میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سابق وزیراعظم احتساب عدالت میں پیش، 2اکتوبر کو فرد جرم لگے گی، مجھے نااہل کرنا ہی تھا، کچھ نہ ملا تو اقاما کی آر لے لی، نواز شریف

سابق وزیراعظم احتساب عدالت میں پیش، 2اکتوبر کو فرد جرم لگے گی، مجھے نااہل کرنا ہی تھا، کچھ نہ ملا تو اقاما کی آر لے لی، نواز شریف

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۷ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

اسلام آباد(بیورو رپورٹ)احتساب عدالت نے نوازشریف پر فرد جرم عائدکرنے کے لیے2اکتوبر کی تاریخ مقررکردی، جبکہ نوازشریف کے وکیل کی جانب سے عدالت میں پیشی سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کردی عدالت کے حکم پر نوازشریف کے وکیل کو تینوں ریفررنسزکی کاپیاں فراہم کردی گئی ہیں۔عدالت نے کہا کہ نوازشریف 2اکتوبر کو پیش ہوں، چھ ماہ کا وقت ہے جس کے دوران ریفررنسزکا فیصلہ کرنا ہے، عدالت نے حسن نواز حسین نواز مریم نوازاور کیپٹن صفدر کے بھی 2اکتوبر کے لیے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں اور ہدایت کی گئی ہے کہ وہ عدالت میں پیش ہوکر 10/10لاکھ کے ضمانتی مچلکے جمع کروائیں، اگر نوازشریف کے بچے پیش نہ ہوئے تو ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں گے-نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عدالت پر دبا ئو ہے جس پر احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ ہمیں 6ماہ میں کیس کو نمٹانا ہے، آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔تفصیلات کے مطابق پا ناماکیس میں سپریم کورٹ سے نااہل قرار پانے والے سابق وزیراعظم نوازشریف آج احتساب عدالت میں پیش ہوئے عدالت میں ان کے وکیل خواجہ حارث پیروی کی، عدالت کے اندر انتہائی مختصرکارروائی ہوئی جو بمشکل 6منٹ 30سیکنڈ پر مشتمل تھی، عدالت میں حاضری کے موقع پر نوازشریف نے عدالت کو بتایا کہ وہ اپنی اہلیہ کی علالت کی وجہ پیش نہیں ہوسکے، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ کی حاضری ہوگئی ہے، لہذا آپ جاسکتے ہیں۔میاں نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں ان سے تین وکلالت ناموں پر دستخط لیے، عدالت نے قرار دیا کہ نوازشریف کی حاضری لگاکر انہیں جانے دیا جائے اور وکلاء کیس کی سماعت کو جاری رکھیں۔مختصر وقفے کے بعد عدالتی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تو نوازشریف کے وکیل کی جانب سے نوازشریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے 2اکتوبر کو ان پر فردجرم عائد کرنے کی تاریخ مقرر کر دی گئی، احتساب عدالت میں ریفرنس 19 18اور 20کی کاپیاںنواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کو فراہم کردی گئیں،خواجہ حارث نے نوازشریف کی عدالت میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دی جس کی نیب نے مخالفت کر دی، نواز شریف کی عدالت میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر عدالت نے کہا کہ اس پر فیصلہ فردجرم عائد ہونے کے بعد کیا جائے گا۔نیب کے پراسیکیوٹر سردار مظفر عباس نے عدالت میں شکایت کی کہ اسلام آباد پولیس نے ہمیں نیب عدالتوں میں پیش ہونے سے جگہ جگہ پرروکا، جبکہ جاتی امرا پر سیکورٹی اہلکار نے حسن حسین نواز کے سمن لینے سے انکار کر دیا۔جج محمد بشیر نے نیب پراسیکیوٹر کو تحریری درخواست دینے کی ہدایت کی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ پاکستانی سفارتخانے کے سیکنڈ سیکریٹری نے حسن نوازکوسمن وصول کروائے، حسن نواز شریف فیملی کے عاقل بالغ رکن ہیں،جاتی عمرہ کے سیکورٹی اہلکارنے کہاکہ حسن حسین نوازبیرون ملک رہتے ہیں سمن وہاں بھیجیں،حسن نواز سمن وصول کرنے کے بعدحاضر نہیں ہوئے، یہ توہین عدالت ہے۔ دریں اثناء نوازشریف کی پیشی کے موقع پر عدالت کے باہر مسلم لیگ نون کے کارکنان کی بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے جوڈیشل کمپلیکس کے باہر شدید نعرے بازی کی نو ازشریف کو حکومت کی جانب سے مکمل پروٹوکول اور سیکورٹی فراہم کی گئی-عدالت کے اندر بھی نوازشریف کے حامی اور مخالف وکلاء نے بھی نعرے بازی کی ۔

اسلام آباد(بیورو رپورٹ) سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ عوامی ووٹ کے تقدس کے لیے بڑامقدمہ لڑنے کافیصلہ کرلیا،فتح پاکستان کی ہوگی۔ وکلاء کنونشن میں 12سوال اٹھائے ایک سوال کاجواب نہیں ملا،لوگوں کوبتاتودیتے کہ پاناما کیس میں کچھ نہیں ملا،اقاما پرسزادی جارہی ہے، اہلیہ کی بیماری کے باعث ہنگامی طورپرلندن جاناپڑا،ماضی گواہ ہے کہ حالات کی سنگینی کاسامناپہلے بھی کیا، 70سالہ پرانے کینسر کا علاج تشخیص کرنے کا وقت آ گیا ہے، ورنہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ملک کسی بڑے سانحہ کا شکار نہ ہو جائے۔ منگل کے روز سابق وزیراعظم نوازشریف نے پنجاب ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہم نے عدالت سے فرار ہونا ہوتا تو ہم خطرات کا سامنا نہ کرتے، ہم نے ماضی میں بھی ڈکٹیٹر کے سامنے سر نہیں جھکایا اور کال کوٹری سمیت جیلیں کاٹی ہیں،ہائی جیک کے جھوٹے الزام میں لمبی قید کی سزا سنائی گئی، کیونکہ ہم قانون اور آئین پر عمل کرنے والے ہیں،ہم قانون کے عمل سے پہلے بھی گزرے ہیں اور اب بھی گزریں گے، انہوں نے کہا کہ فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت آمرانہ دور تھا اور آج جمہوری دور ہے، حالانکہ آمرانہ دور میں دہشتگردی کی عدالتوں سے سزا پانے کے بعد بھی دو اپیلوں کا حق دیا گیا اور آج مجھے اس سے بھی محروم کردیاگیا،نوازشریف نے کہا کہ پہلے عدالت نے پاناما کیس میں اپیل کو فضول قرار دیا اور پھر اسی کیس کو اہم قرار دیکر مقدمے کی سماعت شروع کردی پھر اسی عدالت کو ثبوت نہ ملا تو ایک پراسرار جے آئی ٹی بنا دی اور پھر اسی عدالت نے کبھی پانچ اور کبھی تین ججوں کے فیصلے سنائے اور پھر اسی عدالت نے نیب کو حکم دیا کہ وہ اپنے سارے ضابطے توڑ کر براہ راست ریفرنس دائر کرے اور پھر اسی عدالت نے نیب کا بھی کنٹرول سنبھال لیا اور پھر یہی عدالت احتساب کورٹ کی نگران بھی بن گئی ہے اور اب ضرورت پڑی تو یہی عدالت میری آخری اپیل بھی سنے گی، کیا قانون کی پاسداری اور انصاف یہی ہے، آئین کا آرٹیکل 10Aبھی یہی کہتا کہ فیئر ٹرائل ہونا چاہئے، وکلاء کنونشن میں میں نے 12سوالات اٹھائے ایک ماہ کا عرضہ گزرنے کے بعد بھی ایک سوال کا جواب بھی نہیں آیا اور نہ ہی آسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ 70سالہ ملکی تاریخ میں یہ واحد کیس ہے جس میں عدل وقانون کا سارا وزن پٹشنر پر ڈال دیا گیا اور دفاع کرنے والے کے سارے حقوق صلب کردیے گئے، لیکن حقیقت میں یہ وہی مقدمات ہیں جنہوں نے 24سال پہلے سیاسی انتقام کی کوک سے جنم لیا،مشرف کے 10سالہ دور میں بھی انہی مقدمات کو سزا کے لیے استعمال کیا گیا، لیکن کوئی رتی بھر جرم ثابت نہیں ہوا،آج انہی مقدمات کو دوبارہ استعمال کیا جارہا ہے اور انصاف اور قانونی تقاضوں کو پامال کیا جارہا ہے، لیکن پھر بھی ہم کارروائی میں شامل ہوئے اور بالآخر فیصلہ آیا کہ آپ پر ایک پائی کمیشن بدعنوانی رشوت یا اختیارات کا غلط استعمال تو ثابت نہیں ہوا، لیکن آپ کو نااہل کرنا ہے، اس لیے اقامے کی آڑ لی جارہی ہے۔ نوازشریف نے کہا کہ مجھے تو اتنا انصاف بھی نہیں دیا گیا کہ آخر بتا دیا جاتا کہ آپ کو پاناما میں نہیں بلکہ اقاما میں سزا دی جارہی ہے، یہ لوگوں کو بھی بتایا جانا چاہئے کہ پاناما میں کچھ نہیں ملا صرف اقاما سے ہٹایا گیا ہے، نوازشریف نے کہا کہ وہ عدالتی فیصلے سے سبکدوش ہوگئے ہیں، لیکن اسے تو آئینی اور قانونی ماہرین بھی تسلیم نہیں کررہے ہیں تو میں اس فیصلے کو کس طرح تسلیم کرلوں،ایسے فیصلوں کے خلاف عدالتوں میں اپیل کا حق ہو یا نہ ہو، لیکن عوام کی عدالت میں اپیل کا حق ضرور ہوتا ہے، اس لیے میری پہلی اپیل پر جی ٹی روڈ پر لاکھوں عوام کا سمندر امڈ آیا اور چار دن اور چار راتیں یہ فیصلہ گونجتا رہا اور بری امام کی نگری سے لیکر داتا کی نگری تک اس فیصلے کی آواز کی گونج آج بھی موجود ہے پھر میری دوسری اپیل این اے120میں سنی گئی اور اس کا بھی ایک بہت بڑا فیصلہ آیا اور امید ہے کہ 2018ء میں بھی اسی طرح کا ایک بڑا فیصلہ آئے گا، جو کہ مولوی تمیز الدین کیس سے لیکر ایسے تمام کیس کے فیصلوں کو بہا لے جائے گا،نوازشریف نے کہا کہ پاناما ڈرامے کا سامنا کیا اور اس مقدمے میں مدعی کی بجائے تمام وزن اور ثبوت ہم پر ڈال دیے گئے، میں نے اور میرے بچوں نے ان ہیروں سے بنی جے آئی ٹی کا سامنا کیا جن پر پہلے سے انکوائریاں چل رہی تھیں اور ان کے خلاف تو کوئی عدالتی کارروائی نہیں ہوسکی، آج نیب عدالت میں بھی پیش ہوا ہوں اور اللہ کی ذات پر یقین ہے کہ اس سے بھی سرخرو ہوں گا، کیونکہ پاکستان کی عوام میرے ساتھ ہے، امید ہے کہ کہیں نہ کہیں سے انصاف ضرورت ملے گا،کیونکہ یہ سزا پوری قوم کو دی گئی ہے، ملک کی ترقی کو روک کر اسے تماشا بنا دیا گیا ہے، میں اپیل کرتا ہوں کہ خدارا ملک کو آئین کے مطابق چلنے دو،اگر آئین عوام کو حکمرانی کا حق دیتا ہے تو پھر اسے تسلیم کرو اور حیلے بہانوں سے نہ ہٹاؤایسے فیصلے پہلے بھی پاکستان کو دولخت کرچکے ہیں۔نواز شریف نے کہا کہ عوام کا آئینی حق نہ چھینوں لیکن انصاف کا عمل جب انتقام کا عمل بنا دیا جائے تو پھر عدالتوں کا احترام نہیں رہتا،عدالتی تاریخ بھی ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے جن سے ہمیں ندامت ہوتی ہے، لیکن وقت آگیا ہے کہ اس تاریخ کو تبدیل کرنا ہوگا،انہوں نے کہا کہ میں جھوٹ پر مبنی مقدموں کا سامنا کر رہا ہوں اور میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں یہ مقدمے لڑوں گا،کیونکہ پاکستانی قوم سمیت آئین اور جمہوریت کا مذاق اڑایا گیا ہے اور ووٹ کے تقدس کو پامال کیا گیا ہے،70برس سے نشانہ بننے والے وزرائے اعظم کا یہ مقدمہ ہے، اس میں فتح عوام اور پاکستان کی ہوگی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں