میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دین میں دوستی کا تصور

دین میں دوستی کا تصور

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۲ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

مولانا ندیم الرشید
قابل صد احترام قارئین!
حضور اقدس ﷺ نے فرمایا ہے کہ مومن سراپا الفت اور محبت ہے ۔اور اس شخص میں کوئی خیر اور خوبی نہیں جو نہ تو دوسروں سے محبت کرے اور نہ ہی دوسرے اس سے محبت کریں۔ (مشکوٰة، باب الشفقة)
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں فرمایا ہے کہ:مو¿من مرد اور مو¿من عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور معاون ہیں۔
جن لوگوں نے سیرت النبیﷺ کا مطالعہ کیا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ اپنے دوستوں اور ساتھیوں یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے انتہائی محبت فرماتے تھے اور اس حد تک شفقت فرماتے تھے کہ ہر ایک یہ محسوس کرتا تھا کہ حضور اقدس ﷺ سب سے زیادہ اسی کو چاہتے ہیں۔
اسلام میں دوستی کا معیار اسلام سے محبت ،تقویٰ اور پرہیز گاری ہے کیونکہ انسان کی فطری طور پر دوستی ان لوگوں سے ہوتی ہے جو اس کے ہم خیال ہوں۔ اسی بنا پر یہ مثل مشہور ہے کہ آدمی اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔ دوستوں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور وقت گزارنے کا نام ہی زندگی ہے، اگر دوستی میں ایثار و قربانی اور محبت کی آمیزش نہ تو یہ ایسے ہی ہے جیسے پھول تو ہو مگر اس میں خوشبو نہ ہو۔
قارئین گرامی!
دوستوں سے نفرت اور بیزاری انسان کو تنہائی کی ایسی دلدل میں پھنسا دیتی ہے جس میں وہ عمر بھر مقید رہتا ہے۔ جب انسان دوستوں میں مل جل کر رہتا ہے اور ہر معاملہ میں ان کو شریک کرتا ہے تو اس کے نتیجے میںبعض اوقات اس کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچتی ہیں۔ کبھی اس کے جدبات کو ٹھیس لگتی ہے۔ کبھی اس کے وقار کو صدمہ پہنچتا ہے، کبھی اس کے آرام میں خلل پڑتا ہے تو کبھی اس کے معمولات متاثر ہوتے ہیں۔ کبھی اس کی خواہش اور رجحان کے خلاف باتیں سامنے آتی ہیں، تو کبھی اس کے صبر و برداشت کی آزمائش ہوتی ہے اورکبھی اس کو مالی نقصان ہوتا ہے، غرض مختلف قسم کی اذیتیں اور تکلیفیں اس کو پہنچتی ہیں۔ لیکن جب کوئی شخص ان اذیتوں کو برداشت کرتا ہے تو اس کے قلب میں اس سے جگہ پیدا ہوتی ہے، اچھے اخلاق نشو ونما پاتے ہیں، اور وہ تربیت اور تزکیے کی فطری منازل سے گزرتا ہوا روحانی اور اخلاقی ترقی کرتا ہے۔
اس میں تحمل و برد باری ایثار و محبت، ہمدردی و شجاعت اور مرحمت و مواسات کے اعلیٰ ترین اوصاف پیدا ہوتے ہیں اور وہ انسانی معاشرے کے لیے سراپا خیر وبرکت بن جاتا ہے۔ ہر دل میں اس کے لیے قدر و عظمت کے جذبات جنم لیتے ہیں اور ہر انسان اس کے وجود کو اپنے حق میں رحمت کا سایہ سمجھتا ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:جو مسلمان لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں کو برداشت کرتا ہے وہ کہیں بہتر ہے اس شخص سے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں سے بچارہتا ہے۔(ترمذی)
اسلام میں یہودی، مشرکین اور عیسائیوں سے دوستی کی ممانعت ہے، اسی لیے اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہمیشہ نیک اور صالح لوگوں کو ہی دوست بنایا جائے، دوستی میں اس بات کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے کہ جن لوگوں سے قلبی تعلق بڑھایا جا رہا ہے وہ دین و اخلاق کے اعتبار سے آپ کے لیے کس حد تک مفید ثابت ہو رہے ہیں۔
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ:آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لیے ہر آدمی کو غور کر لینا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ (مسند احمد مشکوة)
دوست کے دین پر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ دوست کی صحبت میں بیٹھے گا تو وہی جذبات و خیالات اور وہی ذوق و رجحان اس میں پیدا ہوگا جو دوست میں ہے۔ اور پسند و نا پسند کا وہی معیار اس کا بھی بنے گا جو اس کے دوست کا ہے۔ اس لیے دوست کے انتخاب میں انتہائی غور و فکر سے کام لینا چاہیے۔ اور قلبی لگاﺅ اس سے بڑھانا چاہیے جس کا ذوق و رجحان افکار و خیالات دین اور ایمان کے تقاضوں کے مطابق ہوں۔ حضور اقدس ﷺ نے تاکید فرمائی کہ مومن ہی سے رشتہ محبت استوار کرو۔ اور اسی کے ساتھ اپنا کھانا پینا رکھو۔
آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:مو¿من ہی کی صحبت میں رہ اور تمہارے دستر خوان پر پرہیز گار ہی کھانا کھائے۔
ایک دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا قلبی تعلق اور محبت کا فطری محرک ہے، اور یہ تعلق و محبت اسی مو¿من سے ہونا چاہیے جو متقی اور پرہیز گار ہو۔ خدا تعالیٰ سے غافل، غیر ذمہ دار بے عمل اور بد اخلاق لوگوں سے ہمیشہ دور رہےے۔
سرکار مدینہ ﷺ نے اچھے اور برے دوست سے تعلق کی کیفیت کو ایک بلیغ تمثیل میں یوں بیان فرمایا ہے۔ ”اچھے اور برے دوست کی مثال مشک بیچنے والے اور بھٹی دھونکنے والے لوہار کی طرح ہے۔ مشک بیچنے والے کی صحبت سے تم کو کچھ فائدہ ضرور پہنچے گا ۔یامشک خریدو گے یامشک کی خوشبو پاﺅ گے۔ لیکن لوہار کی بھٹی تمہارے کپڑے جلا دے گی یا تمہارے دماغ میں اس کی بدبو پہنچے گی۔ (بخاری)
محترم قارئین!
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اچھا دوست اللہ رب العزت کی بہت بڑی نعمت ہے جو کسی دوسرے دوست کی پوری زندگی کے تمام پہلوﺅں پر اپنی محبت کے مثبت اثرات چھوڑتا ہے۔ اور برا دوست اللہ رب العزت کے عذاب سے کم نہیں کہ اس کی موجودگی ایک اچھی خاصی شخصیت کو مسخ کرکے رکھ دیتی ہے۔اور دوستی صرف اللہ رب العزت کی رضا کے لیے کی جائے نہ کہ ذاتی مفادات کے حصول کے لیے، خداتعالیٰ کے محبوب بندے وہی ہیں جو خدا کے دین کی بنیاد پر باہم جڑتے ہیں۔
قیادت کے دن جب عرش الٰہی کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا اس دن جن لوگوں کو عرش الٰہی کا سایہ نصیب ہوگا ان میں ایک قسم کے افراد وہ دو آدمی ہوں گے جو محض خدا تعالیٰ کے لیے ایک دوسرے کے دوست ہوں گے اللہ تعالیٰ ہی کی محبت نے ان کو باہم جوڑا ہوگا اور اسی بنا پر وہ ایک دوسرے سے جدا ہوں گے۔
اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں