میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی بے چارگی

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی بے چارگی

جرات ڈیسک
بدھ, ۲۹ مارچ ۲۰۲۳

شیئر کریں

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کھلی وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب عمران خان یا ہم میں سے کوئی ایک بچے گا۔ایک انٹرویو میں رانا ثنااللہ نے کہا کہ عمران خان نے سیاست کو وہاں لاکر کھڑا کردیا ہے کہ اب دونوں میں سے ایک کا وجود ہی باقی رہنا ہے، اس لیے جب ہم سمجھیں گے کہ ہمارے وجود کی نفی ہورہی ہے تو ہم تو ہر اس حد تک جائیں گے، جس میں یہ نہیں سوچا جاتا کہ یہ کام کریں یہ نہ کریں۔ یہ جمہوری ہے، اور یہ غیرجمہوری ہے، یہ اصولی ہے اور یہ غیر اصولی، یہ چیزیں ختم ہوجاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کے ساتھ جتنے لوگ ہیں وہ ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں، انارکی پھیل چکی ہے، عمران خان جس سطح پر معاملات کو لے گئے ہیں اب یا وہ سیاست سے منفی ہوں گے یا ہم ہوجائیں گے۔وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ اب معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن سے بہت آگے جاچکے ہیں۔وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کے بیان سے متعلق تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ خواہش تو یہی ہے دونوں رہیں لیکن اگر وہ کہہ رہے ہیں تو میں یہی کہوں گا کہ وہ نہیں رہیں گے۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے دوران کمرہ عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اگر آج نامعلوم پیچھے ہو جائیں تو یہ حکومت ختم ہو جائے، عمران خان نے کہا کہ سیاستدانوں کے لیے مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں اور جو امپائر کو ساتھ ملا کر کھیلتے رہے ہوں ان کو لیول پلینگ فیلڈ کا کیا پتہ، مذاکرات ہو سکتے ہیں لیکن ون پوائنٹ ایجنڈا ہے کہ الیکشن کروائیں۔ ملک میں رول آف لاختم ہوچکا ہے، اظہر مشوانی کو اغوا کیا گیا ہے اور حسان کی ضمانت ہوئی اسے پھر گرفتار کر لیا گیا۔عدالت سے نکلتے ہوئے صحافی نے سوال کیا کہ نواز شریف اپنے بھائی کی حکومت میں بھی پاکستان نہیں آرہے، کیا کہیں گے؟ عمران خان نے کہا کہ نواز شریف انتظار میں ہیں کہ مجھے نااہل کیا جائے یا قتل کر دیا جائے۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے مبینہ دھمکی آمیزبیان پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی درخواست میں وفاق، آئی جی اسلام آباد اور ایس ایس پی آپریشن کو فریق بنایا گیا۔عمران خان نے موقف دیا ہے کہ رانا ثنا اللہ نے ایک انٹرویو میں ڈائریکٹ دھمکیاں دی ہیں، فریقین کو میری گرفتاری کر کے اپنے منصوبے پر عمل درآمد سے روکا جائے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کے بیان پر غور کیا جائے تواس سے ان کی بیچارگی کا انداہ ہوتاہے اور یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ موجودہ حکومت کو یہ اندازہ ہوگیاہے کہ وہ کھلے میدان میں پی ٹی آئی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔اس لیے وہ اقتدار پر قابض رہنے کے لیے ہر حد عبور کرنے کا تہیہ کرچکی ہے گویاحکومت اورپی ٹی آئی کے درمیان جاری جنگ آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، حکومت نے ریاست کی طاقت کا استعمال شروع کرتے ہوئے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا ہے، ان کی پارٹی کو ایک دہشت گرد تنظیم ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے، سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود الیکشن کمیشن سے 30اپریل کو پنجاب میں عام انتخابات کروانے کیلئے تعاون سے انکارکردیا ہے، بلکہ یوں کہئے کہ الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کی بجائے اپنی لائن پر لگالیا ہے، اور حکومت کی جانب سے یہ تاثر دیاجارہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا طاقتور حصہ اس کی پشت پناہی پر ہے،جبکہ سپریم کورٹ کے 2 ججوں کے فیصلے کے بعد یہ تاثر عام ہورہاہے کہ عدلیہ میں موجود دراڑ جو اس وقت نمایاں ہوئی تھی جب چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے دو معززججوں کے توجہ دلانے پر ازخود نوٹس کی شکل میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90روز میں انتخابات کیلئے عدالتی کاروائی کا آغاز کیا تھا مزید واضح ہو چکی ہے۔ حکومت بظاہر یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ مضبوط قدموں پر کھڑی ہے اور ملک بھر میں ایک ہی وقت پر عام انتخابات کروانے کیلئے اس کے پاس موجود دلائل میں کافی وزن ہے۔ تاہم اس کا تعین تو سپریم کورٹ ہی کرے گی کہ وہ حکومتی دلائل سے قائل ہوتی ہے یا پھر پی ٹی آئی کی درخواست پر اس کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کا آغاز کرتی ہے۔ حکومت کے پاس ایک آپشن یہ بھی ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے درخواست کرے کہ اس معاملے پر عدالت کے تمام ججوں پر مشتمل ایک بینچ تشکیل دیا جائے جو پچھلے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے اجتماعی دانش سے مسئلے کا حل نکالے۔ بات کہیں سے بھی شروع ہو اور کہیں بھی جا کر ختم ہو، یہ بات طے ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال ستمبر میں اپنی سبکدوشی سے قبل یہ تاریخ میں لکھوانا چاہتے ہیں کہ آئین کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے انہوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90کے روز کے اندر انتخابات کو یقینی بنا یا تھا اور اس کے حصول کیلئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر حکومت کیلئے پنجاب میں انتخابات کو اکتوبر تک ٹالنا ٹیڑھی کھیر ثابت ہوسکتا ہے۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ اس کے کارکنوں نے نہ صرف بے جگری سے لڑتے ہوئے اسلام آباد پولیس کو عمران خان کی گرفتاری سے تاحال روکے رکھا ہے بلکہ جس ثابت قدمی سے وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے رہے ہیں، اس سے تحریک انصاف کی دھاک مزید بیٹھ گئی ہے اور امریکہ سمیت دنیا بھر سے اس کے حق میں اٹھنے والی آوازوں نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے۔ گزشتہ اپریل میں جب عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ایوان وزیر اعظم سے چلتا کیا گیا تھاتو پی ٹی آئی کے حامی حلقے کہتے پائے جاتے تھے کہ اگر فوری انتخابات ہوں تو عمران خان مخالف سیاسی جماعتوں پر بازی لے جائیں گے اور اب جبکہ ایک سال بعد اپریل دوبارہ آنے والا ہے تو اب پی ٹی آئی کے مخالف حلقے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اگر فوری انتخابات ہوں تو عمران خان اکثریت سے جیت سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران عمران خان اور ان کے منصوبہ سازوں نے جس انداز سے اپنی عوامی پذیرائی کی مہم کو آگے بڑھایا ہے اس کے نتیجے میں واقعی اقتدار سے باہر ہو کر عمران خان مزید ’خطرے ناک ہوگئے ہیں اور ان کی بڑھتی مقبولیت کے آگے بندھ باندھنا مریم صفدریا بلاول زردارہ کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف کی واپسی سے اس صورت حال میں کتنا بڑا فرق پڑتا ہے کیونکہ عمران خان اور ان کے منصوبہ سازوں نے گزشتہ4 برسوں میں ان کے خلاف چور اور ڈاکو کا جو بیانیہ بنایا ہے، اس کا اثر پی ڈی ایم کی ایک سالہ حکومت کی سرتوڑ کوشش کے باوجود کم نہیں ہواہے، یہ الگ بات کہ اب عمران خان نواز شریف کو بھگوڑا نہیں کہتے اور اس کے بجائے یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ لندن میں بیٹھے ایک شخص کا مطالبہ ہے کہ عمران خان کو گرفتار کیا جائے اور نااہل بھی کیا جائے جس کا ترجمہ مریم صفدر کرتی پائی جاتی ہیں کہ جب تک ترازو کے دونوں پلڑے برابر نہیں ہوں گے، ملک میں عام انتخابات نہیں ہو سکیں گے۔ دیکھا جائے تو اپنی شخصیت کے سحر کے باوجود عمران خان ایک کمزور وکٹ پر کھڑے ہیں کیونکہ ان کے خلاف ملک کی 10 جماعتیں ہی نہیں بلکہ حکومت کے پھیلائے گئے غلط یا صحیح تاثر کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کا ایک بڑا حصہ بھی ہو چکا ہے اور جہاں جہاں سے انہیں حمایت اور انصاف ملنے کی توقع تھی، وہاں وہاں پر پی ڈی ایم نے بڑے بڑے جال پھینک دیے ہیں اس لیے ان کے لیے کھلے بندوں تحریک انصاف کے لیے انصاف کی بات کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ البتہ پی ٹی آئی کے پاس عوامی حمایت کا ایک پتہ ایسا ہے جس کو عمران خان اگر بھرپور طریقے سے پھینکنے میں کامیاب ہو گئے تو حکومت کو الٹے قدموں پر دوڑنا پڑے گا۔ گویا کہ موجودہ پھنسی ہوئی صورت حال میں اصل فیصلہ عوام کو کرنا ہے اور تاریخ کا سبق ہے کہ عوام کی اجتماعی دانش کبھی بھی غلط فیصلہ نہیں کرتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں