علی رضا عابدی قتل کیس، دہشت گردی کی نئی لہر کا خطرہ سر اُٹھانے لگا
شیئر کریں
کراچی میں سابق ایم این اے علی رضا عابدی پر قاتلانہ حملے نے کراچی میں دہشت گردی کی نئی لہر کے خطرات اُبھار دیے ہیں۔ ذمہ دار ذرائع کے مطابق دہشت گردی کی تازہ لہر مخصوص دہشت گرد عناصر کے ذریعے نئے اہداف کے ساتھ شروع کی گئی ہے۔ خدشہ ہے کہ اگلے چند دنوں میں دہشت گرد اپنے مزید اہداف کو نشانا بنانے کی کوشش کریں گے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں دہشت گردی کی اس نئی لہر نے ایک ہلچل پیدا کردی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے مختلف دھڑے علی رضاعابدی کے قتل کو پی ایس پی کے دفتر پر حملے کے ساتھ ملا کر دیکھ رہے ہیں۔ اُن کے نزدیک علی رضا عابدی اور پی ایس پی کے دفتر پر حملہ کرنے والے عناصر ایک بھی ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں باقاعدہ طور پر کسی ربط کو تلاش کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو متحدہ قومی موومنٹ سے الگ ہونے والے مختلف دھڑوں سمیت خود متحدہ قومی موومنٹ دہشت گردی کی نئی لہر کا نشانا ہوسکتے ہیں۔
بعض باخبر حلقوں میں اس حوالے سے ایک نئی لسٹ بھی زیر گردش ہے جن میں وہ نام شامل ہیں جو دہشت گردوں کا ممکنہ نشانا ہو سکتے ہیں۔ اس امر کا احساس متحدہ قومی موومنٹ سے الگ ہونے والے تمام دھڑوں میں ہو گیا ہے۔ جس کے باعث اُن میں باہمی رابطے بھی ہوئے۔ متحدہ کے مختلف دھڑوں کا مشترکہ خوف جس جانب اشارہ کررہا ہے،اگر یہ خوف اور اشارہ درست ہے، جیسا کہ پی ایس پی کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے متن سے واضح ہے تو پھر دہشت گردوں کا یہ گروہ آگے بھی مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ کیونکہ یہ گروپ متحدہ سمیت مختلف دھڑوں میں بھی ابھی تک شناخت نہیں کیا جاسکا ہے،جو اپنے ماضی کے جانے پہچانے کردار کے باعث ان عناصر کو اچھی طرح جانتے تھے جو کراچی کے امن کو ’’اوپر‘‘ کی ہدایت پر کسی بھی وقت تہ وبالا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں استعمال ہونے والی مختلف ٹیموں کو قابو کیا جا چکا ہے۔ اس کے بعد نئے سرے سے سر اُٹھانے والے ان عناصر کو شناخت کیا جارہا ہے جو کراچی میں دہشت گردی کی اس نئی لہر کے پس پردہ متحرک ہیں یا پھر اس نئی دہشت گردی کے سیاسی یا مالی فوائد سمیٹ سکتے ہیں۔ قتل کے طریقہ کار سے کہیں زیادہ اہم نکتے کے طور اس امر پر دھیان دیا جارہا ہے کہ آخر دہشت گردی کی اس لہر کا محرک یا اس کے نتیجے میں فائدہ کس کا ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ دنوں سامنے آنے والے بانی متحدہ کے خطاب کو بھی زیر بحث لایا جارہا ہے جس میں وہ بہت مضطربانہ انداز سے فنڈز کی اپیل کررہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سوال پر بھی غور کررہے ہیں کہ کیا وہ اپنا صبر کھو رہے ہیں؟ اس ضمن میں اس امر پر خاص طور پر غور کیا جارہا ہے کہ کیا دہشت گردی کی نئی لہر کرایے کے ایسے قاتلوں سے تو شروع نہیں کرائی گئی جو متحدہ کے معروف حلقوں میں پہلے سے مانوس نہ ہو۔ متحدہ کے بعض دھڑوں کی جانب سے یہ اشارہ کیا جارہا ہے کہ ایسی ٹیمیں ہمیشہ رہی ہیں جو ہمیشہ اعلیٰ قیادت کی جانب سے کنٹرول کی جاتی رہیں اور جس کا علم مقامی نظم کو بھی نہیں ہوتا تھا۔تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ خیال درست ہے تو پھر کراچی میں دہشت گردی کی نئی لہر بہت سے نئے خطرات کو پیداکرنے کا موجب ہوسکتی ہے۔