افغانستان کو ڈی جی آئی ایس پی آر کا انتباہ!
شیئر کریں
آئی ایس پی آرکے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ بارہا نشاندہی کے باوجود افغانستان کی سرزمین سے فتنہ الخوارج اور دیگر دہشت گرد مسلسل پاکستان میں دہشت گردی کرتے آرہے ہیں، انھوں نے طالبان کی حکومت کو متنبہ کیا کہ افغانستان خارجیوں اور دہشت گردوں کو پاکستان پر فوقیت نہ دے۔وزیر اعظم شہبازشریف نے بھی دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ افغان حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لیے ٹھوس حکمت عملی بنائے، انھوں نے کہا کہ ایک طرف ہمیں یہ پیغام ملے کہ ہم تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف کالعدم ٹی ٹی پی کو کھلی چھٹی ہو تو یہ دو عملی نہیں چلے گی۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے تانے بانے اور شواہد افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں تک جاتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دہشت گرد عناصر ہمارے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا چاہ رہے ہیں اور اسلام کا نام استعمال کر کے وہ دنیا میں اس پر امن مذہب کی بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ دہشت گردی کی وارداتوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے کیونکہ ان کارروائیوں کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کے بارے میں سن کر ملکی اور غیرملکی سرمایہ کار کاروبار میں اپنا پیسہ لگانے سے کتراتے ہیں، انھیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ان کی لگائی ہوئی رقم ڈوب نہ جائے۔یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ افغانستان میں اپنے ٹھکانے قائم کرنے والے دہشت گرد گروپوں کی وجہ سے ملک کے دو صوبے، بلوچستان اور خیبر پختونخوا، مسلسل دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ان صوبوں میں دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ پیش نہ آئے۔اگرچہ پاکستان کے عوام ،حکومت اور سکیورٹی فورسز ملک سے فتنہ الخوارج کے مکمل سد باب کے لیے سرگرم عمل ہیں لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کے واقعات کا ایک تسلسل کے ساتھ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے سیکورٹی سسٹم میں ایسے اسقام موجود ہیں یا حکام نے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے حوالے سے کچھ ایسے سافٹ کارنر بنارکھے ہیں جن کا دہشت گرد عناصر فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں دہشت گردی کے خاتمے کا صرف عزم ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات بھی کرنے چاہئیں، کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹھوس اقدامات کے بغیر کیا جانے والا عزم ایک بیان سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ دہشت گردی کے ناسور پر قابو پانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر بیٹھنا چاہیے اور پورے سیکورٹی سسٹم کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے تاکہ ان خامیوں کو تلاش کیا جاسکے جن سے تخریب کاروں کو فائدہ اور قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان ہورہا ہے۔ ان خامیوں کو دور کر کے ایک طرف ہم دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے اور دوسری جانب ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کو یہ اعتماد دے سکیں گے کہ پاکستان ایک محفوظ اور مستحکم ملک ہے جہاں سرمایہ کاری سے انھیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اگر ہم ایسا کرنے کے قابل ہوگئے تو پھر ہمیں کسی بھی بین الاقوامی ادارے یا ملک کے آگے قرضے کے لیے جھولی نہیں پھیلانا پڑے گی اور نہ ہی ایسے اقدامات کرنے پڑیں گے جن کی وجہ سے عوام پر ایسا بوجھ پڑے گا جو ریاست اور اس کے اداروں پر ان کا اعتماد متزلزل کرنے کا باعث بنتا ہے۔ آرمی چیف اس حوالے سے واضح موقف رکھتے ہیں، پاکستان اپنے شہریوں کی سلامتی کے لیے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھے گا، آرمی چیف بارہا یہ واضح کرچکے ہیں کہ ایک پاکستانی کی جان اور مال افغانستان پر مقدم ہے۔افغانستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور ہماری دلی خواہش ہے کہ ہمارے تعلقات بہتر ہوں گے اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ معاشی میدان میں تعاون کریں، تجارت بڑھے اور دیگر شعبوں میں تعاون بڑھایا جائے لیکن حکومت پاکستان کے بار بار کے انتباہات کے باوجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان آج بھی افغانستان سے اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اوریہ لوگ انتہائی سفاکی کامظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان میں بیگناہ لوگوں کو شہید کر رہے ہیں، ظاہر ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک اس طرح کی پالیسی کوقبول نہیں کر سکتا۔وزیراعظم نے افغان حکومت کو ایک سے زیادہ مرتبہ یہ پیغام دیا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن کالعدم ٹی ٹی پی کا مکمل طور پر ناطقہ بند کیا جائے، انہیں کسی طور بھی پاکستان کے بیگناہ لوگوں کو شہید کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ ہمارے لیے ریڈ لائن ہے، کالعدم ٹی ٹی پی کا بدستور افغانستان سے آپریٹ کرنا ہمارے لیے قابل قبول نہیں اور ہم پاکستان کی سالمیت کے تقاضوں کا پوری طرح دفاع کریں گے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ افغان حکومت اس حوالے سے ٹھوس حکمت عمل بنائے، ہم بات چیت اورتعاون کے لیے تیار ہیں مگر ایک طرف ہمیں یہ پیغام ملے کہ ہم تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف کالعدم ٹی ٹی پی کو کھلی چھٹی ہو تو یہ دو عملی نہیں چلے گی، یہ بات ممکن نہیں ہے۔وزیراعظم نے بجاطورپر یہ واضح کیا کہ پوری دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے دل و جان سے کوششیں کیں، افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کا کردار سب سے اہم رہا ہے،پاکستان کئی دہائیوں سے کئی ملین افغان باشندوں کی میزبانی کر رہاہے ۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنے انتباہ میں یہ واضح کردیا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردوں کے خلاف طویل اور مشکل جنگ لڑ رہی ہیں، اس حوالے سے صرف رواں سال کے دوران 59 ہزار 775 آپریشنز کیے گئے، جن کے نتیجے میں 925 دہشت گردوں اور خوارج کو واصل جہنم کیا گیا، سیکڑوں کو گرفتار کیا گیا، ملک بھر میں تمام ادارے یومیہ انسداد دہشت گردی کے اوسطاً 169 آپریشنز کررہے ہیں ، ان کے نتیجے میں دہشتگردی کے کئی منصوبے ناکام بنائے گئے اور گرفتار ملزمان سے غیر ملکی اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا.2024 میں انسداد دہشتگردی کے آپریشنز کے دوران 383 افسران اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، پوری قوم ان بہادر سپوتوں کو خراج عقیدت اور سلام پیش کرتی ہے، جنہوں نے ملک کی سلامتی اور امن کے لیے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، پاک فوج اس عزم کا اظہار ایک سے زیادہ مرتبہ کرچکی ہے کہ یہ جنگ ان شا اللہ آخری دہشتگرد اور خوارج کے خاتمے تک جاری رہے گی۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بتایاکہ پچھلے 2 سال سے عبوری افغان حکومت سے مختلف سطح پر بات چیت اور روابط جاری ہیں اور ہم ان سے ایک ہی بات کررہے ہیں، پاکستان اور افغانستان برادر اسلامی ملک ہیں لہٰذا عبوری افغان حکومت دہشتگردوں اور فتنۃ الخوارج کو پاکستان پر مقدم نہ رکھے۔انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان کے ساتھ بات چیت نہ صرف براہ راست بلکہ دوست ممالک کے ذریعے بالواسطہ بھی جاری ہے اور افغان عبوری حکومت کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کی جانب سے فتنۃ الخوارج کے ساتھ ہونے والی سہولت کاری کو روکا جائے، ہم انہیں کہتے ہیں کہ افغانوں کو دہشت گردوں کے ساتھ شامل ہوکر پاکستان میں دہشت گردی کرنے سے روکا جائے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ افغان خودکش بمباروں کو کنٹرول کیا جائے لیکن مسلسل رابطے کے باوجود افغانستان میں فتنہ الخوارج کے رہنماؤں کے دفاتر، تربیتی مراکز اور رابطے باقاعدگی سے آپریٹ ہوتے رہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ہمارے معصوم شہریوں اور قانون کے رکھوالوں کا خون بہایا جائے ایسی صورت میں یہ خیال کرنا کہ ہم خاموشی سے تماشہ دیکھتے رہیں گے قرین از قیاس نہیں ہوسکتا؟
پاکستان پوری بین الاقوامی برادری کو خبردار کرچکا ہے کہ افغانستان میں کام کرنے والا ‘سب سے بڑا دہشت گرد گروپ’ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) القاعدہ کی ایک شاخ بن کر علاقائی اور عالمی دہشت گردی کے ایجنڈے کے ساتھ ابھر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے قائم مقام مستقل مندوب سفیر عثمان جدون نے عالمی برادری کو واضح الفاظ میں خبردار کیاتھا کہ افغانستان کے اندر اور وہاں سے دہشت گردی ملک، خطے اور دنیا کے لیے سب سے سنگین خطرہ ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں باقاعدہ اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ افغانستان میں کئی دہشت گرد گروپ بروئے عمل ہیں، ان میں سب سے بڑا اور خطرناک گروپ تحریک طالبان ہے جسے افغانستان کی عبوری حکومت کی تائید حاصل ہے۔ افغان حکومت کی پشت پناہی سے یہ گروپ پاکستان میں دہشت گردی کرواتا ہے ۔دراصل حقیقت یہ ہے کہ دہشت گرد عناصر ہمارے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا چاہ رہے ہیں اور اسلام کا نام استعمال کر کے وہ دنیا میں اس پر امن مذہب کی بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ دہشت گردی کی وارداتوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے کیونکہ ان کارروائیوں کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کے بارے میں سن کر ملکی اور غیرملکی سرمایہ کار کاروبار میں اپنا پیسہ لگانے سے کتراتے ہیں، کیونکہ انھیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ان کی لگائی ہوئی رقم ڈوب نہ جائے۔یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ ملک کے دو صوبے، بلوچستان اور خیبر پختونخوا، مسلسل دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ان صوبوں میں دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ پیش نہ آئے۔اگرچہ حکومت اور سیکورٹی فورسز ملک سے فتنہ الخوارج کے مکمل سد باب کے لیے سرگرم عمل ہیں لیکن دہشت گردی کے واقعات کا تسلسل کے ساتھ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے سیکورٹی سسٹم میں ایسے اسقام موجود ہیں جن کا دہشت گرد عناصر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کے ناسور پر قابو پانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر بیٹھ کر پورے سیکورٹی سسٹم کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے تاکہ ان خامیوں کو تلاش کیا جاسکے جن سے تخریب کاروں کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان ہورہا ہے۔ ان خامیوں کو دور کر کے ایک طرف ہم دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے اور دوسری جانب ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کو یہ اعتماد دے سکیں گے کہ پاکستان ایک محفوظ اور مستحکم ملک ہے جہاں سرمایہ کاری سے انھیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اگر ہم ایسا کرنے کے قابل ہوگئے تو پھر ہمیں کسی بھی بین الاقوامی ادارے یا ملک کے آگے قرضے کے لیے جھولی نہیں پھیلانا پڑے گی اور نہ ہی ایسے اقدامات کرنے پڑیں گے جن کی وجہ سے عوام پر ایسا بوجھ پڑے گا جو ریاست اور اس کے اداروں پر ان کا اعتماد متزلزل کرنے کا باعث بنتا ہے۔طالبان حکمرانوں کو بھی یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ آج افغانستان میں طالبان اگر اقتدار میں ہیں تو اس میں پاکستان کا اولین کردار ہے۔ امریکہ جاتے ہوئے ایسی عبوری حکومت بنانا چاہتا تھا جس میں ساری پارٹیوں کی نمائندگی ہو۔ پاکستان نے اس معاملے میں پڑکر طالبان کے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ طالبان اقتدار میں آئے تو بھارت کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے۔ ٹی ٹی پی پہلے ہی بھارتی مقاصد کے لیے کام کر رہی تھی۔ اب اسے طالبان حکومت کی تائید بھی حاصل ہو گئی۔ طالبان نے کئی سال تک برا وقت دیکھا لیکن اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ اب افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں اور تنظیموں کی اس کی طرف سے پشت پناہی کیے جانے پر اسے عالمی سطح پر مسائل کا سامنا ہے۔ اسی لیے دنیا اسے تسلیم بھی نہیں کر رہی۔ افغان حکومت جب تک ٹی ٹی پی اور القاعدہ جیسے دیگر دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی سے باز نہیں آئے گی اس وقت تک نہ تو افغانستان مستحکم ہو سکتا ہے اور نہ ہی دنیا ان کی حکومت کو تسلیم کرے گی۔ گزشتہ دنوں طالبان حکومت کے ایک وزیر بھی دہشت گردی کی زد میں آگئے تھے۔ اس سے انھیں اندازہ ہو جانا چاہیے کہ وہ آگ جو دوسروں کے لیے اس حکومت کی طرف سے بھڑکائی گئی ہے اس کی زد میں یہ خود بھی آچکے ہیں۔ بہتر ہے کہ یہ اپنے ملک کے استحکام اور علاقائی امن کے لیے دہشت گردوں کی پشت پناہی سے ہاتھ اٹھا کر بین الاقوامی برادری کا پر امن حصہ بننے کی کوشش کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔