عمران خان کے دانشمندانہ فیصلے
شیئر کریں
سابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے رجوع اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے انتخابات ملتوی کرنے فیصلے کے خلاف آج سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ پر اعتمادہے وہ آئین سے انحراف نہیں ہونے دے گی،پوری قوم سپریم کورٹ کے پیچھے کھڑی ہے،سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ بارسمیت 96بار ایسوسی ایشنزنے فیصلے کو مسترد کیا ہے،وکلاکی تحریک چلے گی تو تحریک انصاف ان کے پیچھے کھڑے ہو گی،مقرررہ مدت کے بعد نگراں حکومت کی کوئی گنجائش نہیں، الیکشن کمیشن نے آئین کی دھجیاں اڑادیں‘ پانچوں ممبرز پر آرٹیکل 6لگنا چاہئے‘ الیکشن کمیشن نے آئین اور قانون کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں،الیکشن کمیشن نے پتہ نہیں کون سے آئین کی تشریح پڑھی کہ نئی تاریخ کا فیصلہ دیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے ہدایات دی ہیں کہ تحریک انصاف کے سینیٹرز پیر کو جوائنٹ سیشن میں شرکت کریں گے۔عمران خان نے واضح کیا کہ آئین کی حفاظت سپریم کورٹ اور عوام کوکرنی ہے‘پوری قوم سپریم کورٹ کے پیچھے کھڑی ہے۔ آئین کو بچانا سپریم کورٹ کا فرض ہے اسی مقصد کیلئے سپریم کورٹ کے ججزہیں،سپریم کورٹ پر بہت دباؤ ہے ججوں کوبلیک میل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے پوری مہم چلائی گئی ہے لیکن سپریم کورٹ کے ججز تاریخ کے سامنے سرخرو ہوں گے۔صدر لاہور ہائیکورٹ بار اشتیاق احمد خان نے الیکشن کمیشن کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن انتخابات ملتوی کرکے مس کنڈکٹ کا مرتکب ہورہا ہے صدر لاہور ہائیکورٹ بار اشتیاق احمد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کرانے کی جو وجوہات دیں سپریم کورٹ پہلے ہی مسترد کرچکی ہے، الیکشن کمیشن نے اب سپریم کورٹ کے انتخابات کروانے کے حکم پر عملدرآمد کرنا ہے، الیکشن کمیشن نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انتخابات کا شیڈول واپس لیا، الیکشن کمیشن انتخابات ملتوی کرکے مس کنڈکٹ کا مرتکب ہورہا ہے، وکلاء برادری قانون کی حکمران کیلئے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے ساتھ کھڑی ہے، اس کیلئے تحریک بھی چلانا پڑی تو تمام بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسلز تیار ہیں۔ اشتیاق احمد خان کا کہنا تھا کہ ججوں میں ذاتی اختلاف نہیں فیصلوں میں اختلاف ہوتا ہے، حکومت سپریم کورٹ میں اختلافات پیدا کر کے ادارے کی تباہی کا باعث بنے گی۔
جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو دیکھا جائے تو عمران خان الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن ملتوی کرنے کے اعلان کے خلاف کوئی تحریک چلانے کی بات کرنے کے بجائے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کرکے پہلی مرتبہ انتہائی دانش مندی کا ثبوت دیا ہے،ان کے اس فیصلے سے یہ ظاہرہوتاہے کہ انھوں نے اپنے سابقہ تجربات سے سبق سیکھنا شروع کردیاہے اور وہ یہ سمجھ چکے ہیں کہ تحریک چلاکر موجودہ حکومت کو کسی بات پر مجبور کرنا ممکن نہیں ہے،اسی طرح عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ ختم کرکے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کرکے بھی انتہائی دانشمندی کا ثبوت دیاہے،کیونکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تحریک انصاف کی شرکت کی صورت میں مخلوط حکومت کو کسی طرح کی من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ نہیں مل سکے گی۔جہاں تک الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ کے متوقع فیصلے کا تعلق ہے تو چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے یہ کہا تھا کہ انتخابات کی شفافیت میں الیکشن کمیشن کی بدنیتی سامنے آئی تو سپریم کورٹ اس کا نوٹس لے گی۔ شفافیت تو کیا یہاں تو الیکشن کا وہ شیڈول ہی الٹا دیا گیا ہے جو سپریم کورٹ کے حکم سے دیا گیا تھا،الیکشن کمیشن نے تو ہاتھ کھڑے کئے ہیں الیکشن کمیشن کا موقف وفاقی حکومت کے خلاف پوری چارج شیٹ ہے کہ یہ ہمیں پیسے دے رہے ہیں نہ یہ ہمیں سیکورٹی دے رہے ہیں تو ہم الیکشن کیسے کرائیں گے۔ اب یقینا سپریم کورٹ میں بنیادی سوال ہی یہ اٹھے گا کہ الیکشن کمیشن کیا سپریم کورٹ کی منظوری کے بغیر انتخابات کو اس طرح ملتو ی کر سکتا ہے اگر اس نے ریاستی اداروں سے مشاورت مکمل کر بھی لی تھی تو اس کا سارا مواد سپریم کورٹ کے سامنے رکھ کر رہنمائی طلب کرنی چاہیے تھی کہ ان حالات میں الیکشن کیسے کرانے چاہئیں، اس کی بجائے الیکشن کمیشن نے خود ہی ان دلائل سے مطمئن ہو کر 30اپریل کے انتخابات ملتوی کر دیئے اور اپنی مرضی سے 8اکتوبر کی تاریخ بھی دے دی۔یہ معاملہ اتنا سادہ تو ہے نہیں، آئین میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90دنوں میں انتخابات کرانے کی واضح شق موجود ہے۔ سپریم کورٹ نے تمام فریقوں سے ان کا موقف سننے کے بعد یہ حکم جاری کیا کہ انتخابات 90دنوں میں ہوں گے تاہم تکنیکی طور پر چند روز کا اضافہ کیا جا سکتا ہے، اس پر صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو مشاور ت کیلئے بلایا اور وہی الیکشن کمیشن جو پہلے صدر مملکت سے معذرت کر چکا تھا، صدر کو دو تاریخیں دینے پر مجبور ہوگیا جن میں سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 30اپریل کی تاریخ سے اتفاق کیا اور یوں یہ معاملہ نمٹ گیا۔ الیکشن کمیشن نے اس کے بعد انتخابات کا شیڈول بھی جاری کر دیا۔ کاغذات نامزدگی بھی وصول کئے گئے، آج کل ان کی سکروٹنگ کا عمل جاری تھا۔ اب ذرا واقعات کی ترتیب دیکھئے۔20مارچ کو تمام حکومتی جماعتوں کا اجلاس ہوتا ہے جس میں انتخابات کے انعقاد پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ موجودہ حالات میں دو صوبوں کے انتخابات کو غیر مناسب قرار دے کر انہیں عام انتخابات کے ساتھ کرانے کی ضرورت و اہمیت واضح کی جاتی ہے۔ اس کے بعد 22مارچ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ دوٹوک الفاظ میں کہہ دیتے ہیں کہ قومی انتخابات سے پہلے دو صوبوں میں انتخابات سے انتشار پھیلے گا۔ اس سے جمہوریت کو فائدے کی بجائے نقصان ہوگا، اس لئے یہ انتخابات نہیں ہونے چاہئیں۔ ان کے خطاب کی گونج ابھی موجود تھی کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سب کچھ ایک منصوبے کے ساتھ کیا گیا اور اس کا سکرپٹ پہلے لکھا جا چکا تھا۔اگرچہ حکومتی حلقوں کی طرف سے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو بحران سے بچنے کی ایک کوشش قرار دیا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد بحران بڑھ گیا ہے۔ یہ بحران آئینی بھی ہے اور سیاسی بھی۔ آئینی بحران کی نوعیت یہ ہے کہ آئین میں درج 90دن کی مدت کو کیسے آگے لے جایا جا سکتا ہے۔ اگر ایک بار اس کی روایت پڑ گئی تو پھر آئندہ اسے کیسے روکا جا سکے گا۔ ایک طرف آئین کی شق اور دوسری طرف سپریم کورٹ کا حکم۔ اگر اس کے باوجود انتخابات نہیں ہوتے تو مستقبل میں من مانی تشریح اور فیصلوں کا راستہ کھل جائے گا جس سے انتشار بڑھے گا اور ہم سرزمین بے آئین کی شکل اختیار کر جائیں گے۔ الیکشن کمیشن نے صرف یہی نہیں کیا کہ 30 اپریل کی تاریخ ملتوی کر دی بلکہ 8اکتوبر کی نئی تاریخ بھی دے دی۔
اس تاریخ کا تعین کس طریقے اور کس فارمولے کے تحت کیا گیا اور اس کیلئے کس سے مشاورت کی گئی۔ اس پر کون یقین کرے گا کہ 8اکتوبر کو انتخابات ہو جائیں گے۔ پھر تو ان انتخابات کا حشر بھی بلدیاتی انتخابات جیسا ہی ہو گا جن میں تاریخ پر تاریخ دی جاتی ہے۔ سب سے بڑا آئینی سوال یہ ہے کہ 90دن گزر جانے کے بعد دونوں صوبوں کی نگران حکومتوں کا مستقبل کیا ہوگا۔ آئین میں تو واضح درج ہے کہ 90دنوں کے لئے نگران حکومتیں قائم کی جائیں گی، اس سے آگے تو ان کے بارے میں کوئی حکم موجود نہیں، اگریہ حکومتیں 90دنوں کے بعد بھی کام کرتی ہیں تو ان کے فیصلوں کی آئینی و قانونی حیثیت کیا ہوگی۔ من مانی کرتے ہوئے کچھ بھی کہا جا سکتا ہے تاہم اگر اس ملک کو آئین کے مطابق چلانا ہے تو پھر آئین ہی سے رہنمائی لینی پڑے گی۔ آئینی بحران کے ساتھ ساتھ سیاسی بحران بھی اس فیصلے کے بعد شدت اختیار کرے گا۔ اگر یہ فیصلہ اتفاق رائے سے ہوتا اور تحریک انصاف کو بھی ان وجوہات کے حوالے سے اعتماد میں لیا جاتا، جن کی وجہ سے 30اپریل کو انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں تو شاید اس بحران میں کمی آ جاتی۔ حکومت کی طرف سے بار بار یہ تو کہا جا رہا ہے کہ صوبائی اور قومی انتخابات ایک ہی تاریخ پر ہونے چاہئیں مگر اس حوالے سے تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت نہیں دی جا رہی۔
حالات ہیں کہ کشیدہ تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ حکمران اتحاد نے اپنے ایک اجلاس میں صرف اس نکتے پر غور کیا ہے کہ عمران خان کو راہ راست پر کیسے لانا ہے۔ سارا زور اس بات پر دینا ہے کہ ریاستی رٹ منوائی جائے اور مخالفین کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی بلا لیا گیا ہے اور خبریں آ رہی ہیں کہ تحریک انصاف کے بارے میں حکومت کوئی فیصلہ کرنے جا رہی ہے لیکن عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کرکے حکومت کی من مانیوں کی راہ ایک دیوار کھڑی کردی ہے جس کی حکومت کو توقع ہی نہیں تھی۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کیا جا چکا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے حکومت نے یہ طے کر لیاہے اب طاقت کے زور پر تحریک انصاف کو دبانا ہے اور اسے پنجاب کے انتخابات کی کمپین بھی نہیں کرنے دیتا۔ دوسری طرف عمران خان مسلسل یہ کہہ رہے، انہیں قتل کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ اسلام آباد پیشی کے موقع پر انہیں مارنے کی پوری تیاری کر لی گئی تھی بروقت علم ہو جانے کی وجہ سے وہ اپنی گاڑی نکال کے بچنے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے چیف جسٹس کو خط بھی لکھا ہے جس میں استدعا کی ہے کہ ان کے مقدمات کی سماعت وڈیولنک کے ذریعے کی جائے کیونکہ اتنے زیادہ مقدمات میں ان کی بار بار پیشی ان کی جان کیلئے خطرہ بن سکتی ہے۔ انہوں نے ساتھ ہی مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ظاہر ہے بیک وقت ان دو متضاد باتوں کی وجہ سے معاملہ اُلجھ جاتا ہے۔ اُدھر پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی بھی کھل کر سامنے آ گئے ہیں اور انہوں نے واضح پیغام دے دیا ہے کہ اب پولیس کی طرف کوئی ہاتھ بڑھائے گا تو وہ ہاتھ توڑ دیا جائے گا۔ انہوں نے پولیس کو فری ہینڈ بھی دے دیا ہے۔ تحریک انصاف کے حلقے وزیراعلیٰ محسن نقوی کی ان باتوں کو نگران وزیراعلیٰ کے منصب سے بعید قرار دے رہے ہیں کیونکہ وہ ایک ایسے وزیراعلیٰ بنتے جا رہے ہیں جو غیر جانبداری کی حدود سے نکل چکا ہے۔یہ تمام صورتِ حال اس بات کی چغلی کھا رہی ہے کہ سیاسی حالات کشیدگی کی طرف جا رہے ہیں اور مفاہمت کی کوئی صورت، کوئی کوشش دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔ کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ آخر اس کا انجام کیا ہو گا
جب سیاست بے لگام ہوتی ہے تو اسی قسم کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ یہ عمران خان کی خوش قسمتی سمجھیں یا عوامی شعور کی اُٹھی ہوئی لہر کہ یہ پہلی حکومت تھی جس کے جانے پر عوام کی اکثریت ناراض ہوئی ہے اور اس فیصلے کو قبول نہیں کیا گیا اوپر سے پی ڈی ایم کی حکومت کی نااہلیوں اور کمر توڑ مہنگائی نے عمران خان کی حمایت میں اضافہ کر دیا ہے اور عمران خان ایک بار پھر مسیحا کا روپ دھار گئے ہیں۔ اس بار جس طرح عوام نے والہانہ عمران خان کو چاہا اور ان کا ساتھ دیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی، جس طرح عوام عمران خان اور ریاست کے درمیان میں آ کر عمران خان کے لئے ڈھال بنے ہوئے ہیں اور خان مخالف تمام قوتوں کو للکار رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اگر عوامی حمایت کے زور پر دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کیا وہ واقعی عوام کے لیے ایک مسیحا بنیں گے اور پاکستان کو مسائل کی دلدل سے نکال سکیں گے؟