میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بیوروکریسی کی منہ زوری۔۔۔وزیر اعظم کے400احکامات ردی کی ٹوکری کی نذر

بیوروکریسی کی منہ زوری۔۔۔وزیر اعظم کے400احکامات ردی کی ٹوکری کی نذر

منتظم
جمعرات, ۲۴ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ہمارے بیوروکریٹس نے ہمارے معصوم سے صدر مملکت کی جانب سے جاری کئے گئے احکامات میں سے ایک کے سوا کسی کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھا
تحریر:ایچ اے نقوی
بیوروکریسی عرف عام میں جسے افسر شاہی یانوکر شاہی کہاجاتاہے ،کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہے، جس ملک میں بیوروکریسی ایماندار اورخدا ترس ہو اس ملک میں عوام کو کم مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے ،لیکن جہاں بیوروکریسی میں آنے کا مقصد ہی نوٹ کمانا اور جاگیریں کھڑی کرنا ہو وہاں عوام کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہوتا اور حکومت کی جانب سے عوام کی بہبود کے لیے جاری کردہ احکامات بھی طاق نسیاں کے سپرد کرکے صرف ان کاموں پر توجہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے جہاں سے کچھ آمدنی کی توقع ہو۔
بیوروکریسی کی اہمیت کے پیش نظر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان سے قبل اس وقت کی غیر منقسم برصغیر کی بیوروکریسی پر یہ واضح کردیاتھا کہ نئی مملکت پاکستان میں بیوروکریسی کو عوام کے خادم کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنا اور حکومت وقت کے احکامات کی تعمیل کرنا ہوگا اور اگر کسی کے ذہن میں اس کے سوا کوئی اور تصور ہے تواسے پاکستان کو آپشن میں نہیں رکھنا چاہئے۔لیکن جس طرح قائد اعظم اور ان کے دست راست شہید ملت لیاقت علی خان کی آنکھ بند ہوتے ہی بانی پاکستان کے دیگر تمام فرمودات اور احکامات کو طاق نسیاںکے سپرد کردیاگیا ۔اسی طرح بیوروکریسی نے بھی بتدریج اپنے ہاتھ پیر پھیلانا شروع کردئے اور عوام کے خادم بننے کے بجائے عوام بلکہ عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے بھی حاکم بن بیٹھے اور اب صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے اور بیوروکریسی اس قدر منہ زور ہوچکی ہے کہ اب قومی اسمبلی میں واضح اکثریت رکھنے والے ملک کے منتخب وزیر اعظم کے احکامات پر بھی عمل کرنے میں اپنی مرضی کرتے نظر آتے ہیں۔اس کا ثبوت کیبنٹ ڈویژن کی جانب سے گزشتہ روز جاری کی گئی رپورٹ ہے ، کیبنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ ہماری بیوروکریسی نے وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے جاری کردہ کم وبیش 400احکامات پر عملدرآمد کرنا ضروری نہیں سمجھا یعنی وزیر اعظم کی جانب سے جاری کردہ ان احکامات کو طاق نسیاں کے حوالے کرکے گویا ردی کی ٹوکری کی نذرکردیا۔یہی نہیں بلکہ ہمارے بیوروکریٹس نے ہمارے معصوم سے صدر مملکت کی جانب سے جاری کئے گئے احکامات میں سے ایک کے سوا کسی کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھا اورصدر مملکت کے ایک کے سوا کسی پر بھی حکم پر عملدرآمدنہیں کیاگیا، اور جس ایک حکم پر عمل کیاگیا شاید وہ بیوروکریسی کے اپنے مفاد ہی میں رہاہو۔
دوسری جانب بعض مبصرین کاخیال یہ ہے کہ فی الوقت پاکستان کی بیوروکریسی یہ محسوس کررہی ہے کہ بدلتے ہوئے سیاسی منظر اورمختلف حلقوں کی جانب سے احتساب کے مطالبات اور عدالتوں کی جانب سے حقیقی معنوں میں احتساب کاسلسلہ شروع ہوجانے کے امکان کے پیش نظر اس کے پیروںکے نیچے سے زمین کھسک رہی ہے اور وہ وقت جلد آنے والا جب ان کو حقیقی معنوں میں عوام کے خادم کی حیثیت سے کام کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا اس لیے وہ اپنی اہمیت کا احساس دلانے کی کوشش کررہے ہیں ،دراصل وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں اور عوام کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ان کی قسمت کے مالک ان کے منتخب نمائندے نہیں بلکہ وہ ہیں اس لیے عوام کو اپنے منتخب نمائندوں کے بجائے اپنے مسائل کے حل کے لیے براہ راست ان سے رابطہ کرنا چاہئے۔
اصل حقیقت کیا ہے اس کااندازہ تو وقت آنے پر ہی لگایاجاسکے گا لیکن یہ حقیقت ضرور ہے کہ جب سے کاروبار حکومت میں بیوروکریسی کاکردار کم کرنے کی مہم شروع کی گئی ہے اور خاص طورپر بڑے اقتصادی اور معاشی منصوبوں کی منظوری اور معاہدوں کی توثیق کا عمل براہ راست ارباب حکومت نے انجام دینا شروع کیا ہے، بیوروکریسی میں ایک کھلبلی سی پائی جاتی ہے ، خاص طور پرکاروباری حلقوں سے رابطے ٹوٹ جانے کے خدشات نے ان کو فکر مند کردیا ہے کیونکہ جب کاروباری حلقوں سے ان کے رابطے کمزور ہوں گے تو ان کے لیے ماورائے قانون دولت اکٹھا کرنا بہت مشکل ہوجائے گا اور اگرٹیکس کی رقوم براہ راست سرکاری خزانے میں جمع ہونے کاچلن عام ہوگیا تو ایک طرف عوام کی سہولتوں اور انھیں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے فنڈز کی کابہانہ نہیں کیاجاسکے گا اور دوسری جانب عوام کو بروقت سہولتوں کی فراہمی میں ناکامی یا ان سہولتوں کی فراہمی کے ناقص انتظامات کی صورت میں انھیں کٹہرے میں کھڑا ہونے پر مجبور کیاجاسکے گا۔لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی بیوروکریسی پر ایسا وقت آنے میں بہت وقت درکار ہے کیونکہ جب تک خود ہمارے حکمراں کرپشن سے پاک نہیں ہوجاتے اس وقت تک وہ بیوروکریسی کو لگام ڈالنے اور ان کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کاخطرہ بھی نہیں مول لے سکتے کیونکہ سیاستداںان بظاہر منہ زور بیوروکریٹس کے ذریعہ ہی کرپشن کرتے ہیں اور چونکہ یہ بیوروکریٹس ان کی کرپشن چھپانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اس لیے منتخب وزیر اعظم بھی ان کی غلط کاریوں پر چشم پوشی میں ہی عافیت تصور کرتے ہیں، بصورت دیگر کسی بیوروکریٹ کی یہ ہمت اور جرات کیسے ہوسکتی ہے کہ وہ منتخب وزیر اعظم اور صدر کے احکامات کو بھی ردی کی ٹوکری کی نذر کردیںاور قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت رکھنے والا وزیر اعظم اس پر خاموشی اختیار کئے رکھے۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ بیوروکریٹس کو غلط راہ پر لگانے اور ان کو اس قدر منہ زور بنانے کے ذمہ دار ہمارے وہی منتخب حکمران ہیں جو اپنے احکامات کو ردی کی ٹوکری کی نذر کرنے والے بیوروکریٹس سے جواب تک طلب کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔
ہمارے خیال میںضرورت اس امر کی ہے کہ بیوروکریسی کو کمزور کرنے اور بیوروکریٹس کو کرپشن کاموقع دے کر ان کی کرپشن کی بنیاد پر انھیں اپنے ذاتی ملازم کی حیثیت سے کام پر مجبور کرنے کے بجائے بیوروکریسی کو آئین اور قانون کے تحت اپنے اختیارات کا بروقت اور منصفانہ استعمال کا موقع دیاجانا چاہئے ، کیونکہ ایک منتخب جمہوری حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو اقتدار اور اختیارات کی منتقلی کے لیے بھی موثر ،فعال اور ایماندار بیوروکریسی کا وجود از حد ضروری ہے ،تاہم یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب تک منتخب ارکان بیوروکریٹس کو اپنی کرپشن چھپانے کے لیے استعمال کرتے رہیں گے اور اپنی کرپشن چھپانے کے انعام کے طورپر انھیں کرپشن کی چھوٹ دینے کاسلسلہ بند نہیں ہوگا ہماری بیوروکریسی کی نہ تو یہ منہ زوری ختم ہوگی اور نہ کرپشن۔ لیکن کیا ہمارے حکمراں خود کو کرپشن سے پاک رکھنے پر تیارہوں گے؟یہ ایسا سوال ہے جس کے مثبت یا منفی جواب میں ہی بیوروکریسی اور عوام کی مستقبل کی حیثیت کا تعین ہوسکے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں