ماسکو کانفرنس۔۔ امریکا کا افغانستان میں قیام امن کی عالمی کوشش میں معاونت سے انکار
شیئر کریں
پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے اگلے ماہ ماسکو میں ہونے والی مجوزہ امن کانفرنس میں شرکت کی تصدیق کردی ہے،اطلاعات کے مطابق ماسکو میں ہونے والی اس کانفرنس میں روس، چین، ایران ،بھارت اور افغانستان کے نمائندے شریک ہوں گے تاہم اطلاعات کے مطابق امریکہ نے ان مذاکرات میں شرکت سے انکار کرکے دراصل افغانستان میں قیام امن کی ایک بے لوث عالمی کوشش میں معاونت سے انکار کردیاہے۔ گزشتہ روز ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ روس کے ماسکو میں افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس میں افغان طالبان کی شرکت کا علم نہیں، تاہم پاکستان اس کانفرنس میں شرکت کرے گا، لیکن یہ شرکت کس سطح پر ہوگی، اس حوالے سے فیصلہ ہونا باقی ہے۔دفتر خارجہ میں ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ ’پاکستان، افغانستان میں قیام امن کے لیے کوششیں جاری رکھے گا‘۔ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سرحد جذبہ خیر سگالی کے تحت کھولی، لیکن ساتھ ہی افغانستان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بارڈرمینجمنٹ کے لیے تعاون کرے۔
گزشتہ برس بھی پاکستان، افغانستان، چین اور امریکہ نے مل کر امن مذاکرات کا عمل شروع کیا تھا، مگر کابل کی جانب سے دہشت گرد حملوں کا الزام پاکستان میں چھپے عسکریت پسندوں پر لگانے کی وجہ سے امن مذاکرات کا سلسلہ ناکام ہوگیا تھا۔اپریل میں ماسکو میں ہونے والے مذاکرات کے پیچھے بھی چین، روس اور پاکستان کا کردار ہے۔ان مذاکرات میں افغانستان سمیت بھارت اور ایران بھی شرکت کریں گے۔ پاکستان افغانستان میں قیام امن کا پرجوش حامی ہے اور اس سلسلے میں ہر کوشش میں شامل ہو گا۔افغان حکام کے مطابق ان مذاکرات میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان دہشتگردی کے خاتمے کے لیے تعاون کے طریقہ کار اور حالیہ کشیدگی میں کمی کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان سرحد کی بندش پر بات چیت ہو گی ۔ یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب حال ہی میں لاہور اور سیہون میں ہونے والے دھماکوں کے بعد پاک افغان تعلقات میں کشیدگی اور تناو¿ میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔پاکستان نے ملک میں شدت پسندی کی تازہ لہر میں 100 سے زیادہ ہلاکتوں کے بعد 16 فروری کو افغانستان سے متصل اپنی سرحد غیرمعینہ مدت کے لیے بند کر دی تھی۔تاہم بعد میں رواں ماہ کے آغاز میں پاکستان اور افغانستان کی سرحد 18 دن کی بندش کے بعد 2 دن کے لیے کھول دی گئی تھی۔
پاکستان کی جانب سے افغان سرحد بند کرنے اورسرحد پر فوج کی نفری میں اضافے کے فیصلے پر افغانستان کی حکومت نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا کہ اس سے افغان شہریوں کی مشکلات میںاضافہ ہوگا جس سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان غلط فہمیوں میں اضافہ ہوسکتاہے۔ پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر سیکورٹی مشترکہ دشمن سے لڑنے کے لیے بڑھائی گئی ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے بیان کے مطابق آرمی چیف کا کہنا تھا کہ سرحد پر ہر طرح کی غیر قانونی نقل و حرکت روکی جائے گی۔بیان کے مطابق آرمی چیف کا کہنا تھا کہ تمام شدت پسندوں کے خلاف بلاتفریقِ رنگ و نسل کارروائی ہوگی۔جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان دہشت گردی کے خلاف لڑ رہے ہیں اور ان مشترکہ کوششوں کو جاری رہنا چاہیے۔آرمی چیف نے افغان حکام کی جانب سے شدت پسندی کے خاتمے کے لیے دی جانے والی حالیہ تجاویز کا بھی خیر مقدم کیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں ہونے والی شدت پسندی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیموں کی قیادت افغانستان میں ہے۔سیہون میں لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر خودکش حملے میں 80 سے زیادہ افراد کی ہلاکت کے بعداس کی ذمہ داری بھی افغانستان میں موجود ایک دہشت گرد تنظیم نے ہی قبول کی تھی جس کے بعد پاکستان نے دہشت گردوں کی ایک فہرست افغان حکومت کے حوالے کرکے ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے اور انہیں پاکستان کے حوالے کرنے کامطالبہ کیاتھا لیکن پاکستان کے اس مطالبے پر افغان حکومت کی جانب سے سردمہری کے اظہار کے بعد پاکستان کومجبوراً پاک افغان سرحد کے قریب دہشت گردوں کے اڈوں کے خلاف فوجی کارروائی ، اور بعد ازاں افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد بھی تاحکمِ ثانی بند کر نا پڑیتھی ۔ افغانستان سے ملنے والی پاکستان کی سرحد بند کرتے ہوئے پاکستانی فوجی قیادت اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز دونوں ہی نے یہ واضح کردیاتھا کہ یہ فیصلہ سیکورٹی خدشات کی وجہ سے کیا گیا ہے،لیکن افغان حکومت کو پاکستان کایہ فیصلہ غالباً پسندنہیں آیا اس طرح یہ فیصلہ دونوں ملکوں کے درمیان تناﺅ اور کشیدگی میں اضافہ کاسبب ثابت ہوا۔
افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے حوالے سے پاکستان کی نیک نیتی کسی بھی طرح کے شکوک وشبہات سے بالا تر ہے پاکستان ابتدا ہی سے افغانستان میں پائیدار امن کی ضرورت کااظہار کرتا رہاہے اور افغانستان میں امن کے قیام کو پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی ضروری تصور کرتاہے،پاک فوج کے سربراہ اور پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ واضح کیاجاچکاہے کہ افغانستان میں پائیدار امن کاقیام نہ صرف افغانستان کی ترقی وخوشحالی کے لیے ضروری ہے بلکہ اس پورے خطے میں امن واستحکام کے لیے افغانستان میں پائیدار امن کاقیام از حد ضروری ہے۔