میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکہ میں اب انٹرنیٹ بھی غیر محفوظ،ڈونلڈ ٹرمپ نے پرائیویسی ختم کردی

امریکہ میں اب انٹرنیٹ بھی غیر محفوظ،ڈونلڈ ٹرمپ نے پرائیویسی ختم کردی

ویب ڈیسک
پیر, ۳ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

٭یہ بل ایف سی سی میں ری پبلکن کی اکثریت اور کانگریس میںری پبلکن ارکان کی کارستانی کا نتیجہ ہے ،اس بل سے یہ ر تصور ختم ہوگیاہے کہ آپ آن لائن جو کرتے ہیں وہ آپ کی ذاتی ملکیت ہے٭ انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے ادارے صارفین کی تمام تفصیلات جن میں ان کا ذاتی ڈیٹا ،بینک اکاﺅنٹ، لین دین غرض ہر طرح کی تفصیلات کسی کو بھی منتقل کرنے کی آزادی حاصل ہوگئی ہے
شہلا نقوی
مارچ کے آخری ہفتہ کے دوران جب امریکی عوام ایوان کی انٹیلی جنس کمیٹی کی کارروائی پر نظریں جمائے ہوئے تھے ،ایوان نے انتہائی خاموشی سے آئین کی اس شق کو ختم کرنے کی منظوری دیدی جس کے تحت انٹرنیٹ کی سروس فراہم کرنے والے ادارے صارفین کی تفصیلات کو خفیہ رکھنے کے پابند تھے، اس شق کے خاتمے کے بعد اب امریکی عوام کو انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے ادارے جن میںکوم کاسٹ، ویریزون اورچارٹر شامل ہیں صارفین کی تمام تفصیلات جن میں ان کا ذاتی ڈیٹا ،بینک اکاﺅنٹ، لین دین غرض ہر طرح کی تفصیلات کسی کو بھی منتقل کرنے کی آزادی حاصل ہوگئی ہے ۔
امریکی سینیٹ اس بل کی پہلے ہی منظوری دے چکی ہے۔اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ جن کی ایما پر یہ بل سینیٹ اور کانگریس سے منظور کیاگیا ہے کسی بھی وقت اس پر دستخط کرکے اسے نافذ العمل کرسکتے ہیں اور اس سے آن لائن پرائیویسی ختم ہوکر رہ جائے گی۔
اس بل سے صرف کیبل کمپنیوں اور وائر لیس سروس فراہم کرنے والوں کو آپ کی پوری براﺅزنگ ہسٹری ،آپ کی شاپنگ کی عادات، آپ کامحل وقوع ،آپ کی سرگرمیوں اور آن لائن آپ کی مصروفیات تک ہی رسائی حاصل کرنے اور ان تفصیلات کو کسی کو بھی منتقل کرنے کی اجازت ہی نہیں مل جائے گی بلکہ اس بل کے ذریعہ وفاقی کمیونی کیشن کمیشن کو صارفین کی پرائیویسی یعنی خلوت کے تحفظ کے لیے اس طرح کا کوئی اور قانون بنانے کا اختیار بھی نہیں رہے گا۔
یہ بل ایف سی سی میں ری پبلکن کی اکثریت اور کانگریس میںری پبلکن ارکان کی کارستانی کا نتیجہ ہے ،اس بل سے یہ پرانا تاثر اور تصور ختم ہوگیاہے کہ آپ آن لائن جو کچھ کرتے ہیں وہ آپ کی ذاتی ملکیت ہے آن لائن سروس فراہم کرنے والے ادارے کی نہیں اور آپ کی خلوت میں دخل اندازی کا کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا۔
امریکی ایوانوں میں موجود ریپبلکن اور ڈیموکریٹس دونوں ہی پارٹیوں کے ارکان برسہابرس سے اس بات پر متفق تھے کہ ایسے وفاقی قوانین ضروری ہیں جن کے ذریعے ٹیلی فون اور دیگر مواصلاتی ذرائع پر لوگوں کی خلوت کاتحفظ کیا جاسکے۔
2016ءمیں اوباما دور میںوفاقی آئینی کمیٹی نے اسی قانون کے تحت انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اس قانون کے دائرہ کار کو وسیع کردیاتھا اور اس کا دائرہ کار انٹرنیٹ اور آن لائن سرگرمیوں تک بڑھادیاگیاتھا اور اس قانون کے تحت انٹرنیٹ پر عام لوگوں کی سرگرمیوں میں کسی کو دخل دینے یا اسے کسی اور کو منتقل کرنے کا حق ختم کردیاگیاتھا لیکن اس قانون کی منظوری کے بعد اب وہ تحفظ ختم ہوگیا ہے، اور انٹرنیٹ کے صارفین کو اپنی پرائیویسی کے تحفظ کے لیے قانون کی جو چھتری حاصل تھی وہ ان کے سروں سے ہٹالی گئی ہے۔
ایوان میں موجود ڈیموکریٹ ارکان اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والا صارف اپنی انٹرنیٹ کی مصروفیات اور سرگرمیوں کابلاشرکت غیر مالک ہے اور کسی کو اس میں دخل اندازی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔اوباما دور میں بھی وفاقی کمیونی کیشن کمیشن میں موجود ری پبلکن ارکان نے یہ مو¿قف اختیار کیاتھا کہ انٹرنیٹ پر عوام کی سرگرمیاں یعنی نیٹ ور ک پر موجود ان کی تفصیلات قابل فروخت ہونی چاہئےں ، اس وقت کمیشن میں اس مسئلے پر باقاعدہ رائے شماری کرائی گئی تھی اور ڈیموکریٹ ارکان نے 3-2 کی اکثریت سے ری پبلکنزکی یہ کوشش ناکام بنادی تھی۔
انٹرنیٹ اور آن لائن وائر لیس سروس کے صارفین کو حاصل یہ تحفظ ختم کیا جانا دراصل کیبل اور ٹیلی فون کمپنیوں کا دیرینہ خواب پورا کرنے کے مترادف ہے جو ہمیشہ سے یہ چاہتی تھیں کہ انہیں صارفین کے پرسنل یعنی خالص ذاتی ڈیٹا تک رسائی حاصل ہوجائے اور وہ ان میں دلچسپی رکھنے والوں کو یہ ڈیٹا بلاروک ٹوک فروخت کرسکیں۔ٹیلی فون اور کیبل آپریٹرز کی اس خواہش سے ظاہر ہوتاہے کہ نیٹ ورک اداروں کے سربراہ صارفین کا ڈیٹا فروخت کرکے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا چاہتے ہیں تاکہ ان کے شیئر ہولڈرز کو ان کے سرمائے پر زیادہ سے زیادہ رقم مل سکے اور اس طرح ان کا کاروبار وسعت اختیار کرتا چلاجائے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ نیٹ ورک اداروں کے یہ مالکان ایک ایسی چیز فروخت کرنا چاہتے ہیں جو ان کی اپنی نہیں ہے اور اخلاقیات کے کسی بھی اصول کے تحت وہ اس تک رسائی حاصل کرنے کا حق نہیں رکھتے۔
مثال کے طورپر اب اگر آپ اپنے اسمارٹ فون پر کوئی کال کرتے ہیں تو وہ محفوظ ہوتی ہے اورآپ کی فون کمپنی اسے کسی اور کو منتقل یا فروخت نہیں کرسکتی اور کسی کو یہ نہیں بتاسکتی کہ آپ نے اپنے یا کسی کارکی ڈیلرشپ حاصل کرنے کے لیے کسی کو فون کررہے ہیں لیکن اگر یہی کال یہی ڈیوائس آپ انٹرنیٹ پر استعمال کرتے یہ فون کرتے ہیں تو آپ کاانٹرنیٹ فراہم کرنے والا ادارہ آپ کی اس کال سے ایسے دوسرے لوگوں کوآگاہ کردے گا جواپنی کار فروخت کرنا چاہتے ہوں اس طرح آپ کے لیے ایک عذاب کھڑا ہوسکتاہے۔اس سے آپ ذہنی طورپر بھی پریشان ہوں گے اور آپ کاوقت بھی ضائع ہوگا ۔آپ نیٹ ورک کو ماہانہ فیس اس لیے ادا نہیں کرتے کہ آپ کی معلومات آپ کی سرگرمیوں کی اطلاعات اور تفصیلات دوسروں کوفروخت کردی جائیں اور آپ کا کوئی عمل دوسروں سے پوشیدہ نہ رہ سکے۔اس طرح اس بل کو انٹرنیٹ انڈسٹری کے لیے ایک تحفہ قرار دیاجاسکتاہے۔
وفاقی کمیونی کیشن کمیشن نے امریکی عوام کے غم وغصے کو کم کرنے اور یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ان کا اہم ڈیٹا محفوظ رہے گا گزشتہ دنوںایک قانون تیار کیاہے جس کے تحت انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کو صارفین کے حساس ڈیٹا کو جس میں سوشل سیکورٹی نمبر وار کریڈٹ کارڈز کی تفصیلات شامل ہیں مخفی رکھنے اور کسی اور کو منتقل نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ،یہ ہدایت انتہائی منافقانہ ہے کیونکہ2015ءمیں اے ٹی اینڈ ٹی پر ایسے ناکافی انتظامات کرنے پر جس کی وجہ سے اس کے ملازمین 2 لاکھ 80 ہزار صارفین کا ڈیٹا چوری کرکے فروخت کردینے میں کامیاب ہوگئے تھے،25 ملین ڈالر کا جرمانہ عاید کیاجاچکاہے اس لیے یہ تصور کرنا کہ اس ہدایت کے بعد ایسا نہیں ہوگا خام خیالی کے سوا کیاہوسکتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد دراصل وہائٹ ہاﺅس میں امریکی عوام کوجکڑنے کے لیے جو منصوبے تیار کیے جارہے ہیں اس طرح کے قوانین اور ہدایت عوام کی توجہ ان کی جانب سے ہٹانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہیں۔اگر ڈونلڈ انتظامیہ کسی بھی وقت اس ہدایت یا قانون کو بھی ختم کردے تو کسی کو پتہ بھی نہیں چل سکے گا ،اس ملک میں جہاں پہلے ہی روس کی جانب سے ہیکنگ کے مسئلے کو دبانے اور اوباما کیئر پروگراموں کے خاتمے کے لیے کوششیں کی جارہی ہوں کسی بھی چیز اور بات کی توقع کی جاسکتی ہے۔
اس ملک میں اب منافقت کادور دورہ ہے اور جو شخص وہائٹ ہاﺅس کی اونچی کرسی پر براجمان ہے وہ اپنے معاونین کی تمام سرگرمیوں کی مسلسل جاسوسی کاخواہاں ہے تاکہ اسے یہ معلوم ہوسکے کہ اس کا کون سامعاون کیاکررہاہے اور اس سے اس کی اپنی ذات کوکیافائدہ یا نقصان پہنچ سکتاہے۔وہ کسی بھی وقت بخوشی کسی بھی ایسے حکم اور قانون پر دستخط کردے گا جس کے تحت کسی بھی امریکی شہری کی ذاتی معلومات کسی کو بھی فروخت کرنا ناممکن نہیں رہے گا۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ کانگریس میں موجود ڈونلڈ ٹرمپ کی پارٹی کے ارکان اور ان کے اتحادی صرف اپنی پرائیویسی پر یقین رکھتے ہیں اور وہ اس کے لیے کسی کی بھی خلوت میں دخل اندازی کو غلط تصور نہیں کرتے ،لیکن اس طرح کے قوانین سے خود ان کی خلوت اور پرائیویسی بھی قائم نہیں رہ سکے گی اور اس قانون کی مدد سے ان کے انٹرنیٹ کا ڈیٹا بھی قانون کے تحت قابل فروخت قرار پائے گا اور جب یہ ڈیٹا منظر عام پر آئے گا تو نت نئے اسکینڈلز کابھی انکشاف ہوگا جس سے جان بچانا ان کے لیے آسان نہیں ہوگا۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں