میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
40لاکھ نوجوان بے روزگار 24 لاکھ زیر تعلیم نوجوانوں کامستقبل بھی سوالیہ نشان

40لاکھ نوجوان بے روزگار 24 لاکھ زیر تعلیم نوجوانوں کامستقبل بھی سوالیہ نشان

منتظم
بدھ, ۱۹ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ان میں کم وبیش 20 فیصد گریجویٹ یا ماسٹر ڈگری رکھنے والے نوجوان شامل ہیں۔ ہر پانچواں تعلیم یافتہ نوجوان بیروزگاری کاعذاب جھیلنے پر مجبور ہے
ملازمت کے متلاشی لوگوں کی بڑی تعداد نے مایوس ہوکر ملازمت کی تلاش ہی ترک کردی ہے،ایسے لوگ جرائم اور دہشت گردی کی جانب بھی مائل ہوسکتے ہیں
حیات نقوی
پاکستان کے اعدادوشمار سے متعلق بیور و نے گزشتہ دنوں ملک میں دستیاب لیبر فورس کے بارے میں اعدادوشمار شائع کیے ہیں ، شماریات بیورو یہ کام بڑی باقاعدگی سے ہر سال انجام دیتاہے اور اب تک اس حوالے سے اس کی کم وبیش33 رپورٹیں شائع ہوچکی ہیں ، ان سروے رپورٹوں سے ملک کے پالیسی سازوں اور ہمارے حکمرانوں میں ملک میں دستیاب لیبر فورس اور ان کو حاصل ملازمتوں کے مواقع کے حقائق جاننے کا موقع ملتاہے اور انھیں ملک میں بیروزگاری کی شرح کابھی اندازہ ہوجاتاہے۔
بیورو شماریات نے 2014-15 کی جو سروے رپورٹ جاری کی ہے وہ نمونے کے طورپر ملک کے مختلف حصوں کے 42 ہزار108گھرانوں سے حاصل کی گئی معلومات کی بنیاد پر نکالے گئے اوسط کی شرح سے مرتب کیے گئے ہیں۔
شماریات بیورو کی رپورٹ کے مطابق ملک کی لیبر فورس میں 2012-13 اور 2014-15 کے دوران مجموعی طورپر اوسطاً ساڑھے 6لاکھ نفوس کااضافہ ہواجبکہ 2007-08 اور 2012-13 کے دوران لیبر فورس میں شامل ہونے والے نفوس کی تعداد 13 لاکھ تھی اس سے ظاہرہوا کہ گزشتہ برسوں کے دوران لیبر مارکیٹ کی حالت بد سے بدتر ہوئی ہے اور بیروزگاری کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ان اعدادوشمار سے حکومت کی جانب سے گزشتہ دوسال کی حکمرانی کے دوران ملک میں نمایاں معاشی ترقی کے دعووں کی حقیقت پر بھی سوال اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔اس حوالے سے سب سے زیادہ ہولناک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ ملازمت کے متلاشی لوگوں کی بڑی تعداد نے ملازمت کے حصول کیلیے برسوں دھکے کھانے اور ناکامی کامنہ دیکھنے کے بعد مایوس ہوکر ملازمت کی تلاش کا سلسلہ ہی ترک کردیا ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق اس وقت کم وبیش 6 کروڑ 20 لاکھ افراد ملک کی لیبر فورس میں شامل ہیں اور اس حوالے سے ایک دل خوشکن بات یہ ہے کہ ملک کی لیبر فورس میں شامل ہونے والوں میں15 سے34 سال عمر کے نوجوانوں کی اکثریت ہے اوران کاتناسب اب 50 فیصد سے تجاوز کرچکاہے، تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق ملک کی موجودہ لیبر فورس میں مردوں کی شرح 76 فیصد اورخواتین کی شرح 24 فیصد ہے،اس لیبر فورس میں 70 فیصد ورکرز کاتعلق دیہی اور30فیصد کاشہری علاقوں سے ہے۔
بیوروشماریات کی رپورٹ کے مطابق 2007-08 اور2012-13 کے دوران ملک میں مجموعی طورپر سالانہ ملازمتوں کے 11 لاکھ مواقع پیداہوئے یعنی اس مدت کے دوران ہر سال 11 لاکھ افراد کو نئی ملازمتوں کے حصول کاموقع ملا جبکہ2013-14 اور2014-15 کے دوران نئی ملازمتوں کے سالانہ صرف 7 لاکھ 5 ہزار مواقع پیداہوئے اور یہ مواقع بھی غیر رسمی اور غیرروایتی شعبوں میں پیدا ہوئے جہاں حالات کار انتہائی خراب اور نامساعد ہوتے ہیں۔
ملازمتو ں کے مواقع میں اس کمی کے مختلف اسباب بیان کیے جاتے ہیں ان میں سرفہرست ملک کی برآمدات اور خاص طورپر ٹیکسٹائل اور ایس ایم ایز کے شعبے میں ہونے والی بتدریج کمی ، دوسرے ترقیاتی اخراجات میں نمایاں کمی کی وجہ سے تعمیراتی سرگرمیوں میں پیداہونے والا ٹہراﺅ،تیسرے سرکاری اداروں کے خسارے میں جانے اور شہریوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے شعبوں میں عدم توسیع کی وجہ سے سرکاری شعبوں میں نئی ملازمتوں کے مواقع کاسلسلہ کم وبیش بند ہوجانا ہے ۔ مثال کے طورپر اعدادوشمار سے ظاہرہوتاہے کہ ملک میں تدریسی شعبے میں اساتذہ کی ملازمتوں کے مواقع میں سالانہ صرف ایک فیصد کا اضافہ نظر آتاہے۔اس طرح اگرچہ شماریات بیورو کے اندازوں کے مطابق ملک میں بیروزگاری کی شرح صرف 6 فیصد بتائی گئی ہے جبکہ درحقیقت یہ شرح 8 فیصد سے بھی زیادہ ہے کیونکہ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیاہے کہ بڑی تعداد میں لوگوں نے ملازمتوں کے حصول کی کوششوں میں ناکامی کے بعد ملازمتوں کی کوششیں ہی ترک کردی ہیں اور خاموشی سے بیروزگاری کا غم جھیل رہے ہیں۔اعدادوشمار سے ظاہر ہوتاہے کہ دیہی علاقوں میں بیروزگاری کی شرح شہروں کے مقابلے میں کم ہے ،کیونکہ شہروں میں بیروزگاری کی شرح11فیصد اور دیہی علاقوں میں 7 فیصدریکارڈ کی گئی ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق اس وقت ملک میں کم وبیش24 لاکھ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ملازمتوں کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں،اور انھیں حصول تعلیم کے بعد اپنا مستقبل تاریک نظر آتاہے۔اس وقت بڑھتی ہوئی بیروزگاری کا ایک پریشان کن پہلو یہ ہے کہ ملک میں موجود بیروزگاروں میں کم وبیش 20 فیصد گریجویٹ یا ماسٹر ڈگری رکھنے والے نوجوان شامل ہیں۔اعدادوشمار سے ظاہرہوتاہے کہ ہمارے ملک کا ہر پانچواں تعلیم یافتہ نوجوان بیروزگاری کاعذاب جھیلنے پر مجبور ہے۔جبکہ 10 سال قبل تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بیروزگاری کی شرح صرف 5 فیصد تھی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران ملک میں اعلیٰ تعلیم کے نجی اداروں کی تعداد میں 12 فیصد تک اضافہ ہوا لیکن حکومت ان اداروں سے تعلیم حاصل کرکے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق ملازمتوں کی فراہمی کیلیے مناسب منصوبہ بندی کرنے میں ناکام رہی۔
بیروزگاری کے حوالے سے سب سے زیادہ پریشان کن پہلو یہ ہے کہ اس وقت ملک میں 15سے29 سال عمر کے کم وبیش40لاکھ تعلیم یافتہ افراد بیکار پڑے ہوئے ہیں یہ نوجوان اب نہ تو مزید تعلیم حاصل کرنے پر توجہ دینے کو تیار ہیں اور نہ ہی ملازمت کی تلاش کیلیے باہر نکلتے ہیں۔یہ نوجوان اس اعتبار سے زیادہ خطرناک ہیں کہ انھیں کوئی بھی انتہاپسندی یاجرائم کی دنیا میں قدم رکھنے کی ترغیب دے کر انھیں جرائم اور دہشت گردی کی دلدل میں بآسانی پھنسا سکتا ہے۔ اس حوالے سے یہ امر بھی غابل غورہے کہ حکومت کی جانب سے نوجوانوں کوروزگار کی فراہمی کیلیے شروع کیاجانے والا یوتھ امپلائمنٹ پروگرام بھی مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں بوجوہ ناکام ثابت ہواہے۔
حکومت کوملک کے نوجوانوں اور خاص طورپر تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بیروزگاری کی اس صورتحال سے نمٹنے اور نوجوانوں کوان کی صلاحیتوں کے مطابق روزگار کی فراہمی یقینی بنانے کیلیے حکمت عملی تیار کرنا چاہیے ،ا س حوالے سے ملک اور خاص طورپر شہروں اور دیہات کے پسماندہ علاقوں میں پیشہ ورانہ تعلیم اور ہنر سکھانے کے ایسے ادارے قائم کرنے چاہئیں جہاں نوجوانوں کو بلامعاوضہ اور بلاکسی تفریق اور سفارش کے مختلف ہنر سیکھنے کے مواقع مل سکیں اور نوجوان صرف تعلیمی ڈگریوں پر انحصار کرنے کے بجائے ایسے ہنر بھی سیکھ لیں جن کے ذریعے روزگار کا حصول نسبتاً آسان ہوجاتاہے یا جن کے ذریعے وہ ”خود روزگاری“ کے اصول کے تحت اپنا کام شروع کرسکتے ہوں۔اس حوالے سے حکومت بڑی پیداواری صنعتوں کو ایسے ہنر مند نوجوانوں کو اپنا کام شروع کرنے میں مدد دینے پر اس طرح آمادہ کرسکتی ہے کہ یہ صنعتیں ہنر مند نوجوانوں کو اپنی ضرورت کے پرزہ جات تیار کرنے کیلیے چھوٹے چھوٹے کم لاگت کے یونٹ لگانے کیلیے سرمایہ یاضروری مشینری فراہم کریںجن کی مالیت عموماً چند ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہوتی اور پھر اپنی ضرورت کے پرزہ جات ان سے خرید کر آسان اقساط میں اپنا فراہم کردہ سرمایہ واپس حاصل کرلیں اس طرح ہنر مند نوجوانوں کو ملازمت کے حصول کیلیے دھکے کھانے سے بھی نجات مل جائے گی اور متعلقہ صنعتوں کو اپنی ضرورت کے پرزہ جات اور دوسری اشیا بآسانی حاصل ہوسکیں گی ، اس کیلیے حکومت کو اپنی جانب سے کسی فنڈنگ کی ضرورت بھی نہیں ہوگی اور نوجوانوں کو بینکوں سے قرضوں کے حصول کیلیے سفارشوں کی تلاش میں سرگرداں ہونے کاعذاب بھی برداشت نہیں کرنا ہوگا۔اس طریقہ کار پر عمل کی صورت میں نہ صرف یہ کہ ملک میں نوجوان پیشہ ورانہ تربیت اور ہنر سیکھنے کی جانب راغب ہوکر خود اپنا روزگار حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں گے بلکہ وہ اپنے ساتھ علاقے کے درجنوں بیروزگاروں کوبھی ان کی صلاحیت اور محنت کے اعتبار سے روزگار فراہم کرسکیں گے۔
امید کی جاتی ہے کہ ارباب اختیار اس حوالے سے کوئی قابل عمل پالیسی تیار کرنے اور ملک کے بیروزگار خاص طورپر تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوانوں کو بہتر روزگار کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے اور اس طرح نوجوانوں میں پائی جانے والی مایوسی کاخاتمہ کریں گے جو ملک کی سلامتی اور یکجہتی کیلیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں