علم ۔۔۔ اور معلومات کا دورِ جدید
شیئر کریں
مولانا ندیم الرشید
ترجمہ
خدا سے تو اُس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں، بے شک خدا غالب اور بخشنے والا ہے۔
قابل صداحترام برادرانِ اسلام!
سورہ فاطرکی آیت نمبر28کی تلاوت اور ترجمہ آپ کے سامنے پیش کیاگیا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں خالق کائنات مالک کون ومکان رب دوجہاں نے علما کی شان بیان فرمائی ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے جو صحیح معنوں میں اپنے دل میں خوف خدا رکھتے ہیں وہ علما ہیں۔ گویا اسلامی علمیت میں جوحقیقتاً وہی شخص عالم کہلانے کا مستحق ہے جس کے دل میں خدا کا خوف موجود ہے۔ اس اعتبار سے علم کی بھی تعیین ہوگئی کہ ہمارے ہاں اصل علم وہ ہے جو خدا سے آشنا کردے اور دل میں اس کی محبت اور اس کا خوف پیدا کردے۔ ہر وہ علم جس کو پڑھنے کے بعد دل سے خدا کا خوف ختم ہوجائے اس سے محبت‘ اس پر ایمان اور اس کی اطاعت کا جذبہ جاتا رہے، مسلمانوں کے ہاں وہ علم نہیں جہالت ہے۔ خواہ دنیا کی نظر میں وہ کتنا ہی عظیم علم کیوں نہ ہو‘ اسی لیے وہ آدمی جس کے دل میں اپنے رب کا ڈر نہ ہو‘ رب کی محبت سے اس کا سینہ خالی ہو اور معبود کے حضور حاضری کا احساس بھی اسے نہ ہو، ایسا شخص عالم نہیں ہوسکتا۔ خواہ دنیاوی اعتبار سے وہ کتنا ہی پڑھا لکھا‘ سمجھدار باشعور اور دانشور کیوں نہ ہو‘ علم اور جہالت کا فیصلہ قرآن کی رو سے خشیت الٰہی کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کو بہت اچھی عربی‘ فارسی‘ اردواورانگلش زبان پر مہارت حاصل ہو لیکن وہ خدا‘رسول اور آخرت پر ایمان ہی نہ رکھتا ہو ایسے بے دین شخص کو کبھی عالم دین نہیں کہا جائے گا بلکہ آپ علیہ السلام کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ کی روشنی میں تویہ شخص بے شعور اور علم ودانش سے بھی عاری ہے کیونکہ آپ علیہ السلام کے مبارک فرمان کے مطابق دانشور وہ ہے جو خواہشات کی پیروی سے خود کو بچائے اور وہ اعمال کرے جو اسے مرنے کے بعد فائدہ پہنچائیں۔
سامعینِ محترم!
علم اور جہالت کا فیصلہ خشیت الٰہی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس کی دوسری بڑی دلیل یہ ہے کہ خوف خدا سے عاری لوگ اگرچہ حصول علم کے تمام ذرائع رکھتے ہیں ،وہ آنکھوں سے دیکھتے بھی ہیں‘ کانوں سے سنتے بھی ہیں‘ زبانوں سے سوال بھی کرتے ہیں اور دل میں غوروفکر بھی کرتے ہیں، اس کے باوجود قرآن ان کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ اندھے ہیں‘ گونگے ہیں‘ بہرے ہیں اور سمجھنے کی قوت سے محروم ہیں۔ گویا خدا کا خوف خدا کے بغیر حاصل ہونے والے علم کو کالعدم قرار دیتا ہے کیونکہ جب زمین وآسمان کے پیدا کرنے والے کی اطاعت‘ محبت‘ رضا اور خشیت کے دائرے سے باہر نکل کر ان ذرائع علم سے کوئی علم حاصل کیا جائے گا تو وہ علم کسی بھی کائناتی حقیقت کا اصل علم نہیں ہوگا کیونکہ اس حقیقت کا اصل علم تو اس حقیقت کے خالق کے پاس تھا۔ جب ہم نے خالق یعنی علم کے اصل ماخذ اصلsource کو چھوڑکر اپنی عقل کے زور پر کسی حقیقت کو جانناچاہا تو عقل نے اپنی نارسائی یا محدود دائرہ کار کے باعث اس حقیقت سے متعلق ہمارے ذہنوں میں ایک خیال پیش کردیا جس کا درجہ ایک ظن‘ گمان‘ تخمینے‘ اندازے یا ایک ادھورے تصور کے برابر ہوسکتا ہے لیکن وہ خیال ایک عظیم حقیقت کے قائم مقام کبھی نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا جو لوگ خالق کائنات کی رہنمائی کے بغیر اپنے علم کی بنیاد صرف حواس اور عقل محض پر رکھتے ہیں اور پھر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ علم بس وہی ہے جو ہم نے حاصل کیا اور حقیقت صرف وہی ہے جو ہم نے اپنی فکر سے پائی تو یہ ان کا اپنا ایک ذاتی خیال ہوسکتا لیکن کسی حقیقت کا اصل علم نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے قرآن کہتا ہے ومالھم بہ من علم ان یتبعون الاالظن لا یعنی من الحق شیئا۔۔۔ان کو اس کا کوئی علم نہیں وہ محض گمان کی پیروی کرتے ہیں اور گمان حقیقت کا قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اصل اور حقیقی علم وہ ہے جو خالق کائنات کی طرف سے آئے چونکہ علما کو انبیاءکے علم سے حصہ ملتا ہے لہٰذا علماکے پاس جو علم ہوتا ہے وہی اصل علم ہوتا ہے اور یہی وہ علم ہے جس سے خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ چونکہ خالق کے بندوں میں سے علما ہی وہ لوگ ہے جو خالق کے بارے میں سب سے زیادہ جانتے ہیں کہ وہ کس قدر طاقتور اور کس قدر عظیم ہے لہٰذا خالق کےبندوں میں سے علما ہی وہ لوگ ہیں جو خالق سے سب سے سب سے زیادہ ڈرنے والے ہوتے ہیں اسی لیے خالق کائنات نے علماءکے بارے میں فرمایا انمایخشی اللہ من عبادہ العلموئ
سامعین مکرم!
المیہ یہ ہے کہ جس دور میں ہم جی رہے ہیں اس دور میں جن کے پاس اصل علم ہے یعنی علماءان کے بارے میں پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ یہ جاہل ہیں جاہلوں والی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ وہ لوگ جو روشن خیال ہیں، تاریخ میں ان سے زیادہ سمجھدار‘ عقلمند اور علم والا آج تک پیدا نہیں ہوا، حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ جہاں تک جدید انسان کی سمجھ کا تعلق ہے تو عہد جدید کا روشن خیال انسان دودھ پینے کا عادی نہیں ، سگریٹ پینے کا عادی ہے ،یعنی وہ سمجھتاہے کہ اس کے جسم کو کیلشیم کی نہیں کینسر کی ضرورت ہے حالانکہ دنیا بھر میں سگریٹ سے سرطان کی تصدیق ہوچکی ہے۔ یہ انفارمیشن ایج کا سب سے سمجھدار انسان ہے‘ سگریٹ بیچنے والا اس احساس سے عاری ہے کہ زہر قاتل بیچ رہا ہے اور خریدنے والا اس احساس سے محروم ہے کہ یہ زہرقاتل منہ مانگے داموں خرید رہا ہے۔
جہاں تک عہد حاضر کے انسان کے علم کی بات ہے تو حال یہ ہے کہ اس دور کا انسان جو خود کو حفظان صحت کے اصولوں کا پابند سمجھتا ہے اور صفائی ستھرائی کا خوگرخیال کرتا ہے جبکہ پرانے دور کے لوگوں کو غلیظ گردانتا ہے اس کا اپنا حال یہ ہے کہ وہ جس کمرے میں سوتا ہے اسی کے ساتھ بیت الخلاءتعمیر کرواتا ہے، حالانکہ آج سے پچاس برس پہلے کے طرز تعمیر میں بیت الخلاءگھر کے سب سے دور دراز حصے میں بنایا جاتا تھا جو غسل خانے سے بالکل الگ ہوتا تھا۔ عموماً بیت الخلاءچھت پر بنایا جاتا تھا۔ لیکن جب انسان انفارمیشن ایج میں داخل ہوا ہے اور اسے پتہ چلا ہے کہ وہ تاریخ کا سب سے سمجھدار اور صاحب علم انسان ہے، اب وہ جہاں سوتا ہے وہیں بیت الخلاءتعمیر کرواتاہے ۔یہ سیانا آدمی ایساصاحب علم ہے کہ اپنی صفائی ستھرائی کی تمام چیزیںجتنی ہم اپنے بالوں اور جسم پر کثرت سے استعمال کرتے ہیں ،یعنی صابن ، شیمپو ، منجن ، ٹوتھ پیسٹ ،برش اور تیل وغیرہ اسی باتھ روم میں رکھتاہے ،جہاں تھوکا جاتاہے ، بول بزار کیاجاتاہے ۔میل کچیل دھویاجاتاہے ،جہاں دنیاکی غلیظ ترین اور خطرناک ترین ہائیڈروجن سلفائیڈ گیس سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔
اور پھر اس اٹیچ باتھ میں رنگین چکنے پتھرکی ٹائلیں بھی لگواتاہے کیونکہ نہاتے ہوئے اس کو پھسل کرگرنا اور آرتھروپیڈک شعبے میں داخلہ بھی کروانا ہوتاہے۔یہ سمجھ دار اور علم والا شخص تاریخ کا سب سے بڑ اعقل مند شخص ہے ،پڑھالکھاشخص ہے ،جو انفارمیشن کے نام پر ڈس انفارمیش کا شکارہے ۔جب کہ اس کے مقابلے میں علماءجاہل ہیں ۔جنہیں دنیا کا کچھ پتانہیں، یہ بیانیہ کہاں تک درست ہے ،اس پر غور فکر کی ضرورت ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اللہ نے جو ہمیں علم دیاہے اس پر عمل کرنے کی ضرورت سب سے زیادہ ہے ۔کیونکہ علم کا کمال عمل سے ظاہر ہوتاہے اور عمل کا پیداہوناخوف ِ خدا پیداہونے کی دلیل ہے ۔اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔