میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سندھ حکومت نے آئی جی پولیس کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کر لیا؟

سندھ حکومت نے آئی جی پولیس کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کر لیا؟

منتظم
اتوار, ۲۹ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

٭صوبائی حکومت اے ڈی خواجہ کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں،انور مجید اپنے منفعت بخش کاموں کے لیے مرضی کا آئی جی چاہتے ہیں
٭15فروری تک عدالتی حکم امتناع کے ختم ہونے کا انتظار،اچھے افسران کی تعیناتیاں مشکل ہونے لگیں، صرف کماو¿ پوت کو ترجیح ملنے لگی
عقیل احمد راجپوت
یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ سندھ حکومت کا اصول پسندی‘ ایمانداری‘ صاف ستھری شہرت اور مثبت مقبولیت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیںرہا ہے ۔پیپلزپارٹی کو اب صرف ان لوگوں کی ضرورت ہے جو پیسے بنانے کی مشین ہو اور پست سے پست کام میں بھی کوئی پشیمانی محسوس نہ کریں۔ آصف علی زرداری نے پارٹی کو ڈرائنگ روم کی حد تک محدود کردیا ہے اور اب یہ راز بھی نہیں رہا کہ آصف زرداری نے وزیراعظم نوازشریف کو مکمل یقین دہانی کرادی ہے کہ وہ جو چاہے کرےں مگر ہمیں حکومت سندھ میں اپنی ”مرضی“ کرنے دیں ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بات نوازشریف کے لیے بھی من پسند ہے کہ عوامی مقبولیت رکھنے والی پارٹی اپنے تجربہ کار رہنماﺅں اورسیاسی کارکنوں کی کھیپ کے باوجود اگر وفاقی حکومت کے لیے مسئلہ پیدا نہیں کررہی تو پھر بھلا پی پی کی صوبائی حکومت کو کیوں تنگ کیا جائے؟ نوازشریف تاجر ہیں اور وہ گھاٹے کا سودا نہیں کرتے‘ پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی اس ”اوپن سیکرٹ“ کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہوگا کہ ساڑھے تین سالوں میں وفاقی حکومت نے ایک بھی پی پی رہنما کے خلاف کرپشن کا ریفرنس دائر نہیں کیا اور چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ پیر مظہر کو نیب نے2010ءسے 2013ءتک 15ہزار اساتذہ بھرتی کرنے کے ریفرنس سے کلیئر کردیا ہے۔
تعلیم کے میدان میں پندرہ ہزار اساتذہ کی بھرتیوں کا معاملہ اب کوئی راز نہیں رہا کہ یہ تمام بھرتیاں ”لین دین “ کی شکل میں ایک منڈی لگا کر ہوئی تھی۔ پی پی کے اندرونی ذرائع کے مطابق اس لین دین کی ساری تفصیلات سے آصف علی زرداری پوری طرح آگاہ تھے اسی لیے ج2013ءکے عام انتخابات میں اُنہوں نے پیر مظہر سے چار ارب روپے مانگ لیے تھے‘ پیر مظہر اتنی رقم دینے سے پہلو تہی کرنے لگے تو آصف زرداری نے ان کو ٹکٹ تک نہ دیا اور نیب نے پیر مظہر کو کلیئر قرار دیکر میرٹ کا جنازہ نکال دیا ہے۔ پی پی کی موجودہ حکومت میں ڈاکٹر جمیل میندھرو جیسے بدنام زمانہ کرپٹ افسران کی ضرورت ہے جن کو سیکریٹری ہونے کے باوجود اپنے دفتر سے گرفتار کیاگیا اور پھر جب وہ چار ماہ بعدجیل سے واپس آئے تو انہیں دوبارہ اسی عہدے پر بٹھادیاگیا۔ پھر محکمہ آبپاشی کے چیف انجینئر احمد جنید میمن کو نیب نے کراچی اور حیدرآباد کے درمیان گرفتار کیا وہ بھی ساڑھے تین ماہ تک جیل میں رہے اور جب باہر نکلے تو انہیںفوراً ہی سیکریٹری آبپاشی کے عہدے سے نواز دیاگیا۔ اس طرح محکمہ اطلاعات کے ایک درجن افسران کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر ہوا‘ کرپشن کے سرپرست سیکریٹری اطلاعات ذوالفقار شالوانی کو عہدے سے ہٹانے کے بعد دوبارہ سیکریٹری اطلاعات لگادیاگیاتھا مگر بلاول بھٹو زرداری کی مداخلت پر عہدہ واپس لے لیا گیاتاہم آج بھی وہ حکومت سندھ میں او ایس ڈی بن کر حکمرانوں کوکرپشن کے مفید مشورے دے رہے ہیں ۔اور تو اور موجودہ وزیراعلیٰ کے بہنوئی سیدآصف حیدر شاہ اور سابق وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کی بیٹی ناہید شاہ اور داماد اقبال حسین درانی کو محض اسی وجہ سے اچھی پوسٹنگ نہیں ملتی کیونکہ ان کی شہرت اچھی ہے اور وہ اوپر کی قیادت کے لیے کماو¿ پوت ثابت نہیں ہورہے۔
یہی صورتحال پولیس کی ہے۔2008ءکے الیکشن کے بعد بننے والی حکومت میں سندھ پولیس میرمرتضیٰ بھٹو قتل کیس کے ملزم اورسابق ایس پی شعیب قریشی کے ہاتھ میں تھی جس نے کرپشن کے نت نئے رجحانات متعارف کرائے اور2013ءکے الیکشن کے بعد بننے والی حکومت سندھ میں سندھ پولیس کے معاملات پہلے اویس مظفرٹپی کے ہاتھ میں دیے گئے اور جب اویس مظفرٹپی سے آصف زرداری ناراض ہوئے تو پھر سندھ پولیس انور مجید کے حوالے کردی گئی جس نے راﺅ انور‘پیرفرید خان سرہندی‘ ڈاکٹر فاروق ‘ غلام حیدرجمالی‘ فداحسین شاہ‘ فیصل شبیر میمن‘ فرخ لنجار‘ اظفرمہیس اور سردار عبدالمجید دستی جیسےے پولیس افسران پال لیے ہیں جو سارا دن زمینوں پر قبضے کرتے ہیں،سیاسی مخالفین پر مقدمات کرتے ہیں۔ شوگر ملز پر قبضے کرکے ملز مالکان کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی شوگر ملزانور مجیدکو فروخت کریں۔ اس کے بدلے ان پولیس افسران کو زمینوں پر قبضے کرنے‘ ریتی بجری کا کاروبار چلانے جیسے کاموں کی اجازت دے دی گئی ہے ،یوں انور مجید کی”20انگلیاں “گھی میں اور سرکڑھائی میں ہے۔
ایسی صورتحال میں اچھی ساکھ اور صاف ستھری شہرت رکھنے والے اے ڈی خواجہ کا بھلا کیا کام کہ وہ اصول پسندی اور انصاف پسندی بھی دکھائے اور انور مجید کا کہنا بھی نہ مانے؟ انور مجید اس وقت حکومت سندھ میں اختیار واقتدار کا مرکز بن چکے ہیں، ان کو للکارنا وزیراعلیٰ سندھ کے بھی بس کی بات نہیں ہے۔ اے ڈی خواجہ نے جب جی حضوری سے انکار کیا اورکمدار بننے سے معذرت کی تو انور مجید کسی فلمی ولن کی طرح پاگل ہوگئے، آسمان سر پر اٹھادیا اور اپنے آقا آصف زرداری کو دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ جناب ہماری دھوکے کی دیوار آئی جی سندھ پولیس گرانا چاہتے ہیں اگر وہ زیادہ عرصہ تک اسی عہدے پر رہے تو پھر ہمارے لیے جیلوں کے دروازے کھل جائیں گے اور شوگر ملز کی تعدادبڑھنے کے بجائے کم ہوجائے گی ،مہربانی کرکے ان کو ہٹادیں ورنہ پھر میں گھر چلا جاتا ہوں۔ آصف زرداری نے آﺅدیکھا نہ تاﺅ ،فوری طور پر آئی جی سندھ کو جبری چھٹی پر بھیج دیا اور پھر انور مجیدنے غلام حیدر جمالی اور سردار عبدالمجید دستی میں سے کسی ایک کو آئی جی سندھ پولیس لگانے کی گزارش کردی۔ مگر وفاقی حکومت خصوصاً وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے آئی جی کو تبدیل کرنے سے انکار کردیا ۔اس کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے 15فروری تک حکم امتناعی جاری کردیا کہ آئی جی سندھ پولیس کو نہ ہٹایا جائے۔
مگر اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کو مکمل طور پر بے اختیار کردیاگیا ہے۔ راﺅ انوار اور فرخ لنجارکی تعیناتی کے بعد آئی جی سندھ پولیس بے بس بن گئے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ حکومت سندھ نے آئی جی سندھ پولیس کو پابند بنایا ہے کہ وہ کسی کا تقرر یا تبادلہ نہ کریں بلکہ پیشگی منظوری وزیراعلیٰ سے لیں جس کے بعد اب15فروری کا انتظار کیا جارہا ہے ، اس کے بعد حکومت سندھ آئی جی کی تبدیلی کے لیے وفاقی حکومت سے دنگل کے لیے تیاری کررہی ہے مگر ہوسکتا ہے کہ آئی جی خود ہی اپنا عہدہ چھوڑدیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں