میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مراکش‘خوش اخلاق اور مہمان نواز لوگوں کی سرزمین

مراکش‘خوش اخلاق اور مہمان نواز لوگوں کی سرزمین

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۶ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

اس شہر میں اسلامی فن تعمیر اور مور حکمرانوں کے روایتی فن تعمیر کو ایک نیا رخ دیا گیاہے ، جس نے شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے ہیں
صبا حیات
مراکش کو افریقی ممالک میںانتہائی ادب نواز اور مہمان نواز لوگوں کی سرزمین ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔افریقی ملکوں میں لیبیا، سوڈان اور الجزائر کی طرح مراکش کو بھی ایک منفرد اور ممتاز مقام حاصل ہے ۔ یہ ملک کم وسیلہ اور چھوٹا ہونے کے باوجود پورے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتا ہے ،کوئی دوسرا افریقی ملک مشرق وسطیٰ کی سیاست میں اتنا زیادہ دخیل ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا اور وہ مقام حاصل نہیں کرسکتا جو مراکش کو حاصل ہے۔ اس سرزمین نے زمانے کے بڑے سردو گرم دیکھے ہیں، یہاں بہت سے انقلابات نے جنم لیا لیکن یہاں کے عوام کے ذہنوں کو کوئی مسخر نہیں کرسکا ، مراکش ہمیشہ سے مسلمانوں کی تحریکوں میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتا رہا ہے اور اپنے تمام تر مسائل اور مشکلات کے باوجود اقوام عالم میں اور خاص طور پر اسلامی دنیا میں اس کو ایک خاص مقام حاصل رہا ہے ۔
مراکش نے گزشتہ ایک عشرے میں ناقابل یقین ترقی کی ہے ، اس کا اندازہ مجھے مراکش کے حالیہ دورے کے دوران ہوا ، گزشتہ دنوں مراکش میں میں نے جو ترقی دیکھی اس سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہاں کسی کے ہاتھ الہٰ دین کا جادوئی چراغ آگیا ہے اور اس نے یہ چراغ گِھس کر مراکش کی کایا ہی پلٹ دی۔
ایک عشرہ قبل جب مراکش کو بہت ہی گنداشہر تصورکیاجاتا تھا اور اس کی سڑکوں اور گلیوں سے گزرنا محال تھا، اس شہر میں پرانے طرز کے مکان بنے ہوئے تھے اور صرف چند ہی ہوٹل اور ریستوران ایسے تھے جہاں سیاح قیام کرسکتے تھے اور کھاپی سکتے تھے ، اور رات کو شہر کے دروازے بند کردیے جاتے تھے ۔
اب مراکش جانے والے یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ چاردیواری کے اندر واقع اس شہر کے آٹھوں دروازے کھول دیے گئے ہیں اس شہر کی یہ چار دیواری سن 1070ءمیں بنائی گئی تھی۔ اس شہر کی آبادی 10 لاکھ سے تجاوز کرچکی تھی اوراب یہ شہر بہت صاف ستھرا اور سیاح دوست بن چکا ہے۔ ایک عشرہ قبل جب سیاح یا اجنبی اس شہر میں آتے تھے تو نام نہاد گائیڈز اور ٹاﺅٹس انہیں گھیر لیتے تھے۔ جب بھی کوئی اپنے ہوٹل سے باہر قدم نکالتاتھا ان کے نرغے میں آجاتا تھا لیکن اب سیاحوں کو اس شہر میں ایسی کسی کوفت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
شمالی یورپ سے یہاں لوگوں کی آمد کی وجہ سے یہاں کے متمول لوگ شہر کے نواح میں منتقل ہوگئے اور جو نئے لوگ شہر میں آئے ہیں ان میں چونکہ ماہرین تعمیرات ، ڈیزائنر اور روشن خیال لوگوں کی اکثریت ہے اس لیے انہوں نے اس شہر کے قدیم طرز کے مکانوں کوریستورانوں اور گیسٹ ہاﺅسز میں تبدیل کردیا ہے اور اس طرح مراکش کو جسے عربی میںمغرب کہتے ہیں سردترین اور پرسکون ترین سیاح دوست شہر میں تبدیل کردیا ہے ۔
یورپ سے یہاں آنے والے اپنے ساتھ یورپی اسٹائل اور طرز رہائش بھی اپنے ساتھ لائے ہیں ان کے اس اسٹائل اور طرز رہائش نے مراکش کے روایتی اسٹائل اور طرز رہائش کے ساتھ مل کر ایک نیا اسٹائل بنالیا ہے جو خوبصورت بھی ہے اور دیکھنے کے قابل بھی، یعنی سیاحوں کی دلچسپی کا باعث بھی ہے ۔یورپ سے آنے والوں کی وجہ سے اس شہر کی ہر چیز میں تبدیلی آئی ہے ،خاص طور پر اب مراکش میں اس شہر کے قدیم سالن اسٹیو کے علاوہ اب یہاں طرح طرح کے مزیدار کھانے دستیاب ہیں ، یہاں باربی کیو بھی دستیاب ہے اور روایتی دیسی کھانے بھی ، اور سب سے زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ اب شہر کے لوگوں نے ایک نیا طرز رہائش تلاش کرلیا ہے جس سے ان کے رہنے سہنے کا ڈھنگ تبدیل ہوگیا ہے ۔اب اس شہر میں جو نئی عمارتیں تعمیر ہورہی ہیں ان میں اسلامی فن تعمیر اور مور حکمرانوں کے روایتی فن کی جھلک کے ساتھ ہی جدید طرز تعمیر کی خوبیاں بھی موجود ہیں اس طرح یہاں اسلامی فن تعمیر اور مور حکمرانوں کے روایتی فن تعمیر کو ایک نیا رخ ملا ہے ، جس نے اس شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے ہیں۔
مراکش کے شاہ نے اپنے ملک کو سیاح دوست بنانے کے بعد سیاحوں کی دلچسپی اور ان کی سہولت کے نمایاں انتظامات کیے ہیں اور اب مراکش کی سیاحت کی صنعت تیزی سے ترقی کررہی ہے ۔شاہ نے اب سالانہ ایک کروڑ سے زیادہ سیاحوں کو مراکش لانے کی تیاریاں شروع کردی ہیں ، سیاحوں کا یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے مراکش کے شہروں کو اس کی تاریخی عمارتوں کو نیا رنگ دیا جارہا ہے یہاں سیاحوں کی سہولتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے ان کی آمدورفت اور قیام و طعام کے انتظامات کو بہتر بنایا جارہا ہے ۔اس مقصد کے لیے ہوٹلوں اور ایئر لائنز کے شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے ،اس کے نتیجے میں بجٹ کیر یئر اوراٹلس بلیو جیسی نئی ایئر لائنیں وجود میں آئی ہیں جو سیاحوں کو ملک کے دور دراز علاقوںیہاں تک کہ مراکش کے جنوب مغربی علاقے میں واقع بندرگاہ اگادیر تک پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہی ہیں،مراکش میں سیاحوں کی خدمت اور رہنمائی کے لیے مراکش کے مقامی لوگوں کو تربیت دی گئی ہے، انہیں بتایا گیا ہے کہ سیاحوں کا استقبال کس طرح کرنا ہے اور ایک دن میں کتنا کام کرنا ہے تاکہ سیاحوں کو پہلے کی طرح کوفت کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔
مراکش کے شہروں میں آنے والی یہ تبدیلی اگرچہ بہت ہی خوشگوار ہے اور اس سے مراکش کی کایا پلٹ گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی مراکش میں مہنگائی نے اپنے پنجے گاڑ دیے ہیںاور مراکش کے ہوٹلوں میں قیام اور طعام کے نرخ پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔ اب مراکش میں گرماگرم نئے نائٹ کلب کھل گئے ہیں جس کی وجہ سے شہر کی رنگینیوں اور سیاحوں کے لیے دلچسپی بڑھ گئی ہے۔بڑی تعداد میں نئی نئی دکانیں اور اسٹور کھل رہے ہیں، اور زندگی کی گہماگہمی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
اس تمام تبدیلی کے باوجود خوش قسمتی سے سیاحوں کی اس شہر میں بڑی دلچسپی کے مرکز کو جوں کا توں رکھا گیا ہے ،سیاح یہاں آنے کے بعد قطبیہ مسجد دیکھنے جاتے ہیں مراکش کی اس قدیم اور خوبصورت مسجد کے چاروں طرف گلاب کا باغیچہ لگا ہوا ہے اور اس کے230 فٹ بلند مینار ، اس کے ریتیلے پتھر کے بنے ہوئے ٹاور اور محرابیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں ،مراکش کے دارالحکومت رباط کی اس مسجد کے مینار اسپین کی تاریخی مساجد کے مشابہ ہیں۔ اس کے قریب ہی جامع الفنا ہے یہ شہر کے وسط میں واقع ہے اور یونیسکو کی جانب سے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کی جانے والی یہ عمارت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے،یہ ایسی عمارت ہے میں نے دنیا میں کہیں بھی اس جیسی شاندار اور خوبصورت عمارت نہیں دیکھی۔اس کے ساتھ ہی شہر کا کھلا بازار ہے ۔ یہاں سے اگر آپ جامع الفنا کے شمال کی جانب نکل جائیں تو آپ بن یوسف مدرسہ دیکھ سکتے ہیں یہ مسلمانوں کی ایک عظیم اسلامی درسگاہ ہے اور دنیا کا عظیم تعلیمی ادارہ ہے ۔اس کے قریب ہی قدیم دور کا ایک آبی مرکز ”قبیٰ “موجود ہے جسے تزئین وآرائش کے بعد سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا ہے ،اس کے قریب مراکش کا میوزیم یعنی عجائب گھر واقع ہے ۔جس میں 19 ویں صدی تک کے شاہی محل کے نوادرات فریم کراکے رکھے گئے ہیں۔جامع الفنا کے جنوب کی جانب چلے جائیں تو آپ کو وہاں عالیشان محلات اور باغیچے ملیں گے جنہیں خوبصورت دروازوں سے آراستہ کیا گیا ہے اور ان میں بھی میوزیم قائم کیے گئے ہیں۔ان میں مراکش کے روایتی لوک آرٹ اور دستکاریاں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔یہاں سے آگے چلیں تو آپ کو قریب ہی دار رتسکیون نامی ایک خوبصورت ٹاﺅن ہاﺅس ملے گا اور اس کے ساتھ ہی ایک میوزیم ہے یہ میوزیم مراکش اور صحرائے صحارا کے علاقے کی عجیب وغریب اشیا اور نوادارات کے لئے مخصوص ہے یہ نوادرات ہالینڈ سے ترک وطن کرکے آنے والے ایک شخص بیرٹ فلنٹ نے جمع کئے ہیں ۔بیرٹ فلنٹ اب مراکش میں مستقل مقیم ہے اس نے مجھے بتایا کہ مورخین نے مراکش کا جائزہ سیاسی انداز میں لیا ہے اور اسے دارالاسلام کا مغربی دروازہ قرار دیا ہے ۔اسے ایک ایسا علاقہ قرار دیا ہے جہاں مسلمانوں کی حکومت تھی اور اسلامی قوانین رائج تھے ، لیکن یہ مغربی علاقہ نہیں بلکہ جغرافیائی اعتبار سے یہ افریقہ کا حصہ ہے ،میں نے مراکش میں اپنے حالیہ سفر میں جو کچھ دیکھا اسے دیکھ کر مجھے اس بات کا اطمینا ن ہوا کہ اگرچہ مراکش میں بہت تبدیلی آئی ہے لیکن یہ تبدیلی خوشگوار ہے اور اس سے مراکش کا اصل چہرہ مسخ نہیں ہوا ہے، مراکش کی روایات ، اس کا تاریخی ورثہ بالکل محفوظ ہے اور یہی وہ چیزیں ہیں جو سیاحوں کی دلچسپی کا باعث بنیں گی ، مراکش کی سیر کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ مراکش میں اب جتنی بھی تبدیلیاں آئیں گی اس سے یہاں کے باشندوں کو سہولتیں ملیں گی یہاں آنے والے سیاحوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی لیکن مراکش کی تاریخی حیثیت برقراررہے گی ۔ کیونکہ تاریخ ہی کسی علاقے کی خوبصورتی اور تشخص کی علامت ہوتی ہے ۔ اگر آپ کسی بیرونی ملک کی سیر کا پروگرام بنارہے ہیں تو اپنے پروگرام میں مراکش کو شامل کرنا مت بھولیے، یہاں آکر آپ قدیم اسلامی تہذیب و تمدن کا قریب سے مطالعہ کرسکیں گے اور قدیم اور عظیم اسلامی درسگاہوں اور مدرسوں کو دیکھ کر آپ کو یہ اندازہ ہوسکے گا کہ جدید دور میں اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے یہ ادارے کتنی بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں