میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسلام میں عدل وانصاف کے تقاضے

اسلام میں عدل وانصاف کے تقاضے

منتظم
جمعرات, ۲۷ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

میگزین رپورٹ
عدل وانصاف کا جو مقام اسلام میں ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی جو صفات بیان کی ہیں ان میں جہاں رحمن ورحیم کا ذکر فرمایا ہے وہاں اس کے کلام کے سچا ہونے اور اس کے عادل ہونے کا ذکر بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ”اور تیرے رب کے کلمات مکمل‘ سچے اور عدل پر مبنی ہیں، اس کے کلمات کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔“
اللہ تعالیٰ نے سورہ¿ رحمن کی شروع کی آیتوں میں بتا دیا ہے‘ کہ اس نے تمام کائنات کا نظام توازن وعدل پر قائم کیا ہے۔ اور ہمیں ہدایت کی ہے کہ ہم عدل وانصاف کے معاملے میں ڈنڈی نہ ماریں۔ ارشاد ہوتا ہے : ”سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں۔ آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کر دی اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو‘ انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو‘ اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو۔ (الرحمن ۔ آیات 5 تا 9)
خود اللہ تعالیٰ کے سب سے محبوب پیغمبر اور ہمارے پیارے نبی نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان انصاف کریں اور ہمیں سورة نساءمیں ہدایت دی گئی ہے کہ ہم لوگوں کی امانتیں ان کو لوٹا دیا کریں اور جب ان کے درمیان فیصلہ کریں تو حق وانصاف کے ساتھ کریں۔ (النساءآیت 58)
اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاریٰ کو اپنے رب کے احکامات کے مطابق عدل نہ کرنے پر کافر‘ ظالم اور فاسق کہا ہے۔ ہم تو مسلمان ہیں۔ اس سلسلے میں ہماری کیا ذمہ داری ہے اس کو پورا نہ کرنے پر ہمارا کیا انجام ہوگا؟
ہم نے اللہ تعالیٰ کی ان ہدایت کو نظر انداز کردیا ہے‘ اس لیے ہمارا معاشرہ ابتری کا شکار ہے اور ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے۔ سورة نساءکی آیت نمبر 35 میں پھر یہ ہدایت دی گئی ہے : ”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو‘ اسلام کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو‘ اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب‘ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل نہ چھوڑو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔“ اگر اس جگہ حضرت علیؓ کی اس ہدایت کا ذکر کیا جائے جو انہوں نے مالک بن استرؓ کو اپنے ایک خط میں دی تو بے جا نہ ہوگا۔علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا:
”اپنے معاملات میں انصاف‘ عادل اور غیر جانبدار رہنا تاکہ ایک صاحب حےثیت شخص کو بھی تم سے غلط فائدہ اٹھانے کی ہمت نہ پڑے اور کم حےثیت اور غریب لوگ تمہارے عدل وانصاف سے مایوس نہ ہوں۔“


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں