میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاک افغان کشیدگی کم کرنے پر اتفاق

پاک افغان کشیدگی کم کرنے پر اتفاق

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۸ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے افغانستان کے نائب وزیرِ خارجہ حکمت خلیل کرزئی کی دعوت پر گزشتہ روز کابل کا ایک روزہ دورہ کیا۔اس دورے کے اختتام پر افغان وزارتِ خارجہ سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق افغانستان کے نائب وزیرِ خارجہ حکمت خلیل کرزئی اور پاکستان کی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے افغان امن عمل، ڈیورنڈ لائن پر سیکورٹی صورتِ حال اور دوطرفہ تجارت اور ٹرانزٹ ٹریڈ سے متعلق اْمور پر بات چیت کی گئی۔دونوں سے جانب سے اس بات پر زور دیا گیا کہ اعتماد کی بحالی ضروری ہے اور اس مقصد کیلئے دونوں ممالک نے کئی سطحوں پر کام کرنے پر اتفاق کیا۔افغان وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق دونوں ممالک نے دوطرفہ تجارت بڑھانے میں بھی دلچسپی ظاہر کی کیوں کہ حال ہی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کے حجم میں نمایاں کمی آئی ہے۔کابل میں ہونے والے مذاکرات کے دوران اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ دونوں جانب سے تاجروں کو سہولتیں فراہم کی جائیں گی اور اْن رکاوٹوں کو دور کیا جائے گا جو دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تجارت بڑھانے کی راہ میں حائل ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی مشاورت کے تحت مذاکرات کا دوسرا مرحلہ 2018 کی پہلی سہ ماہی میں ہو گا۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات دہشت گردی کے حالیہ واقعات اور پاک افغان سرحد پر پاکستان کی طرف سے باڑ لگانے کے منصوبے کے سبب تناؤ کا شکار ہیں۔ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے دونوں ہی جانب سے کوششیں کی جا رہی ہیں اور سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کا دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی سے نہ صرف تجارتی سرگرمیاں بلکہ عام لوگوں کی آمد و رفت بھی متاثر ہوئی ہے۔اس حوالے سے پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اس نوعیت کے رابطے ایک دوسرے کا موقف سمجھنے اور دوطرفہ تعلقات کی سمت کا تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔اس حوالے سے وزارت خارجہ کے ترجمان کا یہ کہنا کہ بھارت ہمسایوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے نہ صرف درست ہے بلکہ پوری دنیا یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ بھارت نہ صرف یہ کہ پاکستان اورافغانستان کے درمیان تعلقات بگاڑنے کی پوری کوشش کررہاہے بلکہ وہ افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال بھی کر رہا ہے۔اس وقت چونکہ امریکہ، افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی کا جائزہ لے رہا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے کہ طاقت کا استعمال مسئلہ کا حل نہیں ہے ،اس حوالے سے امریکی حکام کو یہ بات بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ پاکستان نہیں بلکہ بھارت دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔
امریکی حکام کو افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی مرتب کرتے وقت یہ بات بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ خطے میں دہشت گردی امریکہ کی غلط پالیسیوں سے پھیلی ہے اور پاکستان کو صرف امریکہ کی حمایت کی وجہ سے اس کے نتائج پاکستان کو بھگتنا پڑے۔ امریکہ کو یہ حقیقت مد نظر رکھنی چاہئے کہ پاکستان جب دہشتگردی کیخلاف خونریز جنگ لڑنے میں مصروف تھا تو بھارت دہشت گردوں کی بالواسطہ طورپر مدد کر رہا تھا۔ بھارت نے پاکستان کی جنگ کو مشکل بنانے کیلئے را اور افغان ایجنسی این ایس ڈی کو استعمال کرتے ہوئے بلوچستان میں شورش پسندی اور کراچی میں لاقانونیت اور بدامنی کو ہوا دی۔ یہ سب کچھ امریکہ اور عالمی برادری سے پوشیدہ نہیں‘ اس کے باوجود امریکی ہمدردیاں بھارت کے ساتھ ہیں۔ امریکہ کا یہ رویہ کئی خرابیوں کا باعث بنا ‘ اس سے پاکستان کیلئے دہشتگردی کیخلاف جنگ زبردست جانی و مالی نقصان کا باعث بنی۔ معیشت متاثر ہوئی اور بھارت کو سرحدوں پر اشتعال انگیزی کی شہ ملی۔ اسی طرح بھارت کو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کچلنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔ امریکہ کی بھارت کے بارے میں غیرحقیقت پسندانہ پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ اب بھارت چین پر چڑھ دوڑنے کی حماقت کرتا نظر آ رہا ہے اور ایک ایسی صورتحال کو دعوت دے رہا ہے جس سے برصغیر ہی نہیں خطے کے امن کو تباہ کرنے کے علاوہ افغانستان میں امن کی بحالی کی امریکی کوششوں کو بھی نقصان پہنچے گا لہٰذا وقت ہے کہ امریکہ حقیقت پسندی سے کام لے اور بھارت کی طرف اتنا بھی نہ جھک جائے کہ خطہ میں امن کی کوششوں پر پانی پھر جائے۔
امید کی جاتی ہے کہ امریکی حکام افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی ترتیب دیتے وقت یہ تمام زمینی حقائق نظر انداز نہیں کریں گے اور ا س خطے میں پاکستان کی اہمیت اوراس دنیا کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے حوالے سے پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کرکے پاکستان کو پیچھے دھکیل کر اس خطے کے امن کو تہہ وبالا کرنے کے درپے بھارت کی پشت پناہی کے بھیانک نتائج کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
کرکٹ کے شیدائیوں کیلئے امیدکی کرن
پی سی بی کے نومنتخب چیئرمین نجم سیٹھی کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کی امید پیدا ہوئی ہے۔اطلاعات کے مطابق حال ہی میں نجم سیٹھی نے ایشین کرکٹ کونسل کے اجلاس کی صدارت کی اس دوران سری لنکاکی کرکٹ بورڈ کے حکام سے بات چیت میں برف پگھلتی نظر آ رہی ہے اور یہ توقع پیدا ہوچلی ہے کہ سری لنکاایک ٹونٹی ٹونٹی میچ کھیلنے کے لیے اپنی کرکٹ ٹیم پاکستان بھیجنے پر تیار ہوجائے گا ۔اس کے علاوہ رواں سال ورلڈ الیون کے پاکستان آ کر کھیلنے کا امکان بھی روشن نظر آرہاہے۔ یہ صورت حال یقینا پاکستان میں کرکٹ کے شیدائیوں کیلئے ایک اچھی خبر اور کرکٹ کے میدان پر چھائے ہوئے طویل حبس کے عالم میں ٹھنڈی ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا قرار دیاجاسکتاہے ، اگرچہ یہ کہنا خاصا مشکل اور قبل از وقت ہے کہ اس مشق سے پاکستان میں مکمل طور پر بین الاقوامی کرکٹ بحال ہو جائیگی لیکن کرکٹ کی اپنے میدانوں پر واپسی کا عمل ضرور تیز ہو سکتا ہے۔ ایشین کرکٹ کونسل کے اجلاس میں شرکت کے بعد وطن واپسی پر پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نجم سیٹھی نے بتایا ہے کہ ہم پاکستان آ کر کھیلنے کے حوالے سے سری لنکا کے حکام کے مثبت بیان اور پیشرفت پر ان کے شکر گزار ہیں۔ یہ پاکستان کرکٹ کے لیے خوشخبری ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ملک میں بین الاقوامی کرکٹ بحال ہو۔ غیر ملکی ٹیمیں یہاں آ کر کھیلیں۔ ہمارے ویران میدان آباد ہوں، ورلڈ الیون کے دورہ پاکستان کے حوالے سے بھی پرامید ہوں۔ اس دورے کے لیے بھی معاملات بہتر انداز میں آگے بڑھے ہیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ قذافی ا سٹیڈیم میں پاکستان سپر لیگ فائنل کی میزبانی کے بعد ورلڈ الیون کے دورے سے پاکستان میں آ کر کرکٹ کھیلنے کے حوالے سے دنیا کے رائے یقینا تبدیل ہو گی۔پاکستان کرکٹ کھیلنے والے تمام ممالک سے برابری کی بنیاد پر بہتر تعلقات کا خواہاںہے۔ اس حوالے سے نجم سیٹھی کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ بھارت سمیت سب کے ساتھ بات کرتے ہوئے قومی وقار کو مقدم رکھا جائے گا اصولوں اور ملکی عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا۔ اس حوالے سے یہ بات خوش آئند ہے کہ اب دنیا بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے موقف کو وزن دینے لگی ہے انڈر نائٹین ایونٹ کی بھارت سے منتقلی یقینا ہمارے اصولی موقف کی فتح ہے۔ ہم آئندہ بھی اپنے تحفظات ہر سطح پر دلیری اور سمجھداری کے ساتھ پیش کرتے رہیں گے۔ کسی کے سامنے غیر ضروری لچک کا مظاہرہ نہیں کریں گے نہ ہی اپنے حق سے پیچھے ہٹیں گے۔
پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کے امکانات یقینی طورپر خوش آئند ہیں اس حوالے سے پی سی بی کے حکام اور ارباب اختیار کی کاوشیں قابل قدر ہیں، لیکن اس حوالے سے سب سے اہم کردار قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ان شہدا کا ہے جو اپنی جان پر کھیل کر ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانے کیلئے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ ملک میں امن کی بحالی کی وجہ سے ہی آج مختلف ممالک کی ٹیمیں پاکستان آکر کھیلنے پر رضامندی کا اظہار کرتی نظر آرہی ہیں ،پاکستان میں امن کی بحالی امن ان شہدا کے خون کی برکت ہے۔ ہم پر سکون فضا میں سانس لیں گے، خوشیاں منائیں گے تو یہ شہدا کی قربانیوں کے طفیل ہو گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں