صفات کا آئینہ
شیئر کریں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مومن کو دوسرے مومن کے لیے آئینہ قرار دیا
ابو جنید
آئینہ ایجاد ہونے سے قبل انسان کے لیے اپنے حسن وجمال یا قبح حال کا اندازہ مشکل ہوتاہوگا۔ شاید اس وقت صرف یہی طریقہ ہوکہ ایک انسان دوسرے انسان کو اس کی اچھائی اور برائی چاہے شکل وصورت کی ہو یا عادات واطوار کی بتاتا ہوگا۔ اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مومن کو دوسرے مومن کے لیے آئینہ قرار دیا کہ۔ اگر کسی مومن میں کوئی خوبی ہے تو دوسرا مومن اس کی حوصلہ افزائی کرے گا اور اگر کوئی عیب ہے تو اس کی نشاندہی کرے گا۔آئینہ کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اس شخص کوجو آئینے کے سامنے کھڑا ہو اس کی خوبی یا عیب سے آگاہ کرتاہے اور عیب یا خوبی کو بڑھاچڑھا کر یا گھٹا کر نہیں بتاتا ۔دوسری خوبی یہ کہ آئینہ کسی ایک کا عیب یا خوبی کسی اور کو نہیں بتاتاصرف اس شخص کو بتاتا ہے جو آئینے کے سامنے کھڑا ہو۔مومن بھی ایسا ہی ہوتاہے اگر کسی دوسرے مومن میں کوئی عیب دیکھتا ہے تو اسی کوآگاہ کرتا ہے اور غرض اصلاح کی ہوتی ہے۔ ایک شخص کا عیب دوسروں میں نہیں پھیلاتا ورنہ تو غیبت کہلاتی ہے جسے قرآن میں مُردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ہم میں سے اکثریت کی عادت بن چکی ہے کہ دوسروں کے صرف عیوب پر نظر رکھتے ہیں بلکہ ٹوہ میں لگے رہتے ہیں اور پھر عیب معلوم ہوتو اسے پھیلانے میں دیر نہیں کرتے اور اس کاجواز یہ پیش کرتے ہیں کہ مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے۔
آئینے میں ایک خوبی یہ ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا اگر اس پر داغ دھبے ہوں تو وہ بھی نہیں چھپاتا اور اگر سامنے کھڑے شخص کے چہرے پر کوئی نشان ہو تو وہ بھی بتاتاہے۔ ہم ایسے آئینے ہیں کہ اپنے ہزاروں داغ دھبے چھپاتے پھرتے ہیں اور دوسروں کے معمولی سے داغ جگہ جگہ دکھاتے پھرتے ہیں اگر کچھ توجہ ہم اپنی ذات کی طرف بھی کردیں اور اپنے عیوب پر بھی نظرڈال لیں اپنی اصلاح کی کوشش کریں تو شاید کہ اصلاح احوال کی صورت بہت بہتر ہوجائے۔ دوسروں کی اصلاح سے قبل اپنی اصلاح کی فکر کریں تو زیادہ بہتر ہو۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم خود کو کچھ صفات کے آئینے میں دیکھ کر پرکھ لیں کہ ہم کیاہیں اور ہمیں کیا ہونا چاہیے۔ صفات کا وہ آئینہ قرآن وحدیث میں موجود ہے ان کو مدنظر رکھ کر ہم میں سے ہر شخص اپنا معائنہ کرے۔ اپنا محاسبہ کرے اور ان صفات کے مطابق اپنی اصلاح کرے پھر اس کے بعد دوسروں کو دعوت دے۔ یہی انبیاء کا طریق تھا۔قرآن وحدیث میں بطور آئینہ یا بطور کسوٹی جو صفات بیان ہوئی ہیں وہ تین قسم کی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی کسی نبی نے اپنی قوم کو دین کی طرف دعوت دی ہے تو اس قوم میں تین گروہ سامنے آئے اور تینوں کی صفات الگ الگ تھیں۔
-1 متبعین، مومنین۔ -2کافر،منکرین۔ -3منافقین۔
ان تینوں قسم کے گروہوں کی صفات قرآن اور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بہت تفصیل سے بیان ہوئی ہیں۔ اور یہ صفات ہمارے لیے معیار، کسوٹی اورآئینہ ہیں۔ ہم ان صفات کو دیکھیں اور پھر خود کو دیکھیں کہ ہم میں کس گروہ کی صفات پائی جاتی ہیں اور کس گروہ کی صفات پائی جانی چاہئیں؟مثلاً
مومنین:ان کی بہت سی صفات قرآن میں مذکور ہیں جن میں سے چند کاتذکرہ کافی ہوگا۔
۱۔ مساجد کی تعمیر،نماز قائم کرنا، زکاۃ کی اد ائیگی اور صرف اللہ کا خوف(سورہ توبہ:۱۸)۲۔ ایک دوسرے کا مال غلط طریقے سے نہ کھانا،قتل نہ کرنا۔(سورہ نسائ:۲۹)۳۔اللہ کی عبادت کرنا،شرک نہ کرنا، والدین،رشتہ دارقریبی اور دور کے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، مسافر اور ماتحت افراد کے ساتھ اچھا رویہ رکھنا، فخراور تکبر کرنا۔(سورہ نسائ:۳۶)۴۔ کسی مسلمان کے بارے میں اچھاگمان رکھنابدگمانی سے گریز کرنا اور مومن مسلما ن کو بے گناہ سمجھنا۔(سورہ نور:۱۲)۵۔ بغیر تحقیق کیے سنی سنائی بات پر یقین نہ کرنا بلکہ اس کو رد کردینا۔(سورہ نور:۱۶)۶۔نظروں اور نیچے رکھنا، اپنی عصمت کی حفاظت کرنا۔ (النور) ۷۔ نماز میں خشوع کرنا، فضول اور لغو باتوں اور کاموں سے اعراض کرنا، زکاۃ اداکرنا، اپنی عصمت کی حفاظت کرنا، صرف اپنے زوج (بیوی ، شوہر) تک محدود رہنا، امانت اور عہد کی پاسداری کرنا، نماز کی پابندی کرنا۔(سورہ مومنون)۸۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ یعنی اپنے والدین ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبت رکھنا۔ (متفق علیہ)۹۔جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلما ن محفوظ رہیں۔(بخاری ومسلم)۱۰۔اللہ راہ میں خرچ کرنے والے۔(آل عمران)
-2 منکرین، کفار کی صفات:
۱۔ اللہ کی راہ سے روکنے والے،اللہ کے دین میں عیوب تلاش کرنے والے، آخرت کے منکر۔(سورہ ھود)۲۔زکاۃ نہ دینے والے، آخرت کے منکر(حم سجدہ)۳۔ قرآن نہ سننے والے۔(حم سجدہ)۴۔ جادو ٹونا کرنے ،کروانے والے۔(البقرہ)۵۔کتاب اللہ کے کچھ حصے کو ماننا کچھ کو نہ ماننا۔(البقرہ)
-3منافقین کی صفات:
۱۔ لوگوںکو د کھانے کے لیے نیک کام کرتے ہیں۔(البقرہ)۲۔نمازوں میں سستی کرنے والے۔(سورہ نسائ)۳۔خرچ کرنے والے مسلمانوں کو دکھلاوے کا طعنہ اور غریب مسلمانوں کو بخیل قرار دینا۔ ہر شخص کے عیوب تلاش کرنا۔(سورہ توبہ)۴۔مسلمانوں میں تفرقہ پیداکرنے کے لیے مسجدیں بنانا جسے مسجد ضرار کہاجاتاہے۔(سورہ توبہ)۵۔ جھوٹی قسمیں کھانا۔(المجادلہ)۶۔شریف زادیوں کو چھیڑنا، تنگ کرنا۔ (احزاب)۷۔کسی کی مدد کرکے احسان جتلانا۔(البقرہ)۸۔وعدہ خلافی کرنا، جھوٹ بولنا،امانت میں خیانت کرنا۔ (مسلم) ۹۔وعدہ خلافی، امانت میں خیانت، بات میں جھوٹ اورگالیاں دینا۔ (متفق علیہ)
یہ مختصراً صفات ہیں تینوں گروہوں کی، مومن، کافر اور منافق کی۔ہم میں سے ہر ایک کافرض بنتاہے کہ یہ صفات دوسروں میں تلاش کرنے کے بجائے اپنے اندر تلاش کریں اور خود کو پرکھیں کہ آیا ہم میں کون سی صفات ہیں؟ اور ہم کس گروہ میں شامل ہونے کے لائق ہیں؟ ہماری یاہمارے معاشرے کی اصلاح اسی لیے نہیں ہوتی کہ ہم ساری توجہ دوسروں پر دیتے ہیں۔ دوسروں کے عیوب پر نظر رکھتے ہیں اور اپنی طرف توجہ نہیں دیتے، گویا ہرشخص مریض ہے مگر اپنا علاج کروانے کے بجائے دوسروں کے علاج کی فکر میں مبتلا ہے اور دوسروں میں ٹٹول ٹٹول کر بیماریاں تلاش کرتا ہے ۔ پھر ان کا چرچاکرتاہے اور اپنی بیماریوں سے چشم پوشی کرتا ہے اسی لیے مریضوں کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہورہاہے۔ قرآن مجید میں اللہ نے فرمایا ہے کہ :ایمان والو !اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچاؤ۔(التحریم)دوسری جگہ فرمایا:
تم دوسروں کو نیک کاموں کا حکم کرتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو۔(البقرہ)
ان آیات میں توجہ دلائی گئی ہے کہ پہلے خود کو پھر اپنے گھر والوں کو سنوارو، سیدھے راستے پر لاؤ، اس طرح ہر شخص اور ہر گھرانے کی اصلاح ہوگی تو پورے معاشرے کی اصلاح ہوجائے گی۔ مگر شرط وہی ہے کہ ہم پہلے اپنے عیوب ونقائص کی طرف توجہ دیں۔ اپنے اندر مومنین کی صفات پیداکریں اور کفارومنافقین کی صفات اگر ہیں تو انہیں دور کریں۔ان صفات کے آئینے میں اپنی صورت دیکھیں اور اپنے عیوب ومحاسن سے آگاہی حاصل کریں۔ اگر ہم میں مومنین کی صفات ہیں تو اللہ کا شکر کریں اور ان صفات پر ہمیشہ قائم رہنے کی کوشش کریں۔اگر ہم میں دوسرے دو گروہوں یا ان میں سے کسی ایک کی صفات ہیں تو ان سے نجات حاصل کریں۔اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسروں کی اصلاح کی کوشش جاری رکھیں۔ صرف دوسروں کو نصیحت اور خود کو بھول جانا یہ قابل مذمت ہے۔ صفات کا یہ آئینہ ہر وقت ہمارے سامنے رہنا چاہیے اور ہمیں ہر وقت اس آئینے میں اپنی صورت دیکھنی چاہیے تاکہ اپنے محاسن اور عیوب سے ہر وقت آگاہ رہیں۔
فرمان الٰھی
منافق کی علامت
الذین یلمزون المطوعین من المؤمنین فی الصدقات والذین لایجدون الا جھدھم فسیخرون منھم سخراللّٰہ منھم ولھم عذاب الیم(توبہ۔۷۹)
ترجمہ:جو مسلما ن دل کھول کر خرچ کرتے ہیں اور جو صرف اتنا کماتے ہیں جتنی مزدوری کرتے ہیں( اور تھوڑی کمائی میں سے خرچ کرتے ہیں) ان پر یہ (منافق)طعن کرتے اور ان پر ہنستے ہیں۔ اللہ ان کو ان کے مذاق کی سزادے گا ان کے لیے تکلیف دہ عذاب ہے۔
تفسیر:
آیت میں کچھ ایسے منافقین کی علامت بتائی گئی ہے جو ہر اچھے کام میں عیب تلاش کرتے ہیں۔ چونکہ منافق خود بخیل ہوتا ہے اس لیے یہ خرچ کرنے والوں پر ہر حال میں تنقید کرتا ہے۔ اگر کوئی مومن مسلمان مالدار ہو اور اللہ کی راہ میں زیادہ خرچ کرتاہو تو یہ منافق اس کو فضول خرچی اور دکھلاوا کہتا ہے۔ اگر کوئی مومن مسلمان غریب ہو اور حسب استطاعت کم خرچ کرتا ہو تو یہ منافق اس کا مذاق اڑاتاہے کہ اتنے سے خرچ کرنے سے کیا فائدہ ہوگا۔ وغیرہ ا س طرح کے افراد کو منافق قرار دیاگیاہے۔ اللہ ہر قسم کے نفاق سے بچائے اور محفوظ رکھے۔ آمین!
فرمان نبویؐ
مومن کی علامت
عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الایمان بضع وسبعون شعبۃ فافضلھا قول لا الہ الا اللہ وادناھا اماطۃ الاذی عن الطریق والحیاء شعبۃ من الایمان(متفق علیہ)
ترجمہ:
ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں،جن میں سب سے افضل شاخ لاالہ الااللہ ہے۔ اور سب سے کم ترشاخ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹاناہے اور حیابھی ایمان کا حصہ ہے۔
تشریح:
ایمان دل میں مخفی ہوتا ہے مگر اس کا اظہار اعمال سے ہوتا ہے اگر یہ اعمال کسی میں پائے جائیں تو یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ اس کے دل میں ایمان ہے۔نمبر۱۔لاالہ الااللہ یعنی توحید کا اقرار اور اس پر استقامت ۔نمبر۲۔راستے سے تکلیف دہ اشیائ، رکاوٹ وغیرہ کو ہٹانا۔ اب تو جو لوگ سب سے زیادہ ایماندار بننے کا دعویٰ کرتے ہیں وہی سب سے زیادہ راستے بند کرتے ہیں۔نمبر۳۔حیا:شرم وحیا، ایمان کی علامت ہے معاشرے میں شرم وحیا کی کمی کا مطلب ہے کہ لوگوں میں ایمان کی کمی ہے یا ایمان ناپید ہے۔ یہ تین علامات دل میں مخفی ایمان کی علامات ہیں اور ان امور کو انجام دینے والا ہی مومن ہے۔
دعا
اللہ کا عذاب اور اس کے غصّہ سے پناہ مانگنے کی دعا
اَللّٰھُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلَاتُھْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَافِنَاقَبْلَ ذٰلِکَ۔
اے اللہ تومت قتل کر ہم کو اپنے غصّہ سے اور نہ ہلاک کر اپنے عذاب سے،اورعافیت دے ہم کو اس سے پہلے۔(ترمذی،نسائی، حاکم)