشائدکشمیرکی تاریخ توکجااس کے صحیح ہجے بھی نہیں آتے ہوں گے۔محض ان کے بیرونی دوروں پرکروڑوں روپے کے اخراجات اورملک میں بڑی بڑی گاڑیوں اوربھاری اخراجات پرمبنی دفترکی آرائش اورسیاسی مفادات کی تکمیل کاذریعہ بنائے رکھا اوراب تک انتہائی غیرسنجیدہ افرادکے ہاتھوں کشمیر کمیٹی کے نام کوداغدار بناکے رکھ دیاہے۔
اب آئیے تیسرااوراہم سبق کی طرف چلتے ہیں۔بابل کے بادشاہ بالش ضرکی غلطیوں پراسے ایک غیبی ہاتھ نے واضح الفاظ میں نوشتہ دیواردکھایاتھا”تمہیں آزمایاگیا’مگرتم تول میں پورے نہیں اترے اورہلکے ثابت ہوئے۔”کیاہمارے مقتدرحلقے سوبدائی بہادرسے اتفاق کرتے ہیں کہ حکمران کبھی اپنے فیصلوں میں گومگوکاشکارنہیں ہوتے،مستقبل کے اندیشوں اورممکنہ خطرات سے گھبراناسپاہیوں کونہیں تاجروں کوزیب دیتاہے۔پاکستانی سیاست میں بھی آزمائش کاوقت آپہنچاہے۔اس میں صرف عوام کے دلوں کی آواز سننے والا ہی سرخرو ہو سکے گا۔تاریخ کایہ ابدی سبق ہے کہ صرف وہی لیڈرفتح یاب ہوتاہے جوفولادی عزم اور واضح ویژن کے ساتھ میدان میں قدم رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔