میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سرغنہ کی ہلاکت پر روسی ملیشیا کا وجود خطرے میں

سرغنہ کی ہلاکت پر روسی ملیشیا کا وجود خطرے میں

جرات ڈیسک
پیر, ۲۸ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

سرگائی کروشوف

٭ باسٹھ سالہ پریگوژن نے 23 اور 24 جون کو روسی اعلیٰ فوجی حکام کے خلاف بغاوت کی قیادت کی تھی جس پر صدرپوٹن کا کہنا تھا کہ اس سے روس خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ سکتا تھا
٭ روسی ملیشیا سربراہ کی ہلاکت کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے الزام عائد کیا ہے کہ اس طیارہ حادثے میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کا ہاتھ ہو سکتا ہے
٭پریگوژن روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو اور چیف آف جنرل اسٹاف ویلری گیراسیموف کی یوکرین پالیسی کے مخالف رہے اور اُن پر واگنر گروپ کے خلاف مسلح تصادم میں حصہ لینے کا الزام لگایا
٭ روسی ملیشیا گروپ ویگنر، امریکی ملیشیا گروپ بلیک واٹر کی طرح سفاک، قاتل اور عالمی تنازعات میں جنگجو منتقم ہے لیکن اپنے سربراہ کی ہلاکت کے بعد اِسے بطور ملیشیا قائم رکھنا ناممکن لگتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طاقت ور اور سفاک روسی ملیشیا کے سرغنہ پریگوژن کی طیارہ حادثہ میں پر اسرار ہلاکت کو امریکا کیلئے دھچکا اور یوکرین جنگ میں روسی برتری قرار دیا جارہا ہے، روسی ملیشیا سربراہ پریگوژن کی ہلاکت کے بعد ٹیلی گرام چینل نے ملیشیا کے سربراہ یوگینی پریگوژن کی طیارہ حادثے میں ہلاکت کی تصدیق کردی ہے کہ ماسکو کے شمال میں واقع علاقے تفیر میں ایک نجی طیارہ گر کر تباہ ہوگیا ہے۔ اس میں سوار مسافروں میں کرائے کی ملیشیا واگنر کے سربراہ یوگینی پریگوژن کا نام بھی شامل تھا۔واگنرگرے زون سے وابستہ ٹیلی گرام چینل نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی وزارتِ دفاع کی فضائی دفاعی فورسز نے پریگوژن کے طیارے کو مارگرایا ہے جس میں عملہ کے تین ارکان سمیت 10 افراد سوار تھے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس میں سوار تمام افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

یاد رہے کہ باسٹھ سالہ پریگوژن نے 23 اور 24 جون کو روس کے اعلیٰ فوجی حکام کے خلاف بغاوت کی قیادت کی تھی جس کے بارے میں صدر ولادی میرپوتین کا کہنا تھا کہ اس سے روس خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ سکتا تھا۔اس بغاوت کو مذاکرات اور بظاہر کریملن معاہدے کے ذریعے ختم کیا گیا تھا۔اس کے تحت پریگوژن نے ہمسایہ ملک بیلاروس منتقل ہونے پر اتفاق کیا تھا۔ لیکن معاہدے کے بعد وہ روس کے اندر آزادانہ نقل و حرکت کرتے دکھائی دے رہے تھے، اگر چہ کہ امریکا پریگوژن کی بغاوت پر بہت خوش تھا اور ان کی روسی افواج سے بغاوت کو یوکرین جنگ میں فتح کے ایک نئے باب کے بطور دیکھ رہا تھا لیکن اب پریگوژن کی طیارہ حادثہ میں ہلاکت پر واشنگٹن کافی پریشان دکھائی دیتا ہے کیوں کہ امریکی آشیرباد کے بعد مغربی ممالک نے موجود امریکی ساختہ فالکن جیٹ یعنی ایف سولہ طیاروں کو یوکرین بھیجنے کی منظوری دیدی تھی جس کے بعد امریکی و مغربی فورسز کو یقین تھا کہ وہ روسی افواج کو یوکرین میں شکست دے دینگے لیکن روسی باغی ملیشیا کے سربراہ کی اچانک طیارہ حادثہ میں ہلاکت نے سارا گیم تلپٹ کردیا ہے۔ روسی ملیشیا سربراہ کی ہلاکت کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے نے الزام عائد کیا ہے کہ اس طیارہ حادثے میں روس کے ولادیمیر پوتن کا ہاتھ ہو سکتا ہے جس میں ویگنر بغاوت کے سربراہ یوگینی پریگوثن انجام تک جا پہنچے ہیں۔ عالمی و امریکی نامہ نگاروں سے کی جانیوالی گفتگو میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ روس میں ہونے والی کئی باتیں ایسی نہیں ہیں جس میں پوتین کا ہاتھ نہ ہو۔ لیکن اس کا جواب جاننے کے لیے مجھے کام کرنا پڑے گا۔

وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے کہا۔ ہم نے رپورٹیں دیکھی ہیں۔ اگر ان کی تصدیق ہو جاتی ہے تو کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے کہ پریگوژن کی ہلاکت میں روسی فضائیہ کے دفاعی یونٹس کا ہاتھ ہے، یاد رہے کہ پریگوژن ملیشیا کے سینئر ساتھیوں کا الزام ہے کہ ویگنر ملیشیا کے سربراہ کو لے جانیوالے طیارے کو روسی مسلح افواج کے خصوصی یونٹ نے میزائل مار کر گرایا ہے۔پریگوژن روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو اور چیف آف جنرل اسٹاف ویلری گیراسیموف کی یوکرین میں جنگی حکمت ِعملی کے مخالف رہے ہیں۔انھوں نے گزشتہ پیر کو اپنا ایک ویڈیو خطاب پوسٹ کیا تھا۔اس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اسے افریقا میں فلمایا گیا تھا۔ روسی و مغربی میڈیائی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ طیارے حادثہ میں ویگنر ملیشیا کے سربراہ پریگوژن کے معتمد اور ان کی انتظامی و عسکری کارروائیوں کے سکریٹری دمیتری یوتکن بھی اس حادثہ میں ہلاک ہوئے ہیں۔ جرمن میڈیائی صحافی جوری ریشیتو کا کہنا تھا کہ،ہو سکتا ہے کہ یہ حادثہ کوئی المناک حادثہ نہ ہو۔ وہ کریملن کے لیے کافی اہم بن گئے تھے۔ وہ اتنے طاقتور ہو گئے تھے کہ ناقابل برداشت بن گئے تھے اور انہوں نے یوکرین میں جنگ کے حوالے سے عوامی سطح پر اور بلند آواز میں شبہات کا اظہار کرنے کی جرأت کی تھی اور ان کی موت کی بنیادی وجہ بھی پیوٹن کو چیلنج کرنا ہو لیکن کوئی بات حتمی طور پر نہیں کی جاسکتی کیوں کہ پیوٹن نے ان کو معاف کردیا تھا اور روس میں داخلہ اور آزادانہ سفر کی اجازت دیدی تھی۔
جرأت کے قارئین کی دلچسپی کیلئے یاد دلاتے چلیں کہ روسی ملیشیا گروپ ویگنر، امریکا کے ملیشیا گروپ بلیک واٹر کی طرح سفاک، قاتل اور بین الاقوامی تنازعات میں جنگجو منتقم تنظیم ہے لیکن اب کہا جارہا ہے کہ اپنے سربراہ کی ہلاکت کے بعد ویگنر گروپ کا بطور ملیشیا وجود قائم رکھنا ناممکن ہوجائے گا۔ یاد رہے کہ امریکا کی نجی پرائیوٹ ملیشیا بلیک واٹر نے لیبیا، افریقا، شام، عراق، یمن اور افغانستان سمیت پاکستان میں قاتلانہ کارروائیوں میں حصہ لیا ہے لیکن روسی ملیشیا نے لیبیا، شام اور افریقا کے بعد چیچنیا اور یوکرین میں اپنی قاتلانہ کارروائیوں میں حصہ ڈالا ہے۔ کئی سینئر روسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ ویگنر سرغنہ پریگوژن کی ہلاکت روسی صدر اور اشرافیہ کو چیلنج کرنے کا نتیجہ ہے۔ ویگنر فورسز یوکرین پر روسی حملے میں شامل تھیں، جس نے باخموت کی جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
لیکن اس نجی فوجی گروپ اور سرکاری روسی فوج کے درمیان تنازعات اس وقت بڑھ گئے جب پریگوژن نے اپنی فوج کو یوکرین سے نکالنے اور ماسکو کی جانب مارچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کارروائی کے دوران واگنر نے روستوف آن ڈان نامی ایک اہم شہر کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔اس سے چند ماہ قبل ہی 62 سالہ پریگوژن نے روس کی فوجی قیادت کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ انہوں نے بالخصوص وزیر دفاع سرگئی شوئیگو اور چیف آف اسٹاف ویلیری گیراسیموف پر زبانی حملے کیے تھے۔ انہوں نے اپنی فوج کے لیے رسد کی کمی کی شکایت کی تھی اور یہ الزام بھی لگایا کہ روسی فوج نے واگنر گروپ سے مسلح تصادم میں حصہ لیا تھا جس پر پریگوژن ناراض تھے لیکن امریکا خوش۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں