پنجاب انتخابات کیس، سپریم کورٹ کا اسٹیٹ بینک کو براہ راست فنڈز جاری کرنے کا حکم
شیئر کریں
پنجاب میں انتخابات کیلئے فنڈز کے اجرا کے معاملے پر حکومت نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں موقف اختیار کیا ہے کہ پارلیمان سے بل مسترد ہونے کے بعد وفاقی حکومت کے پاس فنڈ جاری کرنے کا اختیار نہیں جبکہ سپریم کورٹ نے پنجاب میں انتخابات کیلئے قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک کو الیکشن کمیشن کو براہ راست فنڈز جاری کرنے کا حکم دے دیا۔جمعہ کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اِن چیمبر سماعت کی جو ایک گھنٹہ 20 منٹ تک جاری رہی، اس دوران اٹارنی جنرل اور دیگر حکام پیش ہوئے ۔سماعت میں وزارت خزانہ کے ا سپیشل سیکرٹری اویس منظور سمرا، ایڈیشنل سیکرٹری عامر محمود ، ایڈیشنل سیکریٹری تنویر بٹ کے علاوہ اسٹیٹ بینک کی قائم مقام گورنر سیما کامل پیش ہوئیں جبکہ وفاقی حکومت کی نمائندگی اٹارنی جنرل نے کی۔اٹارنی جنرل، وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے عدالت کو بریفنگ دی گئی۔وفاقی حکومت کی جانب سے ان چیمبر سماعت کے دوران جمع کرائے گئے تحریری موقف میں کہا گیا کہ حکومت نے عدالتی احکامات پر عمل کر دیا ہے ۔دستاویز کے مطابق حکومت نے کہا کہ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے پیسے جاری کرنے کیلئے ایکٹ آف پارلیمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ایکٹ آف پارلیمنٹ کے لیے پیش کردہ بل پارلیمان نے مسترد کر دیا ہے ۔تحریری جواب میں کہا گیا کہ بل مسترد ہونے کے بعد وفاقی حکومت کے پاس فنڈ جاری کرنے کا اختیار نہیں، اس لیے وفاقی حکومت اسٹیٹ بنک کو فنڈ جاری کرنے کا حکم نہیں دے سکتی البتہ وفاقی حکومت نے عدالتی حکم کے تحت اپنی قانونی ذمہ داری پوری کر دی ہے ۔اٹارنی جنرل فار پاکستان منصور عثمان اعوان نے حکومتی موقف سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وفاقی حکومت انتخابات کیلئے فنڈز کے اجرا میں بے بس ہے ۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ نے حکومت کو فنڈز جاری کرنے کا اختیار ہی نہیں دیا تو فنڈز کیسے جاری کریں۔سیکریٹری الیکشن کمیشن نے بھی عدالت کو پنجاب اسمبلی انتخابات سے متعلق پیش رفت سے آگاہ کیا۔سیکریٹری الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے فنڈز فراہم نہیں کیے اور نگران حکومت پنجاب نے سیکیورٹی فراہمی کی یقین دہانی بھی نہیں کروائی۔سماعت ایک گھنٹہ 20 منٹ جاری رہی جس کے دوران اسٹیٹ بینک کے حکام نے بھی عدالت کو بریف کیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق سماعت کے دوران قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک کے ہمراہ آنے والے دیگر افسران کو چیمبر سے باہر بھیج دیا گیا جبکہ وزارت خزانہ کے اسپیشل اور ایڈیشنل سیکریٹری کے علاوہ دیگر حکام کو بھی سماعت کے وقت باہربھیجا گیا، اٹارنی جنرل، سیکریٹری اورڈی جی لاء الیکشن کمیشن سماعت میں موجود رہے ۔ذرائع کے مطابق ججز نے الیکشن کیلئے فنڈز جاری نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا اور واضح کیا کہ عدالتی حکم پرعمل کرنا پڑیگا۔ذرائع کے مطابق سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کو حکومتی موقف پیش کرنے پرسخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 4 اپریل کو الیکشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ فنڈنگ کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کریں اور فنڈز کی درخواست پر حکومت سے آنے والے جواب کی ایک رپورٹ جمع کرادیں۔سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اگر فنڈ فراہم نہیں کیے جاتے ہیں یا فنڈز کم جاری کیے جاتے ہیں تو سپریم کورٹ احکامات جاری کرسکتی ہے یا متعلقہ حکام کو ہدایات دے سکتی ہے ۔ادھر وفاقی وزیر خزانہ نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق 21 ارب روپے جاری کرنے کے لیے منی بل پارلیمان کی منظوری کے لیے پیش کیا تھا۔جس پر گزشتہ روز قائمہ کمیٹی نے الیکشن کمیشن کو فنڈز فراہمی سے متعلق منی بل 2023 کو متفقہ طور پر مسترد کردیا۔بعدازاں قومی اسمبلی نے بھی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابی اخراجات کے لیے 21 ارب کی فراہمی کے لیے پیش کی گئی تحریک کثرت رائے سے مسترد کردی گئی تھی۔