ڈارون تھیوری اور ڈار۔۔۔ون معیشت....پاکستان اسٹیل اور پی آئی اے کی نجکاری یا کاروکاری؟
شیئر کریں
کسی سرمایہ کے بغیر فولادسازی کرنے والے اسٹیل ملز چلانے میں کیوں ناکامبیمارکو مُردار قرار دیکر دفنانے پر اصرار کے پیچھے کیا اسرار ہے؟
پی آئی اے اور صکوک بانڈکے اصل خریدار یا سمدھی کا سمدھیانے کو جہیز
خالد شکیل
حضرت انسان اور اشرف المخلوقات کو بندر قرار دینے والے ڈارون کی تھیوری کو یکسر مسترد کرنے پر مُصر لوگوں کو ایشیاءکے نمبرون وزیر خزانہ جناب ڈار کو دیکھ کر کم از کم اب تو یقین کرلینا چاہیے کہ ڈارون بالکل ہی غلط نہیں تھا۔ حضرتِ ڈار کچھ ہوں نہ ہوں ڈارون سے ضرور مشابہت رکھتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے ایشیاءکے نمبرون وزیرخزانہ کا ایوارڈ پانے کے بعد اگر انہیں صرف ڈار ….ون لکھا جائے تو قاری ڈارون ہی پڑھے گا۔ صکوک بانڈ کے عوض پاکستان کے حساس اورا ربوں ڈالر کی جائیداد گروی رکھنے کے بعد بندرانہ شان سے چھلانگ لگاتے ہوئے گزشتہ جمعہ کو اپنے ایک فرمان میں بتادیا کہ پاکستان اسٹیل،پی آئی اے ا ور ریلوے سمیت درجنوں ایسے ادارے ہیں جنہیں اسی رواں مالی سال میں صرف اس لیے فروخت کرنا ہوگا کہ اب انہیں مزید رواں رکھنا ہمارے قرض خواہوں اور خود قوم کے مفاد میں نہیں۔ حضرت ڈار نے ان حساس اور اہم اداروں کے خسارے میں چونکہ عوام کے بجائے قوم کا لفظ استعمال کیا ہے تو لوگ ڈارون کی تھیوری کی طرح اس پر بھی اعتماد کے لیے تیار نہیں اور کسی حد تک یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ قوم سے مراد ان کی اپنی قوم یعنی نون لیگ کے مفاد کا معاملہ ہے جو عرصہ دراز سے ان پبلک سیکٹر اداروں کو نجکاری کی آڑ میں ذاتی ملکیت میں لینے کے لیے بے چین ہے۔عوام اس سوال کا تشفی بخش جواب مانگنے میں پوری طرح حق بجانب ہیں کہ یہ نج کاری ہے یا ان اداروں کے ساتھ کاروکاری؟وہ میاں صاحبان اور ان کا خاندان جس کا پانامہ پیپرز کے جواب میں یہ کہنا ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں ان کے ایک کارخانے جو محض فاﺅنڈری (ڈھلائی گھر )تھی چھین کر انہیں کنگال کردیا تھا تو کسی سرمایہ کے بغیر انہوں نے سعودی عرب سمیت کئی ملکوں میں فولاد سازی کے متعدد کارخانے لگالیے تھے اور چند برسوں میں اتنا پیسہ کمایا کہ اندرون وبیرون ملک ارب پتیوں میں شمار ہونے لگے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز جیسے عظیم کارخانے پر ان کا جادو نہیں چلتا کہ وہ اس آ ہنی بیمار کو صرف صحت یاب ہی کرسکیں؟بیمار کو مردار قرار دے کر اسے گورکنوں کے حوالے کردینے کے سوال کا جواب عوام کو درکار ہے مگر ڈار تیار نہیں ان کی بس ایک ہی رٹ ہے کہ مریض کو مزید گولیوں اور ٹیکوں کی ضرورت نہیں اسے جلد سے جلد مردہ خانے پہنچانے کی ضرورت ہے۔
ڈار۔۔۔ون کے خاندان کی حریصانہ نظریں قومی فضائی کمپنی پر بھی لگی ہوئی ہیںسمدھی کی سمدھیانے کو بطور جہیز یہ ادارہ دینے کی عجلت شائد اس لیے بھی ہے کہ نجومیوں اور دست شناسوں نے انہیں بتادیا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنے اقتدار کی آخری اننگ کھیل رہے ہیں جس کے بعد انہیں پاکستان سے باہر ہی اپنا ٹھکانہ ڈھونڈنا ہوگا ملکی سیاست میں اگر ان کا کوئی کردار ہوا بھی تو جونیجو یا فنکشنل لیگ یا زیادہ سے زیادہ شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ جیسا ہی ہوگا۔زورِ خطابت میں حضرت ڈار پی آئی اے کی اس خصوصی سروس کو بھی بھول گئے جو گزشتہ ماہ پی آئی اے پلس کے نام سے شروع کی تھی اور سرکاری اشتہارات کے ذریعے اس کی کامیابی کا اتنا ڈھول پیٹا گیا کہ لگتا تھا دنیا بھر کے فضائی مسافروں کی اولین پسند اور ترجیح پی آئی اے پلس ہی ہے۔ ملائیشین ایئرلائن سے بھاری کرایہ پر حاصل کردہ محض تین طیاروں کا یہ فضائی بیڑا جس کا روٹ بھی انگلستان سے پاکستان تک تھا اب کہاں اُڑ رہا ہے اس میں کون اُڑ رہا ہے اور اُڑ بھی رہا ہے یا نہیں؟ سب داستان فراموش ہوچکی ہے۔ بالفرض مان بھی لیا جائے، کہ پی آئی اے محض کرائے کے تین طیاروں سے پلس اور منافع بخش ہوسکتا ہے تو درجنوں طیاروں کا ذاتی بیڑا کیوں خسارے میں ہے اُس کا بیڑا غرق کون اور کیوں کر رہا ہے؟ کہ اُسے بیچنے کی نوبت آرہی ہے؟ ملین ڈالر کے اس سوال کا شافی جواب ایشیاءکے نمبرون وزیرخزانہ کے پاس نہیں۔ چنانچہ خبریوں کی یہ اطلاع کسی حد تک سچ قرار پاتی ہے کہ نجکاری کے ذریعے پی آئی اے کی فروخت میں اصل خریدار ڈار کا سمدھیانہ ہے جو کسی آف شور کمپنی کے ذریعے اصل شناخت چھپاکر پاکستان اسٹیل ملز اور پی آئی اے خریدنے کا برسوں سے خواہشمند ہے۔ شنیدتو یہ بھی ہے کہ عالمی مارکیٹ میں زائد شرح منافع اور قیمتی اثاثوں کی بنیاد پر فروخت ہونے والے صکوک بانڈ کے اصل خریدار بھی یہی گھرانے ہیں جو ڈاری معیشت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے انسان سے بندر کی جون اختیار کرکے ڈارون تھیوری کو سچ ثابت کررہے ہیں۔