میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آرمی چیف کو تاحیات توسیع کی پیش کش کی گئی،ڈی جی آئی ایس آئی

آرمی چیف کو تاحیات توسیع کی پیش کش کی گئی،ڈی جی آئی ایس آئی

جرات ڈیسک
جمعرات, ۲۷ اکتوبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

ڈائریکٹرجنرل انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا ہے کہ آرمی چیف کو تاحیات توسیع کی پیش کش کی گئی، آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو آج بھی ان سے چھپ کر کیوں ملتے ہیں؟ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کے ہمراہ ایک غیر روایتی اور غیر معمولی پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ مجھے احساس ہے کہ آپ سب مجھے اپنے درمیان دیکھ کر حیران ہیں، میں آپ سب کی حیرانی کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں، میری ذاتی تصاویر اور تشہیر پر میری پالیسی ایک سال سے واضح ہے جس پر میں اور میری ایجنسی سختی سے پابند ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا منصب اور میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ مجھے اور میری ایجنسی کو پس منظر میں رہنا ہے، لیکن آج کا دن کچھ مختلف ہے، آج میں اپنی ذات کے لیے نہیں اپنے ادارے کے لیے آیا ہوں، جس کے جوان دن رات اس وطن کی خاطر اپنے جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں، پوری دنیا میں پاکستان کی دفاع کا ہراول دستہ بن کر کام کرتے ہیں۔ آپ کسی کو میر جعفر میر صادق کہیں جبکہ کوئی شواہد نہ ہوں، بالکل 100 فی صد جھوٹ پر مبنی بیانیہ بنایا گیا۔ میر جعفر، میر صادق، غدار، نیوٹرل، جانور کہا گیا۔ یہ سب الزامات اس لیے ہیں کہ آرمی چیف اور ادارے نے غیر آئینی کام کرنے سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اتنی روانی سے جھوٹ بولاجائے کہ فتنہ فساد کا خطرہ ہو تو چپ رہنا ٹھیک نہیں۔ میرے سینے میں بہت سی امانتیں ہیں جو سینے میں رکھ کر قبر میں چلا جاؤں گا۔ میرے ادارے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو میں خاموش نہیں رہ سکتا۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ آپ نے دیکھا کہ لسبیلا میں ہمارے جوان اس مٹی کی خاطر شہید ہوئے لیکن ان کا بھی مذاق بنایا گیا، اس لیے میر جعفر، میر صادق اور غدار جیسے القابات کے پس منظر سے متعلق آپ کے پہلے سوال کا میں جواب دے دیتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ جھوٹے بیانیے سے لوگوں کو گمراہ کیا گیا، سائفر اور ارشد شریف کی وفات کے حوالے سے حقائق پر پہنچنا بہت ضرری ہے تاہم آئی ایس آئی کو سائفر سے متعلق کسی سازش کے شواہد نہیں ملے۔ سائفر کا بہانہ بنا کر افواج کی تضحیک کی گئی اور پاکستان کے اداروں، بالخصوص فوج کو سازش کا حصہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ سیاستدان مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں۔ پروپیگنڈے کے باوجود آرمی چیف نے نہایت تحمل کا مظاہرہ کیا جبکہ 27 مارچ کو جلسے میں کاغذ کا ٹکڑا لہرانا حیران کن تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں یہ بھی آپ کو بتادوں کہ اگر جنرل قمر جاوید باجوہ چاہتے تو اپنے آخری 6 سے 7 ماہ بہت سہولت کے ساتھ گزار سکتے تھے، وہ یہ فیصلہ نہ کرتے اور اپنے آپ کو مقدم رکھ کر آرام سے نومبر میں ریٹائر ہو کر چلے جاتے، نہ کسی نے تنقید کرنی تھی نہ اتنی غلاظت ہونی تھی، لیکن انہوں نے ملک اور ادارے کے حق میں فیصلہ دیا اور اپنی ذات کی قربانی دی۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آرمی چیف پر اور ان کے بچوں پر کتنی غلیظ تنقید کی جاتی رہی لیکن انہوں نے یہ فیصلہ کیا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ جب وہ چلے جائیں تو ان کی لیگیسی میں ایک ایسا ادارہ ہو جس کا آئینی رول ہو، اس کا ایسا رول نہ ہو جسے متنازع بنایا جا سکے، لہذا اس چیز کی خاطر انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے بتایا کہ مارچ میں آرمی چیف کو غیر معینہ مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش کی گئی، جسے جنرل باجوہ نے ٹھکرا دیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے مزید کہا کہ فیصلہ کیا تھا کہ ادارے کو متنازع رول سے ہٹا کر آئینی راستے پر لانا ہے۔ گزشتہ سال اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا کہ ہم نے خود کو آئینی حدود میں رکھنا ہے۔ گزشتہ سال اور اس سال مارچ میں ہم پر بہت پریشر آیا۔ اس نتیجے پر پہنچے کہ ادارے کا مفاد اسی میں ہے کہ سیاست سے نکل جائیں۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے مزید کہا کہ آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو ماضی قریب میں تعریفوں کے پل کیوں باندھے تھے؟ آپ اپنے سپہ سالار کو آفر کررہے ہیں کہ آپ ساری زندگی اپنے عہدے پر فائز رہیں۔ آرمی چیف کو پیشکش اس وقت کی گئی جب تحریک عدم اعتماد عروج پر تھی۔ رات کی خاموشی میں ہمیں بند کمروں میں ملیں، غیر آئینی خواہشات کا اظہار کریں۔ رات کے اندھیرے میں ملیں، مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ دن کی روشنی میں غدار کہیں۔ آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو آج بھی چھپ کر اس سے کیوں ملتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ ارشد شریف کا اسٹیبلشمنٹ اور مجھ سے بھی رابطہ تھا۔ ارشد شریف کے خاندان میں غازی اور شہید بھی ہیں۔ کینیا میں انکوائری ہو رہی ہے، میں کینیا میں ہم منصب سے رابطے میں ہوں۔ جو تحقیقات ہورہی ہیں اس میں حکومت اور ہم مطمئن نہیں ہیں، اسی لیے حکومت نے تحقیقاتی ٹیم کینیا بھیجی ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ہر شہری کا آئینی حق ہے کہ آزادی اظہار رائے کرے۔ ہمارا محاسبہ کریں کہ مگر پیمانہ یہ رکھیں کہ میں نے ملک و قوم کے لیے کیا کیا۔ یہ پیمانہ نہیں ہونا چاہیے کہ میں نے آپ اور آپ کی ذات کے لیے کیا کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بیرونی خطرات اور عدم تحفظ سے خطرہ نہیں ہے، پاکستان کو اگر کوئی خطرہ ہے تو عدم استحکام سے ہے۔ پاکستان کا دفاع اس لیے مضبوط ہے کہ اس کے ذمہ دار 22 کروڑ عوام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوج کو کسی لانگ مارچ، دھرنے اور احتجاج سے کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن ملک کو عدم استحکام کا شکار نہیں ہونے دیں گے اور اس حوالے سے آرمی چیف کی بات ٹھیک ہے۔ ایک صحافی کی جانب سے عمران خان کو لانے سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس آئی نے جواب دیا کہ اس پر سیر حاصل گفتگو پھر کبھی ہوسکتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں