میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شام بحران‘عالمی امن کیلئے خطرے کی گھنٹی!

شام بحران‘عالمی امن کیلئے خطرے کی گھنٹی!

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۵ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

امریکی مداخلت سے خانہ جنگی کی آگ مزید بھڑک اٹھی…. پُر تشدد کارروائیوں سے انفراسٹرکچر تباہ‘ 3 لاکھ افراد خانہ جنگی کی بھینٹ چڑھ چکے
محبوب احمد
شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مارچ2011ءمیں شروع ہونے والے پر امن احتجاج نے آج پوری دنیا کے امن کو داو¿ پر لگا دیا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس تنازعہ میں جہاں 3 لاکھ سے زائد افراد اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔وہیں نصف سے زائد شامی آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔انسانی تہذیب و ثقافت کے مراکز اور تیل و گیس کی قدرتی دولت سے مالا مال کچھ ممالک سامراجی لوٹ مار کی ہوس کے ہاتھوں تاراج ہوتا جا رہا ہے۔عراق کے بعد شام ہی وہ خطہ ہے جہاں تاریخ اسلام کے آثار سب سے زیادہ ہیں جن میں پیغمبران علیہ السلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور مشا ہیر اسلام کے مزارات بھی ہیں۔لیکن شام میں خانہ جنگی کی بھڑکتی آگ کے باعث ملت اسلامیہ کے مقدس مقامات اور تاریخی آثار بھی شدید خطرات کی لپیٹ میں ہیں۔خانہ جنگی کی بھڑکتی آگ سے جہاں شام کا انفراسٹرکچر تباہ ہوا ہے،اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ بدامنی کی موجودہ صورتحال نے شام ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں قیام امن کے لیے کی جانیوالی کوششوں کو داو¿ پر لگا دیا ہے۔مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو موجودہ سطح تک لانے میں جہاں اسلام دشمن عناصر کی کارروائیاں شامل حال ہیں، وہیں بعض عرب ممالک کے کردار سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔روز اول سے ہی امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی نظریں مشرق وسطیٰ کے قدرتی وسائل پر جمی ہوئی ہیں،یہی وجہ ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے خدشات اور تحفظات کا جواز بنا کر ان ممالک کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں کی کارروائیاں روز کا معمول بنی ہوئی ہیں اور اب ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد دہشت گردی کیخلاف جاری امریکا کی نام نہاد جنگ نے جب سے نئی کروٹ لی ہے تب سے عراق ،شام ،مصر اور دیگر ممالک کے حالات اس قدر د گرگوں ہو چکے ہیں کہ پناہ گزین مجبور ہو کر اپنی جان داو¿ پر لگا کر محفوظ مستقبل کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں اور قابل غور امر یہ ہے کہ امریکا کی مداخلت سے شام کے حالات مزید خراب ہوتے چلے جا رہے ہیں،خصوصاًامریکی صدر کے پناہ گزینوں کے حوالے سے نسل پرستانہ اقدامات سے امن اقدامات کو شدید دھچکا لگا ہے۔
امریکا اور یورپ نے حال ہی میں امیگریشن قوانین میں جو تبدییلوں کا فیصلہ کیا ہے۔اس سے بھی پناہ گزینوں کی مشکلات بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔دنیا بھر میں شام کو مقتل گاہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور اس قسم کا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ شام کے اندر موجود شامی فورسز عوام پر ظلم و ستم کر رہی ہیں لیکن دراصل شام کو جو لوگ مقتل بنا رہے ہیں یا بنانا چاہتے ہیں ان میں سرفہرست امریکا،اسرائیل، اور وہ مسلم اتحادی ممالک ہیں جو دراصل امریکی ایما پر ماضی میں بھی القاعدہ نامی امریکی برانڈ دہشت گرد تنظیم کی سر پرستی کرتے رہے ہیں۔اور آج بھی کررہے ہیں۔حلب شمالی شام کا ایک بارونق اور ہنستا بستا شہر تھا جو شام کا اقتصادی مرکز اور سیاحوں میں بے حد مقبول تھا، لیکن خانہ جنگی،امریکا اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے مسلط کی گئی جنگ کی وجہ سے اب یہ کھنڈر بن چکا ہے۔مشرقی حلب کے کئی مقامات پہلے کیسے تھے اور اب کس حال میں ہیں یہ لمحہ¿ فکریہ سے کم نہیں ہے۔امریکا کی طرف سے حال ہی میں شامی فضائیہ کے ایک اڈے پر جو کروز میزائل داغے گئے تھے اسرائیل سمیت تقریباًسبھی امریکی اتحادی ممالک نے واشنگٹن کے اس اقدام کی حمایت کی جبکہ روس اور ایران نے ان حملوں کی شدید مذمت کی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق یہ حملے شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر شامی باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں کئے گئے ،یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شام کے معاملے پر اپنے پیشرو باراک اوباما سے مختلف پالیسی اختیار کرنے کا متعدد با ر اعلان بھی کرچکے ہیں،تاہم ان حملوں کو امریکی صدر ٹرمپ کی شام سے متعلق پالیسی میں ایک ڈرامائی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے،یہاں یہ سوال بھی زبان زد عام ہے کہ یہ اقدامات امریکا کی ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری تھے۔
یاد رہے کہ جس وقت امریکی بحری جہاز سے شام پر یہ میزائل داغے جا رہے تھے اس وقت صدر ٹرمپ ایک عشائیے کے دوران چینی صدر شی جن پنگ کی میزبانی کررہے تھے۔امریکا سمیت پوری مغربی دنیا شام میں زہریلی گیس کے حالیہ خونریز حملے کے لیے شامی فوج کو موردالزام ٹھہرا رہی ہے لیکن روس کا بدستور اسد حکومت کی فوج کا دفاع کرتے ہوئے یہی کہنا ہے کہ ماسکو حکومت بدستور اسد حکومت کی حمایت کرتی رہے گی،اس روسی مو¿قف کے بعد ماسکو اور ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان اب تک کے غالباً سب سے بڑے سفارتی تنازعے کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
روس پہلے بھی شامی حکومت اور فوج کے خلاف مذمتی قراردادوں کو ویٹو کر چکا ہے۔روس اور چین شامی صدر بشارالاسد کے سب سے اہم حامیوں میں سے ہیں،یادرہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزام میں شام پر عالمی پابندیاں عائد کرنے کے حوالے سے روس اور چین نے ہی اقوام متحدہ میں پیش کردہ قراردادیں متعدد مرتبہ ویٹو کی ہیں۔قابل غور یہ بھی ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے تنقید کے باوجود روس اور چین شام کو اسلحے کی فراہمی بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
لہٰذا شامی صدر اسد بھی اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ان کی حکومت کی بقاءشام میں روسی اور چینی مفادات کو برقرار رکھنے میں ہی ہے۔امریکا اور اسرائیل سمیت یورپی ممالک نے جس فتنے کو مضبوط کیا ہے،وہی فتنہ دراصل انہی ممالک کے لیے اب خطرے کا باعث بن چکا ہے۔کیونکہ دہشت گردوں کے سرپرست یہ ممالک اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اگر یہ دہشت گر د آزاد رہے تو بالٓاخر ایک کے بعد ایک کا نمبر آنا شروع ہو جائے گا۔اور اس کی واضح مثال وہ پہلے ہی عراق اور افغانستان میں دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح ان کے ہی پیدا کردہ گروہوں نے ان کی مخالفت کی تھی۔شام میں جاری خانہ جنگی کا اگر فوری حل نہ نکالا گیا تو اس کے بدترین اثرات سے خطے کا کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہے گا۔اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ خاموش تماشائی بننے کے بجائے ایسے اقدامات کرے کہ جن سے امن کا قیام یقینی ہوسکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں