عمران خان کی گرفتاری قانونی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کافیصلہ
شیئر کریں
سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کیخلاف کیس میں ڈی جی نیب راولپنڈی، سیکرٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد عدالت پیش ہو گئے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کی گرفتاری کو قانونی قرار دے دیا جبکہ سیکرٹری داخلہ اور آئی جی کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیئے۔عدالت پیش ہونے سے پہلے سرکاری اداروں کے حکام نے مشاورت کی، ڈی جی نیب ، ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد مشاورت میں شریک ہوئے، سرکاری افسران کی جانب سے مشاورت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیمبر کے عقبی لان میں کی گئی۔وقفے کے بعد عدالت میں سماعت شروع ہوئی تو نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کا یکم مئی کو وارنٹ جاری کیا گیا تھا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب وارنٹ پر عملدرآمد کیا گیا تو نیب کا کوئی افسر موجود تھا؟، پراسیکیوٹر نے بتایا نیب کا افسر بیلا روڈ پر تھا، نیب کا تفتیشی افسر ابھی کمرہ عدالت میں موجود نہیں۔پراسیکیوٹر نے مزید بتایا کہ نیب نے وارنٹ پر عملدرآمد کیلئے وزارت داخلہ کو 8 مئی کو خط لکھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا میرا مرکزی کنسرن یہ ہے کہ عدالت کے اندر جو کچھ کام ہوا، بظاہر یہ کام غلط ہی ہوا ہے، کیا عدالت کے احاطے سے گرفتاری ہو سکتی ہے؟، پراسیکیوٹر نے بتایا گرفتاری میں مزاحمت کی جائے تو قانون اجازت دیتا ہے کہ سختی کی جائے، انکوائری کو انویسٹی گیشن میں کنورٹ کیا گیا ہے چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ہر کیس میں نیب وارنٹ گرفتاری پر ایسے ہی عمل کرتی ہے، میرے علم کے مطابق سپریم کورٹ میں ایک بار ایسی گرفتاری ہوئی تھی، حارث سٹیل کیس میں سپریم کورٹ سے ایسی گرفتاری ہوئی، عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے فوری طور پر گرفتار شخص کی رہائی کا حکم دیا تھا، چیف جسٹس نے کہا عدالتی احاطے سے گرفتاری پر معاونت کریں۔پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو مزید بتایا کہ قانون کے مطابق کسی گھر یا جگہ پر گرفتاری کے وقت کھڑکیاں دروازے توڑے جا سکتے ہیں، عدالت نے پوچھا یہ بتائیں جو آج عدالت کے احاطے میں ہوا وہ قانونی ہے؟، عدالت کی عزت و وقار اور وکلائ کے ساتھ جو ہوا اس پر جو کرنا ہے وہ مجھے پتہ ہے، ابھی مجھے یہ بتائیں کہ جو گرفتاری ہوئی وہ کیسے قانون کے مطابق ہے۔