میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ایران کی اس مخلصانہ پیشکش کا فائدہ اٹھایاجانا چاہیے

ایران کی اس مخلصانہ پیشکش کا فائدہ اٹھایاجانا چاہیے

ویب ڈیسک
منگل, ۴ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

ایران نے پاکستان اور بھارت کے ساتھ اپنے خصوصی تعلقات کی بنا پراپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی ہے۔پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست نے کہا ہے کہ ایران خطے میں امن اور استحکام کے لیے پاک-بھارت کشیدگی کم کرکے مسئلہ کشمیر حل کرنے میں ثالث بننے کے لیے تیار ہے۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کو اپنے انٹرویو میں مہدی ہنر دوست کا کہنا تھا کہ ایرانی حکومت نے خطے میں امن کے لیے ہرطرح کے تعاون کا اعلان کیا ہے۔ایرانی سفیر نے واضح کیا کہ ثالثی کے حوالے سے تاحال پاکستان یا بھارت کی جانب سے ایران سے باقاعدہ طور پر درخواست نہیں کی گئی ہے۔تاہم خطے کا اہم اور بڑا ملک ہونے کی حیثیت سے ایران کے رہنما اپنے دو قریبی دوست ممالک کے درمیان تنازعات کے پرامن تصفیے کے ذریعے دوستی کا ماحول پیدا کرنےکے خواہاں ہےں، ایران پاکستان اور بھارت کے ساتھ اپنے قریبی دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر دونوں ممالک میں تعلقات کی بہتری کے لیے ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
ایرانی سفیرکے اس خیال سے عدم اتفاق نہیں کیاجاسکتا کہ پاک- بھارت کشیدگی نہ صرف دونوں ممالک کے لیے نقصان دہ ہے، بلکہ اس سے خطے کے دیگر ممالک کی معیشت پر بھی برے اثرات مرتب ہورہے ہیں، خطے میں امن اور استحکام کے لیے لازمی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات ہوں۔ایرانی سفیرکے اس خیال سے عدم اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے، یہ کسی خاص خطے یا ملک تک محدود نہیں ہے، اوراس امر سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ دہشت گردی سپر پاورز ممالک کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ مہدی ہنرو دوست کے مطابق اگر دہشت گردی کا تجزیہ کیا جائے تو ہمیں پتہ چلے گا کہ ایک طرف سپرپاور ممالک دہشت گردی سے متاثرہ ملک میں دہشت گرد عناصر کی مدد کر رہے ہیں تو دوسری طرف وہ ان کے خلاف جنگ بھی لڑ رہے ہیں،پوری دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) مسلم ممالک کے مسائل حل کرنے اور اتحاد برقرار رکھنے کے لیے نہایت ہی ایم پلیٹ فارم ہے، تاہم اس گروپ کے باوجود اس وقت کئی اسلامی ممالک کی حالت ابتر ہے اور وہاں کے عوام بہت ہی بری حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔اس صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس میں مزید ممالک کو شامل کرکے اس کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ا س حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اس اتحاد کا حصہ ہونے کے باعث ایران نے ہمیشہ مسلم ممالک سے اچھے تعلقات کی کوشش کی ہے،اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ مختلف ممالک کے ساتھ ایران کے بہتر اور قریبی تعلقات کو اسلامی دنیا کو مزید مضبوط بنانے کے لیے استعمال کیاجائے اور اسلامی ملکوں کی تنظیم میں شامل دیگر اسلامی ممالک بھی مختلف ممالک کے ساتھ اپنے قریبی اور دوستانہ تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے اسلامی ممالک کے مسائل حل کرنے اور ان کی حالت بہتر بنانے پر توجہ دیں۔
سعودی عرب کی سربراہی میں اسلامی فوجی اتحاد میں شمولیت کے حوالے سے مہدی ہنر دوست نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ ایران کو سعودی عرب کی قیادت میں قائم کیے جانے والے فوجی اتحاد پر نہ صرف یہ کہ کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ ایران اسلامی دنیا کو درپیش مسائل،ان کے باہمی حل اور مضبوطی کے لیے اس اتحاد کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار کر چکاہے۔
پاک-ایران تجارتی تعلقات کے حوالے سے بھی ایرانی سفیر کایہ اعتراف دونوں ممالک کے رہنماﺅں کے لیے لمحہ¿ فکریہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت اب تک مضبوط صلاحیت کے مطابق نہیںہے ، تاہم اس حوالے سے اس حقیقت کو خوش آئند قرار دیا جاسکتاہے کہ اب دونوں ممالک کے درمیان آزادانہ تجارتی معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں، اور جلد ہی ان دو پڑوسی اور دیرینہ دوست اور برادر ممالک کے درمیان تجارت میں بہتری آئے گی۔امید کی جاتی ہے کہ مشترکہ تجارت بڑھانے کے حوالے سے دونوں ممالک کے متعقلہ حکام جلد ہی پاک-ایران مشترکہ تجارتی کمیشن کے 20 ویں اجلاس میں شرکت کریں گے، جس میں کچھ اہم تجارتی منصوبوں کو حتمی شکل دی جائے گی۔ایران پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی اہمیت کو نہ صرف تسلیم کرچکا ہے بلکہ مواقع سے بھرے ہوئے اس بہت ہی بڑے تجارتی منصوبے کاحصہ بننے کی خواہش کابھی اظہار کرچکاہے،اس اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اس منصوبے میں ایران کی شرکت نہ صرف پاکستان اور چین بلکہ خطے کے تمام ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ منصوبہ نہ صرف خطے کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا، بلکہ یہ خطے کے ممالک کو متحد کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
ایران کے سفیر مہدی ہنر دوست سے قبل ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریفبھی پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیش کش کرچکے ہیں ،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران پاک بھارت اختلافات سے اس خطے پر پڑنے والے منفی اثرات سے اچھی طرح واقف ہے بلکہ اس خطے کی ترقی اورخطے کے عوام کی خوش حالی کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستانہ تعلقات کی ضرورت اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف اس سے قبل بھی یہ واضح کرچکے ہیں کہ ’یہ دونوں ممالک ہمارے لیے بہت اہم ہیں اور اگر ایران ان کے درمیان کوئی ثالثی کا کردار ادا کرسکتا ہے تو ہم اس کے لیے تیار ہیں‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’ ہم رضاکار نہیں ہیں لیکن ہم جو کچھ کرسکتے ہیں اس کے لیے ثالثی کے کردار کو ادا کرنے کو تیار ہیں‘۔وہ اس سے قبل بھی یہ واضح کرتے رہے ہیں کہ’پاکستان اوربھارت دونوں ہمارے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ ہمارے کئی اہداف یکساں ہیں‘۔ایران اس سے قبل بھی دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کم کرنے کے لیے معاونت کی پیش کش کرچکا ہے۔ لیکن بھارت کی جانب سے ایران کی اس مخلصانہ پیشکش پر سردمہری کے رویے کی وجہ سے ایران اس حوالے سے کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر رہاہے۔
موجودہ صورت حال میں دانش مندی کا تقاضہ یہی ہے کہ ایران پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی اس پیشکش کو زبانی سے آگے بڑھا نے اور اس حوالے سے بھارتی رہنماﺅں سے ملاقاتیں کرکے انہیں پاکستان کے ساتھ تنازعات پر امن طورپر حل کرنے پر رضامند کرنے کی کوشش کریں ، جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان بھارت کے ساتھ اپنے تمام تنازعات پر امن طریقے سے بات چیت کے ذریعہ افہام وتفہیم کے جذبے کے تحت حل کرنے کی پیشکش کرچکا ہے اور اس حوالے سے کسی بھی ملک کی ثالثی کو قبول کرنے کا عندیہ بھی ظاہر کرچکا ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ ایرانی رہنما پاک بھارت تنازعات طے کرانے کے لیے اپنی اس زبانی پیشکش کو عملی شکل دینے کے لیے پیش رفت پر توجہ دیں گے تاکہ اس خطے کو جنگ کے مہیب خطرات سے محفوظ رکھنا ممکن ہوسکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں