میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان میں سرمایہ کے لیے چینی کمپنیوں کو نواز شریف کی دعوت

پاکستان میں سرمایہ کے لیے چینی کمپنیوں کو نواز شریف کی دعوت

ویب ڈیسک
جمعه, ۳۱ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان کی واحد تجارتی، توانائی اور ٹرانسپورٹ کی راہداری کے محل وقوع پر بھرپور توجہ مبذول کرواتے ہوئے چینی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے آزاد سرمایہ کاری ماحول سے فائدہ اٹھانے کی دعوت دی ہے۔نواز شریف نے چائنا ایرو سپیس سائنس اور انڈسٹری کارپوریشن (سی اے ایس آئی سی) کے چیئرمین بورڈ گاو¿ہونگئی اور چائنا پریسیشن مشینری امپورٹ-ایکسپورٹ کارپوریشن (سی پی ایم آئی ای سی) کے چیئرمین بورڈ ژاو¿ ژیالونگ کے ساتھ ایک ملاقات میں کہا کہ پاکستان کا کاروباری ماحول ایک جامع ڈھانچے کے باعث بغیر کسی رکاوٹ کے براہ راست منافع بخش بیرونی سرمایہ کاری کے لیے پرکشش ہے۔ پاکستان کی منصوبہ بندی کا تسلسل آزاد، ڈی ریگولیشن، نجکاری اور سہولتوں کے باعث اپنی اہمیت کو دوچند کردیتا ہے۔وزیراعظم نے یہ بھی واضح کیاہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی توجہ معیشت کی بحالی، توانائی کے بحران کے حل، سیکورٹی کی صورت حال کو بہتر بنانے اور سرمایہ کاروں کو بہترین مواقع فراہم کرنے پر مرکوز ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی معاشی صورت حال گزشتہ چاربرسوں میں تبدیل ہوچکی ہے اور اس کا عالمی طور پر اعتراف کیا جارہا ہے۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی تعاون میں توقع سے زیادہ اضافہ ہواہے اوراس کے نتیجے میںدونوں ملکوں کو ہی فائدہ پہنچ رہاہے ،گزشتہ 4سال کے دوران پاکستان اورچین کے درمیان تجارت میں کئی گنا اضافہ ہواہے،اگرچہ اس تجارت کاتوازن ابھی تک چین کے ہی حق میں ہے لیکن پاکستان میں چین کے تعاون سے نئی صنعتوں کے قیام کی صورت میں پاکستان کو چین کے علاوہ دیگر ممالک کواپنی برآمدات میں اضافہ کرنے کاموقع ملے گا جبکہ سی پیک کے لیے درآمد کی جانے والی مشینری کی ضروریات پوری ہوجانے کی صورت میں چین سے ہماری درآمدات میں بھی کمی ہوگی اور اس طرح یہ تجارتی خسارہ خود بخود کم ہوتاچلاجائے گا۔
اس میںکوئی شک نہیں کہ پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اور اہم معاشی سیکٹرز میں تعاون کے ذریعے پاک-چین دوستی نئی منازل طے کررہی ہے اوروزیراعظم نواز شریف کایہ کہنا غلط نہیں ہے کہ پاکستان کے چین کے ساتھ تعاون سے دونوں ملکوں میں نہ صرف خوشحالی آئے گی بلکہ پاک چین تعاون اور اشتراک اس پورے خطے کے لیے ترقی کا ذریعہ بنے گا۔اس موقع پرچین کی ایرو سپیس کے سربراہ ہونگئی نے پاکستان کے کاروباری تعلقات کو بہتربنانے کے عزم کا اظہار کیا۔
اس سے قبل پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے میں اہم اسٹیک ہولڈر کی حیثیت میں شامل چائنا پاور انٹرنیشنل کے چیئرمین وانگ بنگ ہوا نے حب میں کوئلے پر چلنے والے پاور پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کے دوران یہ واضح کردیاتھا کہ ‘ہم پاکستان میں اپنے آلات کی تنصیب اور فائدہ حاصل کرنے نہیں بلکہ پائیدار ترقی اور تباہ ہوتی مقامی صنعت کو مستحکم کرنے کے لیے آ رہے ہیں۔کوئلے سے چلنے والا یہ پلانٹ 2 ارب ڈالر کی لاگت سے تیار ہوگا، اس میں بنگ ہوا کی پاور کمپنی اور پاکستان کی حب پاور کمپنی شراکت دار ہے جبکہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اس پاورپلانٹ سے اگست 2019ءتک بجلی پیدا ہونا شروع ہو جائے گی۔چائنا پاور انٹرنیشنل کمپنی کے چیئرمین نے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں یہ وعدہ بھی کیا کہ منصوبے میں پاکستان کے گریجویٹ افراد کو تربیت اور روزگار فراہم کیا جائے گا، جب کہ ہم سے تربیت حاصل کرنے والے افراد اگر کسی اور جگہ کام کرنا چاہیں گے تو بھی انہیں موقع فراہم کیا جائے گا۔ان کے مطابق حب میں بننے والا بجلی گھر سالانہ 9 ارب کلو واٹ آور (kWh) بجلی پیدا کر سکے گا، جب کہ پلانٹ لگنے سے 10 ہزار مقامی افراد کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔وانگ بنگ ہوا نے اس بات کو بار بار واضح کیاکہ ہم پاکستانی لوگوں کے خدشات دور کرنے کے لیے اپنے گروپ میں زیادہ سے زیادہ مقامی افراد کو شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی یقین دلایاتھا کہ ان کی کمپنی حب پاور پلانٹ پر سیفٹی، قابل اعتماد آپریشنل سسٹم، دوستانہ ماحول، معاشی استحکام اور معیار کو مدنظر رکھ کر کام کرے گی، جب کہ منصوبہ بلوچستان اور مقامی افراد کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔وانگ بنگ ہوا نے یہ بھی بتایاتھاکہ ان کی کمپنی پاور پلانٹ کے قریب ہی سیمنٹ فیکٹری لگانے کا اردہ رکھتی ہے، تاکہ پاور پلانٹ میں جمع ہونے والے کچرے کو بھی قابل استعمال بنایا جاسکے۔چین کی ایک اہم کمپنی کے سربراہ کی جانب سے ان وضاحتوں اور یقین دہانیوں کے بعد ا س حوالے سے پائی جانے والی یاپھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کاتدارک ہوجانا چاہیے ،اور یہ توقع کی جانی چاہیے کہ اب اس معاملے میں یکسو اورمتحد ہوکر کام کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے گی۔
جب سے چین نے سی پیک کا اعلان کیا ہے تب سے لے کر زیادہ سے زیادہ وقت اور طاقت اس میں نقائص نکالنے، اس میں چھید کرنے اور مفروضوں اور قیاس آرائیوں پر مبنی خدشات ظاہر کرنے میں صرف کی جا رہی ہے۔اگر اسی سرمایہ کاری کا اعلان کسی دوسرے ترقی پذیر ملک میں ہوا ہوتا تو وہاں کا قومی رد عمل یہ ہوتا کہ ہمیں معیشت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کے لیے کون سے اقدامات کرنے چاہئیں؟ موجودہ صورتحال میںضرورت اس امر کی ہے کہ اس بات کاپتہ چلانے کی کوشش کی جائے کہ سی پیک میں کون سی کمزوریوں اور کمیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے؟ مگر اس قسم کی سوچ ہماری سرشت میں ہے ہی نہیں۔ یا تو ہم جشن منانے اور خود کو مبارکباد دینے کے موڈ میں نظر آتے ہیں یا پُر زور مذمت اور غیر متوقع خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے رہتے ہیں۔
سی پیک کے خلاف تین اقسام کے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک یہ پورا منصوبہ صرف پنجاب کے لیے مختص ہے اور اس میں دیگر تین چھوٹے صوبے نظر انداز ہوں گے۔ علاقائی اور نسلی تعصب کو ہوا دے کر خدشات پیدا کیے جاتے ہیں کہ ان منصوبوں سے خاطر خواہ اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔
دوسرا یہ کہ ملک بیرونی بھاری قرضوں کی زد میں آ جائے گا اور اخراجات کی وجہ سے پاکستان کو ایک بار پھر قرضہ لینا پڑے گا۔ 110 ارب ڈالرز کی کل رقم جیسے خوفناک اعداد و شمار بھی سنائی دے رہیں ہیں۔
تیسرا، کچھ بلوچ نوجوانوں کا خیال ہے کہ اس منصوبے کی وجہ سے وہ اپنے ہی صوبے میں اقلیت بن جائیں گے۔ اس تشویش کی بنیادی وجہ ممکنہ معاشی فائدوں کے بجائے بے اعتمادی بنتی ہے۔
اس طرح کے تحفظات اور شکوک وشبہات اور تنقید کا بنیادی سبب یہ ہے کہ حکومت سی پیک کے حوالے سے سرمائے کے اسٹرکچر، سرمایہ کاری کے ذرائع کے متعلق تفصیل، منصوبے کے اسپانسرز کے بارے میں معلومات کو عوامی سطح پر نہیں لائی ہے، چنانچہ معاملات سلجھ نہیں پائے ہیں اور کنفیوژن اپنی جگہ موجود ہے۔اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سی پیک کے حوالے سے پائے جانے والے شکوک وشہبات رفع کرنے کے لیے اس منصوبے کی پراسراریت ختم کرنے اور اسے زیادہ شفاف بنانے کے لیے اس کوپوری طرح عوام کے سامنے لائے تاکہ مختلف حلقوں میں اس حوالے سے پائے جانے والے شکوک وشبہات اوراس حوالے سے قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہوسکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں