میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آئی ایم ایف کی شرائط در شرائط، حکومت عوام کو اعتماد میں لے

آئی ایم ایف کی شرائط در شرائط، حکومت عوام کو اعتماد میں لے

جرات ڈیسک
جمعه, ۳۱ مارچ ۲۰۲۳

شیئر کریں

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے تاحال پاکستان کو قرض دینے کے لیے معاہدہ نہیں کیا،اور قرض جاری کرنے کے لیے اسٹاف لیول پر معاہدے کے لیے ایک کے بعد ایک شرط عائد کی جارہی ہے۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ڈائریکٹر کمیونی کیشن جولیا کوزک نے کہا ہے کہ پاکستان کو مہنگائی، پست شرح نمو اور زرمبادلہ کی ضرورت جیسے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ پاکستان سے معاشی اصلاحات پر عمل درآمد چاہتے ہیں۔ پاکستان معاشی اصلاحات پر عمل درآمد کرکے اعتماد بحال کرے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی ہدایت پر قرض کے حصول کے لیے اس کی جانب سے عائد کردہ تمام شرائط پر آنکھ بند کرکے عمل کرتے ہوئے اپنے عوام کی زندگی اجیرن بناچکا ہے لیکن حکومت کے ان پیشگی اقدامات کے باوجود آئی ایم ایف کی تشفی نہیں ہو رہی اور وہ مزید معاشی اصلاحات کی آڑ میں پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کیے جا رہا ہے۔ پیشگی اقدامات کے تحت پاکستان سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے بڑھا کر 18 فیصد، لگژری اشیاء کی شرح میں 25 فیصد جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی لیوی اور بجلی کے بلوں پر بھی سرچارج کی شرح میں اضافہ کر چکا ہے جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا اور اس سے لامحالہ عام آدمی ہی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ یہ سب کرنے کے باوجود آئی ایم ایف کا پاکستان پر اعتماد بحال نہیں ہو رہا۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کی جانب سے یوکرائن کو 16 ارب ڈالر کے لگ بھگ کا قرضہ دیا گیا ہے جو اس وقت حالت جنگ میں ہے اور اس جنگ کے خاتمہ پر اس کا مستقبل کیا ہوگا، اس کی پروا کیے بغیر اسے قرضہ جاری کیا جارہا ہے۔ اصولی بنیادوں پر تو یوکرائن کسی طرح بھی پورا نہیں اترتا کہ کسی مالیاتی ادارے کی طرف سے اسے قرضہ جاری کیا جائے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی جانب سے تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود اسے ایک ارب ڈالر نہیں دیے جا رہے۔اس طرح آئی ایم ایف کے تاخیری حربے اس تاثر کو ہی تقویت دے رہے ہیں کہ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت پاکستان کا گھیرا تنگ رکھا جائے تاکہ سری لنکا کی طرح پاکستان بھی خود کو ڈیفالٹ ڈکلیئر کردے۔ ان حالات میں ارباب حکومت کا تشویش کا شکار ہونا ایک فطری امرہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس سلسلے میں امریکہ سے بات کی جائے گی لیکن امریکہ سے اس حوالے سے کئے گئے رابطوں کے بھی کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے، دوسری جانب، یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عالمی ساہوکار ادارے نے پاکستان سے یہ کہا ہے کہ وہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور کثیرالجہتی کریڈیٹرز کی جانب سے 6 ارب سے 7 ارب ڈالرز کی بیرونی فنانسنگ کی توثیق حاصل کرے تاکہ جون 2023ء تک کا خلا پر کیا جاسکے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیرونی سرمایے کی اس یقین دہانی کے بغیر آئی ایم ایف پروگرام کے پائیداری کی کوئی ضمانت فراہم نہیں کی جاسکتی۔عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ بیرونی شراکت داروں کی بروقت مالی امداد پاکستان کے ساتھ نویں جائزے کی کامیابی یقینی بنانے میں اہم ہوگی اور مالیاتی یقین دہانیوں کے بعد پاکستان کے ساتھ اگلا قدم اٹھا سکیں گے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو سست شرح نمو، بلند افراط زر اور بڑی مالیاتی ضروریات جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ توانائی کے شعبے میں زرتلافی کا مستقل بنیادوں پر خاتمہ کیا جائے۔ اطلاعات کے مطابق، اس سلسلے میں حکومت نے آئندہ مالی سال تک کا وعدہ کیا ہے تاکہ میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز (ایم ای ایف پی) میں تبدیلی پر عمل درآمد کیا جاسکے۔ اسی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت نے امریکہ سے بات کرنے کا فیصلہ کیاتھا تاکہ وہ آئی ایم ایف کو معاہدہ کرنے کے لیے راضی کرسکے لیکن پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے یہ کہہ کر کہ پاکستان کے سنجیدہ معاشی معاملات پر تمام شعبوں میں حل نکالنے کے لیے کام کررہے ہیں اس طرح کی بات چیت کے نتائج کی نشاندہی کردی ہے۔ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی سفیر نے کہا کہ پاکستان سنگین اہمیت کے حامل معاشی چیلنجز کا سامنا کررہا ہے اور امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان کو مشکل وقت سے نکلنے کا کوئی راستہ ملے۔ ڈونلڈ بلوم نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام بھی اسی معاملے کا ایک حصہ ہے۔ حال ہی میں واشنگٹن میں اعلیٰ سطح کے تجارت و سرمایہ کاری کے مذاکرات مکمل کیے۔ ساتھ ہی انھوں نے اپنے خاص ایجنڈے پر بات کرتے ہوئے کہ پاکستان دیگر ممالک کی طرح انسانی حقوق کے چیلنجز سے نبردآزما ہے، پاکستان کو ان الزامات کو ڈیل کرنا ہوگا۔امریکی سفیر نے مزید کہا کہ پاکستان کے ساتھ اب بھی شراکت دار ہیں، سیکورٹی کے شعبے میں پاکستان کی معاونت کے لیے کام کرتے رہیں گے۔اب حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ آئی ایم ایف تمام شرائط منوا کر دوبارہ ا سٹاف لیول معاہدے میں بلاوجہ تاخیر کر رہا ہے لیکن بات اتنی سیدھی ہے نہیں جتنا سیدھا بنا کر اسے پیش کیا جارہا ہے۔ موجودہ حکمران اتحاد ہو یا کوئی بھی اور جماعت یا گروہ، یہ لوگ کبھی بھی قوم کو پوری بات نہیں بتاتے، لہٰذا قوم یہ جان ہی نہیں پاتی کہ اگر معاملات بگاڑ کا شکار ہورہے ہیں تو ان کے پیچھے اصل اسباب کیا ہیں۔ دو روز پہلے توشہ خانہ کا 21 سالہ ریکارڈ کے منظر عام پر آنے سے یہ پوری طرح واضح ہوچکا ہے کہ یہ لوگ صرف اپنے مفادات کے تحفظ کی حد تک متحد ہیں۔ اسی لیے ایسی قانون سازی کی جاتی ہے جس سے سیاسی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے وابستگان کو فائدے پہنچیں۔ ملک اور عوام کے مسائل ان میں سے کسی کی بھی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ حزبِ اختلاف میں ہوتے ہوئے ان میں سے ہر کوئی ایسے بیانات دیتا ہے جیسے اس سے زیادہ عوام کا ہمدرد اور مونس اور کوئی نہیں ہے لیکن جیسے ہی یہ لوگ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے ہیں انھیں عوام بھول جاتے ہیں اور پھر یہ اپنی توندیں اور تجوریاں بھرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ ایک لمبے عرصے سے جاری ہے اور قابلِ قیاس مستقبل میں اس کے رکنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔اسی بات کو سامنے رکھ کر آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے حال ہی میں ایک جرمن ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ امیر طبقے سے ٹیکس وصول کرے اور انھیں دی جانے والی سبسڈیز ختم کی جائیں۔ پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ شاید اس وجہ سے بھی التوا کا شکار ہورہا ہے کہ اب عالمی ساہوکار کو یہ دکھائی دینے لگا کہ ہمارے مقتدر حلقے قرضہ تو ملکی معیشت میں سدھار لانے کے لیے حاصل کرتے ہیں لیکن پھر اس رقم کا بڑا حصہ یہ لوگ اپنے اوپر ہی خرچ کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے مسائل بڑھتے جاتے ہیں۔ اگر ہماری سیاسی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے مختلف دھڑے واقعی اس ملک اور عوام کے ساتھ مخلص ہوں تو ممکن ہے ہمیں معیشت کو سنبھالنے کے لیے کسی بیرونی مدد کی ضرورت ہی پیش نہ آئے کیونکہ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ مذکورہ طبقات کے پاس اتنی دولت
موجود ہے کہ وہ اس کا چند فیصد دے کر ہی ملک کو آئی ایم ایف جیسے اداروں سے نجات دلا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے جس ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہے وہ شاید ان میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔ یہ عوام سے ضرور کہتے ہیں کہ وہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے قربانی دیں لیکن آج تک طاقتور طبقات میں سے کسی نے بھی قربانی نہیں دی۔دوسری جانب امریکی خاتون سینیٹر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بڑھتا سیاسی تشدد اور سیاسی تناؤ پریشان کن ہے‘ پاکستانی رہنماؤں کو جمہوری اور آئینی اصولوں کا احترام کرنا چاہیے، اس بیان یا مطالبے سے صاف ظاہرہے کہ امریکہ موجودہ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔ اس لیے زبانی کلامی ہمدردی کے اظہار کے علاوہ پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھانے یا آئی ایم ایف کو اپنا ہاتھ ہولا رکھنے کا مشورہ دینے کوبھی تیار نہیں ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت پاکستان پیشگی اقدامات کے تحت آئی ایم ایف کو مطمئن کر چکی ہے تاکہ ورچوئل معاہدے کی راہ ہموار ہو سکے۔ پیشگی اقدامات پر حکومت کو نہ صرف اپوزیشن کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ مہنگائی کے نئے اٹھتے طوفانوں کے باعث اسے سخت عوامی ردعمل بھی برداشت کرنا پڑا۔ اس کے باوجود اب آئی ایم ایف کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ بیرونی مالیاتی یقین دہانیوں کے بعد ہی قرض کی نئی قسط کی جانب قدم اٹھایا جائے گا جس سے یہ تاثر پختہ ہوچکا ہے کہ آئی ایم ایف کو پاکستان کے بدخواہ اس کے بعض رکن ممالک کی جانب سے باقاعدہ ڈکٹیشن دی جا رہی ہے جس کے تحت پاکستان کا گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ پاکستان کو مطمئن کرنے کے بعد آئی ایم ایف کے پاس اب کوئی جواز باقی نہیں رہتا کہ وہ پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے سے گریز کرے۔ اگر آئی ایم ایف مزید شرائط کے بغیر قسط جاری کرنے پر آمادہ ہوتا ہے تو بہتر ہے‘ ورنہ اسے ”بس بہت ہوچکا“ کہتے ہوئے ہمیں بھی اس کے ساتھ واضح پالیسی اختیار کرنی چاہئے۔ حکمرانوں کو اپنی حکومت بچانے کیلئے کھیلے جانے والے کھیل کو بند کرکے اب تمام اقتصادی ماہرین کو مل بیٹھنے کی سنجیدہ دعوت دینی چاہئے تاکہ تمام اقتصادی ماہرین سر جوڑ کر آئی ایم ایف کے شکنجے سے نکلنے کی کوئی سبیل تلاش کرسکیں۔
حکومت کو اب یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ ملک کی معیشت کوئی ماہر معاشیات ہی چلاسکے اگر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ معیشت کی راہ درست کرنے کی صلاحیت رکھتے تو شبر زیدی ناکام ہوکر گوشہ گمنامی میں نہ جاتے،حکومت کو یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ ملک میں بدترین مہنگائی کے طوفان آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے باعث ہی اٹھ رہے ہیں۔ گزشتہ روز ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق رواں ہفتے مہنگائی میں 1.80 فیصد اضافہ ہوا جبکہ 26 اشیائے ضروریہ مہنگی ہوئیں۔ اس کے علاوہ ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی آئی ایم ایف کیلئے من مانی کرنے کی راہ ہموار کرر ہا ہے جس کا اشارہ گزشتہ روز امریکی سینیٹر خاتون بھی دے چکی ہیں۔ اس غیریقینی کی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر ہی آئی ایم ایف مخصوص ایجنڈے کے تحت اپنی من مانیوں پر اترا نظر آتا ہے۔ موجودہ بدترین مہنگائی نے عوام کا پہلے ہی جینا محال کیا ہوا ہے‘ حکومت کوآئی ایم ایف کے ساتھ کسی بھی معاہدے پر عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کرنے سے بہرصورت گریز کرنا چاہیے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں