میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اندھیر نگری چوپٹ راج، مراعات یافتہ طبقے کے لیے لامحدود مراعات، سارا بوجھ غریبوں پر

اندھیر نگری چوپٹ راج، مراعات یافتہ طبقے کے لیے لامحدود مراعات، سارا بوجھ غریبوں پر

جرات ڈیسک
پیر, ۲۸ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

٭اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے امرا، جاگیردار، سیاسی قائدین اوردیگر کو ملنے والی معاشی مراعات پاکستان کی معیشت میں 17 ارب ڈالر سے زیادہ کے اضافی خرچے کا باعث بنتی ہیں
٭واپڈا کے ایک ملازم نے ایک ماہ میں 1200 یونٹ بجلی استعمال کی اور اس کا بل صرف 716 روپے تھا، ان کے بلوں کا بوجھ مہنگائی کے مارے عوام اٹھا رہے ہیں ان کو دی جانے والی سبسڈی کب بند ہو گی؟
٭پاکستان کی بیوروکریسی کودیکھاجائے تو اس پر برطانوی راج کی واضح چھاپ ہے،آج تک واضح ڈھانچے کی تشکیل کے لیے پاکستان میں 29 کمیشن بنائے گئے ہیں لیکن خرچے کم نہیں ہوسکے ہیں
٭آج ملک میں عوام برباد ہیں تو اس کی ذمہ داری سے ریاست کے نام نہاد اسٹیک ہولڈرز ہر گز مبرا نہیں ہیں۔ یہ وسائل سرکاری خزانے سے تنخواہیں مراعات اور پنشن لینے والوں کی ملکیت نہیں ہیں
۔۔۔۔۔۔
بڑھتی مہنگائی، ناقابل برداشت بجلی کے بل، پاکستان میں غریب طبقے پر بغیر کچھ سوچے سمجھے بوجھ لادا جارہا ہے۔ دوسری جانب مراعات یافتہ طبقہ ابھی تمام سہولتیں جن میں بجلی کی سہولت بھی شامل اس سے مستفید ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان شخصیات یا اداروں کو یہ مفت آسائشیں کیوں فراہم کی جارہی ہیں۔ معروف صحافی حامد میر نے گزشتہ روز ٹوئٹر پر بجلی ایک بل شئیر کیا جو واپڈا کے ایک ملازم کا تھا۔ اس ملازم نے ایک ماہ میں 1200 یونٹ بجلی استعمال کی اور اس کا بل صرف 716 روپے تھا۔ سوال اٹھایا کہ ان واپڈا اور ڈسکو والوں کے بلوں کا بوجھ بھی مہنگائی کے مارے عوام اٹھا رہے ہیں ان کو دی جانے والی سبسڈی کب بند ہو گی؟ پاکستان میں اب یہ بحث بھی ہورہی ہے کہ پاکستان میں کون سے طبقات یا اداروں کو مفت یا کم نرخوں پر بجلی سمیت مراعات فراہم کی جاتی ہے۔ماہرین کے مطابق ہرماہ کے اوائل میں ملنے والی تنخواہ میں حکومت کی جانب سے دی گئیں آسائشوں کا تذکرہ نہیں ہوتا۔ہر چھوٹی چھوٹی آسائش کے بارے میں پتا بھی نہیں چلتا کہ کسے ملتا ہے اور کہاں ملتا ہے۔ مخصوص مراعات کا سراغ لگنا مشکل ضرور ہے، لیکن پاکستان میں معاشی مراعات کا مجموعی تخمینہ موجود ہے۔اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اور نیشنل ہیومن ڈولپمنٹ کی جانب سے 2021 میں شائع ہونے والی ایک مشترکہ رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ کیسے پاکستان کے امرا، جاگیردار، سیاسی قائدین اور فوج کو ملنے والے معاشی مراعات پاکستان کی معیشت میں 17 ارب ڈالر سے زیادہ کا اضافی خرچے کا باعث بنتے ہیں۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) اور اقوامِ متحدہ کی رپورٹ
کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے مختلف اداروں کے افسران کو اکثر ماہانہ تنخواہ کے ساتھ کئی مراعات ملتی ہیں جن میں مفت بجلی بھی شامل ہے۔رپورٹ کے مطابق عدلیہ کے ایک ہائی کورٹ کے جج کو اپنی ملازمت کے دوران مفت گھر ملتا ہے، جس کا کرایہ حکومت دیتی ہے جبکہ بجلی کا بِل اور سرکاری گاڑی بھی حکومتی کھاتے میں آتے ہیں۔پائیڈ کی رپورٹ کے مطابق اگر جج اپنے گھر میں رہتے ہیں تو ان کے گھر کا اضافی خرچہ، جو دستاویزات میں تقریباً 65 ہزار روپے ماہانہ رقم بتائی جاتی ہے، مختص کردی جاتی ہے۔اور اس کے علاوہ دیگر اخراجات بھی اسی کھاتے میں‘اضافی’کے نام سے شامل کر دیے جاتے ہیں جو حکومت بھرتی ہے۔ اسی طرح بجلی کے اداروں میں کام کرنے والے اعلیٰ افسران کو مفت بجلی دی جاتی ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ مفت ٹیلیفون، مفت پٹرول اور مفت گھر بھی دیا جاتا ہے۔ مارچ کے مہینے میں پبلک اکاوئنٹس کمیٹی کی ایک اجلاس میں پاور ڈویژن کو 16 سے 22 گریڈ کے سرکاری افسران کو مفت بجلی کی سہولت ختم کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کمیٹی چیئرمین نور عالم خان نے کہا تھا کہ اس اقدام سے سالانہ نو ارب روپے کی بچت ہو گی تاہم اس تجویز پر عمل نہیں ہو سکا۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کی انتظامی مشینری کو اگر دیکھا جائے، خاص طور سے اس کی بیوروکریسی کو، تو اس پر برطانوی راج کی واضح چھاپ ہے۔آج تک پاکستان میں 29 کمیشن بنائے گئے ہیں تاکہ ایک واضح ڈھانچہ تشکیل دیا جا سکے اور خرچے کم کیے جاسکیں۔ یہ تمام تر ڈھانچے ناکام ہوئے کیونکہ ریفارمزلانے کے بجائے زیادہ تر توجہ مزید مراعات اور آسائشوں کے حصول میں صرف کی گئی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان کے بڑے اداروں کے افسران کو ملنے والی مفت بجلی اور دیگر آسائشوں کو کم کرنے سے کیا فرق پڑے گا تو اس کا یہ جواب ہوسکتا ہے کہ ایسے وقت میں جب پاکستان کے پہلے سے غریب طبقے پر بوجھ ڈالا جارہا ہے، ان حالات میں یہ لازم ہے کہ ان اداروں پر سوال اٹھایا جائے جن کو مفت آسائشیں دی جارہی ہیں کہ انھیں یہ آسائشیں مفت کیوں ملیں؟آئی ایم ایف کی شرائط نہ ہوتیں تو یہ بھی نہیں پتا چلنا تھا کہ کس کو کیا ملتا ہے۔ یہ بات صرف بجلی کی آسائش ملنے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سوال پر ہے کہ یہ مفت آسائش ملنے کا آخر جواز کیا ہے؟ فائدہ ہونا یا نہ ہونا ایک بڑی بحث کا حصہ ہے۔اگربجلی کے بلوں سے سیلز ٹیکس ختم کریں گے تو کہاں سے جمع کریں گے؟ اگرپراپرٹی، زرعی آمدن، سروسز سیکٹر پر سیلزٹیکس لگانے سے گریزکریں گے تو غریبوں پر ہی لگائیں گے جوکیا جارہا ہے، بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ امیر لوگوں سے ٹیکس کیسے اکٹھا کرنا ہے؟ صرف غریبوں پرٹیکس نہیں لگانا۔آئی ایم ایف پاکستان کو 75 برسوں میں دو درجن کے قریب پیکیج دے چکا ہے۔ پاکستان میں انفرااسٹرکچر کے بیشتر منصوبے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی امداد ’قرضوں اور مشاورت سے مکمل کیے ہیں، اگر آج پاکستان اس نہج تک پہنچا ہے تو اس میں ترقی یافتہ ممالک یا عالمی مالیاتی اداروں کا قصور کم ہے اور پاکستان کے پالیسی سازوں کا قصور زیادہ ہے۔جب ملک اور اس کے عوام کے مفادات کو نظرانداز کر کے ذاتی’قبیلہ جاتی ’علاقائی اور لسانی مفادات کو ترجیح دی جائے گی تو وہی ہو گا جو آج ملک میں ہو رہا ہے۔ عوام برباد ہیں تو اس کی ذمے داری سے یہ ریاست کے نام نہاد اسٹیک ہولڈرز ہر گز مبرا نہیں ہیں۔پاکستان کے وسائل پاکستان کے عوام کے ہیں ’یہ وسائل سرکاری خزانے سے تنخواہیں ’مراعات اور پنشن لینے والوں کی ملکیت نہیں ہیں۔ قبائلی سردار، بڑے زمیندار،سیاسی گدی نشین، بڑے بڑے مدارس کے سرپرست اور مہتمم حضرات بھی ملک کے مالک نہیں ہیں۔ انھیں بھی جواب دہی کے سسٹم میں اور ٹیکس نیٹ میں لانا انتہائی ضروری ہے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں