میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نئے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد اور انتقام کا ہتھیار نیب

نئے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد اور انتقام کا ہتھیار نیب

جرات ڈیسک
پیر, ۶ مارچ ۲۰۲۳

شیئر کریں

باسط علی

٭ آفتاب سلطان نے انیب کو سیاسی انتقام کا ہتھیار بنانے سے انکار کردیاجس کے باعث وہ اپنی تین سالہ مدت پوری نہ کرسکے اوراُنہیں قبل از وقت مستعفی ہونا پڑا

٭لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ اس سے قبل کور کمانڈر پشاور، انسپیکٹر جنرل کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمانڈنٹ ملٹری اکیڈمی کاکول بھی رہ چکے ہیں

٭ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کو کوئی نہیں جانتا لیکن سویلین عہدے پر سابق فوجی افسر کی تقرری کا خیر مقدم نہیں کرتے (سیکریٹری جنرل پاکستان پیپلزپارٹی فرحت اللہ بابر)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ تمام آئینی تقرریاں جو وزیراعظم کو قائد حزب اختلاف کے ساتھ مل کر کرنا ہوتی ہیں، ان دنوں متنازع ہیں۔ اگرچہ اس پر زیادہ تیز گفتگو نہیں ہو رہیں مگر یہ سوال وقتاً فوقتاً اُٹھا دیا جاتا ہے کہ آخر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلا ف راجہ فیاض کیسے ہو گئے؟اس سے قطع نظر اب تازہ ترین ”مشاورت“ وزیرا عظم اور اپوزیشن لیڈر(؟)راجہ فیاض کی چیئرمین نیب کے نام پر ہوئی ہے جس کے بعد نئے چیئرمین نیب کے طور پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد کو تعینات کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں بلا تاخیر سرکاری نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا واقعی وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈرکے درمیان ہونے والا مشاورتی عمل حقیقی ہوتا ہے؟ یا کچھ اہم ترین مناصب پر تعیناتیاں کہیں اور سے کی جاتی ہیں اور پھر یہ رسمی کارروائی کی طرح ایک میکانیکی عمل ہوتا ہے۔ سوال بہت ہیں، مگر پاکستان کے غیر ہموار سیاسی نظام اور خوف ناک ”مداخلتوں“ کے باوجود یہ تمام سوال تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔
رسمی ہی سہی، کسی بھی کارروائی کے نتیجے میں اب نئے چیئرمین نیب کے طور لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ کے نام کو منظوری مل چکی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ اس سے قبل کور کمانڈر پشاور، جی ایچ کیو میں انسپکٹر جنرل کمیونی کیشن اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمانڈنٹ ملٹری اکیڈمی کاکول بھی رہ چکے ہیں۔اہم ترین بات یہ ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ٹیم کا حصہ رہ چکے ہیں۔ جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ کی ٹیم میں کام کرنے والے اکثر افراد پر ان دنوں سنگین نوعیت کے سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ مگر موجودہ حکومت یا پھر فیصلہ ساز قوتوں نے اس کی کچھ زیادہ پروا نہیں کی۔ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو اس فیصلے کے پیچھے نئے چیئر مین نیب کا یہ پس منظر بھی چونکا دیے کہ وہ سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور شوکت عزیز کے ملٹری سیکرٹری بھی رہے ہیں۔ بہرحال لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ 2019ء میں افواج پاکستان سے ریٹائر ہوئے تھے۔

دو سابق وزرائے اعظم کی رسہ کشی میں قومی ادارے ساکھ کے بحران سے دوچار ہیں

یہ سادہ پس منظر یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ حکومتیں نیب سے کیا کام لیتی ہے؟ اور کیوں یہ ادارہ اپنی کوئی ساکھ نہیں رکھتا۔ چیئرمین نیب جاوید اقبال کے زمانے میں اس ادارے کو مخالفین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتارہا۔ جس کے باعث اس ادارے کا خوف تو کسی حد تک رہا مگر ساکھ بالکل جاتی رہی۔ جاوید اقبال کے بعد جب چیئرمین نیب کے طور پر آفتاب سلطان کا نام سامنے آیا تو ایک اندیشہ موجود تھا کہ نیب اپنے انتقامی کردار کو شاید برقرار رکھے۔ کیونکہ آفتاب سلطان بھی سابق وزرائے اعظم یوسف رضاگیلانی اور نواز شریف کے ادوار میں آئی بی کے اندر اہم ترین منصب پر رہے۔ مگر آفتاب سلطان نے اپنے مختصر دور میں نیب کو سیاسی انتقام کا ہتھیار بنانے سے انکار کردیا۔ جس کے باعث وہ اس منصب پر اپنی تین سالہ مدت پوری نہ کرسکے اور اُنہیں قبل از وقت مستعفی ہونا پڑا۔ سابق چیئرمین آفتاب سلطان نے استعفیٰ کے بعد اپنے الوداعی خطاب میں یہ واضح کردیا تھا کہ اُن پر کچھ رہائیوں اور کچھ گرفتاریوں کا دباؤ تھا۔ اُنہیں کچھ سیاسی مقدمات بھی قائم کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ یہ بھی واضح ہوا کہ اُنہیں کچھ بے قاعدگیوں کے معاملات پر کرپشن کے مقدمات قائم کرنے کا کہا گیا جس پر اُنہوں نے واضح کیا تھا کہ یہ کرپشن کا مقدمہ نہیں بنتا۔ اس تناظر میں یہ حقیقت واضح ہو گئی تھی کہ آفتاب سلطان اور نیب کے اہم ادارے کو کس طرح سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ آفتاب سلطان کی جانب سے اشارے صرف حکومت نہیں بلکہ طاقت ور اداروں کے خلاف بھی دیے گئے تھے، جہاں سے نیب پر ایک دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ آفتاب سلطان نے اپنے الوداعی خطاب میں نیب افسران پر زور دیا تھا کہ وہ ایسے دباؤ کو قبول نہ کریں۔ آفتاب سلطان نے اپنے الوداعی خطاب میں اپنے استعفے کی وجوہات کو بے نقاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے نیب میں مبینہ مداخلت پر استعفیٰ دیا۔اُن کے الفاظ دوٹوک تھے کہ ”نیب ایک اچھا ادارہ ہے، صرف ایک فیصد لوگ غلط کام کر رہے ہیں، نیب افسران ان ایک فیصد لوگوں کی بات نہ مانیں“۔اُنہوں اپنے الفاظ میں دباؤ کی نوعیت کو بھی عریاں کردیا تھا کہ ”مجھ سے یہ نہیں ہوتا کہ یہ زمین دلا دیں یا فلاں کے بھائی کو چھوڑ دو، دوسرے کے خلاف کیسز بنواتے ہیں خود دس، دس ارب بیرون ملک رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ایک پلاٹ والے کو کہا جاتا ہے اندر کر دو، اربوں روپے والے باہر ہیں“۔آفتاب سلطان کے یہ الفاظ دراصل طاقت ور حلقوں اور سیاسی حکومتوں کے اُس پیمانے کو واضح کرتے ہیں جو وہ چیئرمین نیب کی ”اہلیت“ کے متعلق رکھتے ہیں۔

مستعفی چیئرمین نیب آفتاب سلطان نے نیب کی ساکھ پر سوال اُٹھا دیے

آفتاب سلطان کے دباؤ قبول نہ کرنے اور استعفیٰ دینے سے واضح ہو گیا تھا کہ آئندہ دنوں میں نیب کا کردار کیا ہوگا؟ اس حوالے سے یہ تجسس بھی ختم ہو گیا تھا کہ نیب کا اگلا سربراہ کون ہوگا؟ کیونکہ یہ امر واضح تھا کہ نیب کا نیا سربراہ جو بھی ہوگا، وہ ایسے احکامات بجا لانے والا ہو گا جو سیاسی مخالفین کے خلاف دباؤ ڈالنے والے مقدمات کی تیاری میں کسی ہچکچاہٹ سے کام نہ لے گا؟ یہ بدگمانی تاریخی اور منطقی طور پر کتنی ہی درست ہو مگر بہر حال ابھی یہ فیصلہ ہونا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) نذیر احمد چیئرمین نیب کے طور پر کیسے سربراہ ثابت ہوتے ہیں؟ البتہ چیئرمین نیب کے معاملے میں ماضی قریب کا پس منظر نئے چیئرمین کے لیے پہلے سے ہی کافی الجھنیں پیدا کرنے کا باعث بنا رہے گا۔ اور ان کا ہر اقدام سیاسی انتقام کے مشکوک سائے میں رہے گا۔ یہ مسئلہ اس لیے بھی سنگین رہے گا کیونکہ حکومت کی جانب سے نئے چیئرمین کے لیے ایک ریٹائرڈ فوجی کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جبکہ سیاسی طور پر ایک مضبوط سیاسی ڈھانچے اور خود کفیل سیاسی نظام کی بحث میں سویلین بالادستی کا خواب دیکھنے والے عام طور پر سرکاری مناصب پر ریٹائرڈ فوجی افسران کی تقررریوں پر سوال اُٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کی اہم اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے اپنے ردِ عمل میں اس فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ فرحت اللہ بابر نے اپنے ردِ عمل میں کہا کہ”ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کو کوئی نہیں جانتا لیکن سویلین عہدے پر سابق فوجی افسر کی تقرری کا خیر مقدم نہیں کرتے“۔
آفتاب سلطان کے چیئرمین نیب کے استعفے اور نئے چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل(ر) نذیر احمدبٹ کی تقرری کے درمیانی عرصے میں نیب کے اقدامات سے واضح ہو گیا تھا کہ آندھی کا رخ کہا ں ہوگا؟ آفتاب سلطان کے استعفے کے فوراً بعد یہ خبر آئی کہ نیب نے شاہ محمود قریشی، عمران خان اور بشری بی بی کو طلب کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈی جی نیب لاہور علی سرفراز حسین کا بھی تبادلہ کردیا گیا۔ یہ تمام اقدامات واضح کرتے ہیں کہ نیب ایک بار پھر انتقام کا ہتھیار بنایا جارہا ہے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں