جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام پر اتفاق مگر مستقبل بحران کے اندیشوں میں
شیئر کریں
جسٹس یحییٰ آفریدی کے تقرر کے بعد جسٹس منصور علی شاہ کو سنیارٹی کی بنیاد پر سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بننے سے روکنے کا حکومتی خواب پورا ہوگیا،اس طرح اب ارباب حکومت کا خیال ہے کہ فارم 45 کا معاملہ دفن ہوگیا اور اب یہ باب نہیں کھلے گا اور اگر کھلے گا تو بھی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا ۔ لیکن یہ ایسا خیال ہے جس کا شرمندۂ تعبیر ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آرہاہے اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے سابقہ ریکارڈ سے کہیں بھی یہ ظاہرنہیں ہوتا کہ وہ انصاف کو چھوڑ کر کسی خاص فرد یا جماعت کو فائدہ پہنچانے یا کسی جماعت کو دبانے کی کوششوں کا ساتھ دیں گے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے نکات پر سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے لے کر منظوری تک تقریباً2 ماہ کے عرصے میں سیاستدانوں کی ملاقاتیں، تجاویز، اختلافات، پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل، مسودے، روٹھنا منانا یہ سب کچھ شہ سرخیوں میں زیر بحث رہا۔ تاہم اب ترمیم کی منظوری اور نئے چیف جسٹس کے تقرر کے فیصلے کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ اس تمام تر عمل سے حکومت اور اپوزیشن جماعتیں سیاسی طور پر کیا حاصل کر سکی ہیں۔26ویں آئینی ترمیم پر حکومتی جماعت مسلم لیگ ن بھی کریڈٹ لے رہی ہے مگر اگر اس کی جانب سے آئینی ترمیم کے ابتدائی مسودے اس کی منظوری تک کے حتمی مسودے کا جائزہ لیا جائے تو حکومت کو کئی نکات پر سمجھوتہ کرنے کیلئے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد حکومت کیا اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگئی ہے؟ اس سوال پر ابھی تجزیہ کاروں کی ملی جلی رائے ہے۔آئینی عدالت کے مطالبے سے آئینی بینچ کے نکتہ پر اکتفا کرنے میں حکومت کو اپنی سوچ میں کتنی تبدیلی لانا پڑی؟ اس سوال کے جواب میں یہ کہاجاسکتاہے کہ ‘حکومت کو کچھ ججز سے متعلق تحفظات تھے اور واضح طورپر یہ لگ رہا تھا کہ وہ منصور علی شاہ کو چیف جسٹس نہیں بنانا چاہتی۔ اب اس ترمیم کے بعد حکومت کو یہ فائدہ ہو گا کہ جن ججز پر وہ تحریک انصاف کی حمایت کرنے کا الزام لگاتے تھے اب ان میں سے وہ نکل جائیں گے۔ پارلیمانی تاریخ میں کوئی تاخیر یا جلدی کی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ اہم بات یہ ہوتی ہے کہ حاصل کیا ہوا اور یہی اہم ہوتا ہے ،اس ترمیم کی منظوری کے ذریعے حکومت وہ سب کچھ حاصل نہیں کرسکی جو وہ چاہتی تھی،اوراس پوری مشق کے نتیجے میں آئی سی جے جیسی عالمی تنظیم کی جانب سے مذمت کا سامنا الگ کرنا پڑا۔حکومت جو چاہ رہی تھی اورجس کی شروع میں اسے توقع تھی وہ سب کچھ تو اسے نہ مل سکا ۔ مگر کم از کم اس کی خواہش کہ سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس کی تعیناتی میں اس کا ایک کردار ہو اس میں وہ کامیاب ہو گئی ہے۔ ارباب حکومت اب اپنی صریح ناکامی کو چھپانے کیلئے آئینی ترمیم کی منظوری ہی کو حکومت کے بنیادی مقاصد کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق ‘حکومت کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کی تعیناتی پارلیمان کے ذریعے ہو۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ آئینی معاملات کو سیاسی اور عمومی معاملات سے علیحدہ رکھا جائے۔ جب عدلیہ میں معاملات جائیں تو آئین کے نام پر کوئی سیاسی کھلواڑ نہ ہو سکے تو حکومت کے بنیادی مقاصد تو پورے ہو گئے ،تاہم اس تمام صورتحال میں مسلم لیگ ن کو سب سے زیادہ سمجھوتہ کرنا پڑا ہے۔ اگر ہم مسلم لیگ کی جانب سے اس مسودے کے ابتدائی مسودے کو دیکھیں تو اس میں اور منظور کئے گئے بل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ حکومت اپنے تیار کردہ ترمیمی بل کا نصف بھی منظور کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن کچھ نہ کچھ حاصل کرنے میں کامیاب رہی جیسا کہ چیف جسٹس کی تعیناتی میں سنیارٹی کو ختم کر کے تین ناموں میں سے ایک کا انتخاب، آئینی بینچ کا بنانا اور سیاستدانوں یا پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل۔اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن اور ساتھ ہی ساتھ پیپلز پارٹی نے اس ترمیم سے بھی اپنے ہدف کسی حد تک حاصل کیے ہیں۔
پارلیمانی امور اور پاکستانی سیاست پر نظر رکھنے والے بیشتر تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی تیاری سے منظوری تک کے تمام عرصے میں جو شخصیت سیاسی طور پر سب سے نمایاں اور اہم دکھائی دی وہ بلاشبہ جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی تھی۔ جے یو آئی کی فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں صرف 8 اور سینیٹ میں 5 نشستیں ہیں۔ مگر اس آئینی ترمیم کے مسودے کی تیاری کے دوران فضل الرحمان نہ صرف سیاستدانوں میں ‘ہاٹ فیورٹ’ دکھائی دیے بلکہ میڈیا پر بھی ان کی ملاقاتوں، بیانات اور معاملہ فہمی سب سے زیادہ زیر بحث رہی۔ مولانا فضل الرحمان نے آئینی ترمیم کے مسودے کی تیاری کے دوران موقع کا فائدہ کیسے اٹھایا؟ اس سوال کے جواب میں یہی کہاجاسکتاہے کہ انھوں نے ذہانت اور ہوشیاری کے ساتھ اپنے کارڈز کھیلے اور اس پورے عرصے میں انھوں نے پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر پورا موقع دیا کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔ اس طرح مولانا فضل الرحمان کا کردار قومی اسمبلی میں اپنی8 نشستوں کے ساتھ قائد حزب اختلاف کا رہا جبکہ 90 نشستوں والی جماعت ایک طرح سے بے اختیار نظر آئی۔ مولانا فضل الرحمان کے مرکز نگاہ ہونے پر توسب متفق دکھائی دیتے ہیں تاہم بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آخر میں تو مولانا فضل الرحمان کے پاس بھی کوئی آپشن نہیں تھا۔مولانا فضل الرحمان میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے اور لوگ ان کے پاس آتے بھی رہے لیکن آخر میں ان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اگر ان کے لوگ ووٹ نہیں بھی دیں گے تب بھی حکومت ترمیم منظور کرا لے گی۔ تو ان کے پاس پھر آخر میں کوئی آپشن نہیں رہا تھا۔ مولانا فضل الرحمان جو کافی عرصے سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں گویا کنارے پر دکھائی دے رہے تھے انھوں نے اس سارے عمل میں خود کو دوبارہ فعال کرکے اپنی حیثیت منوانے کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب رہے انھوں نے یہ ثابت کیا کہ قومی اسمبلی میں آٹھ نشستوں کے ساتھ وہ کس طرح پاکستان کے جمہوری نظام میں تمام توجہ کا مرکز اور محور بن گئے۔انھوں نے دو چیزیں حاصل کیں جن میں سے ایک واضح نظر آ رہی ہے اور دوسری ابھی اوجھل ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے اپنے سیاسی وزن کو استعمال کر کے آئینی ترمیم کا مسودہ اپنی مرضی کے مطابق بنوایا اور دو بڑی جماعتوں کو مجبور کیا کہ وہ ان کی وکٹ پر آ کر کھیلیں اس سے نہ صرف ایک بار پھر ان کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہوا بلکہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ میں ان کا اپر ہینڈ ہوگیا ہے۔ دوسری چیز جو ابھی نظر نہیں آ رہی وہ ،وہ سیاسی فائدے ہیں جنھوں نے ابھی کوئی واضح شکل اختیار نہیں کی۔ یہ ممکن نہیں کہ مولانا اتنا کچھ کریں اور پھر اپنا دامن جھاڑ کر واپس چلیں جائیں وہ کچھ نہ کچھ ساتھ لے کر جائیں گے۔اطلاعات کے مطابق حکومت کی جانب سے انھیں عندیہ دے دیا گیا تھا کہ اگر مزید تعطل ڈالا گیا تو ترمیم ان کے بغیر بھی منظور کرا لی جائے گی جس کے بعد انھوں نے اپنا وزن بہت زیادہ نہیں ڈالا۔ دوسری جانب پاکستانی پارلیمان کی کارکردگی پر نظر رکھنے والے حلقوں کا کہناہے کہ مولانا فضل الرحمان کے آئینی ترمیم میں کردار کو آئندہ انتخابات میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے سے جوڑا جاسکتا ہے۔ اس سارے عمل میں مولانا فضل الرحمان نے آئینی ترامیم کی تراش خراش اس طرح کی ہے کہ حکومت کو اس سے بہت زیادہ فائدہ بھی نہیں لینے دیا اور اسے باقی جماعتوں کے لیے بھی قابل قبول بنا دیا ہے۔ ان حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اگر عمران خان اس کو ویٹو نہ کرتے تو ممکن تھا کہ پی ٹی آئی بھی اس کی حمایت کر دیتی۔ اس صورت حال میں مولانا فضل الرحمان اپنے آپ کو ایک مدبر سیاستداں کے طورپر پیش کیا ہے جس سے ان کا سیاسی امیج بہتر ہواہے اور اگلے انتخابات میں مولانا کی جماعت کو زیادہ نشستیں ملنے کا قوی امکان ہے۔پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول زرداری بھی 26ویں آئینی ترمیم کے مسودے سے منظوری تک کے عمل کا کریڈٹ لیتے دکھائی دیے مگر بلاول کے طرز عمل میں برد بادی کا فقدان صاف نظر آرہاتھا جس کی وجہ سے ان کی ساکھ بہتر ہونے کے بجائے اور خراب ہوئی اور پیپلز پارٹی اس سے کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہیں کر سکی۔یہ درست ہے کہ اس سارے عمل کے دوران میں پیپلز پارٹی اور جے یوآئی ف دونوں نے خوب نام کمایا ہے لیکن پیپلز پارٹی کی جانب سے بلاول کو اچھی سیاسی سوجھ کا حامل سیاستداں بناکر پیش کرنے کے حوالے سے اپنے ہمنوا ٹی وی چینلز اور اینکر ز کی خدمات کے باوجود بلاول زرداری کے لڑکپن اور اناڑی پن کی وجہ سے وہ کوئی اچھی امیج قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور لوگوں میں یہ تاثر پیدانہیں ہوسکا کہ بلاول اگلے وزیر اعظم کے طورپر ملک کو کوئی اچھی قیادت فراہم کرسکتے ہیں ۔ 2024کے انتخابات میں بھی انھیں وہ عروج نہیں ملا ،ان کے والد محترم جس کی آس لگائے ہوئے تھے ۔ اس سارے معاملے میں پاکستان تحریک انصاف مشاورت اور ملاقاتوں میں توجہ کا مرکز رہی لیکن تجزیہ کاروں کے نزدیک پی ٹی آئی سیاسی طور پر وہ حاصل نہ کر سکی جس کو وہ پا سکتی تھی اپنی سیاسی اور پارلیمانی طاقت کو استعمال کرنے میں پی ٹی آئی ناکام نظر آئی ہے۔ تجزیہ کار اس بات پر بڑی حد تک متفق نظر آتے ہیں کہ آئینی ترمیم کی منظوری سے جو انقلابی مزاج عدلیہ کے اندر بنتا دکھائی دے رہا تھا وہ تھم جائے گا۔تاہم اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ26 ا؍کتوبر کو جب قاضی فائز عیسیٰ ، سپریم کورٹ میں موجود نہیں ہوں گے اور جسٹس یحییٰ آفریدی بطور ‘‘چیف جسٹس’’ اپنے پہلے دن کا آغاز کریں گے تو کیا قدم اُٹھائیں گے، اُن کا سامنا سب سے پہلے اُس آئینی ترمیم سے ہوگا جس کے نتیجے میں وہ چیف جسٹس بنے اور وہ آئینی ترمیم اُن سے آئینی معاملات بشمول مذکورہ ترمیم تک کو جانچنے کا اختیار واپس لے چکی ہوگی۔ یہ معاملہ زیادہ گھمبیر نظر آتا ہے جب وکلاء احتجاج کا عندیہ دے رہے ہوں اور پھر پاکستان بار کونسل کے انتخابات کا وہ مرحلہ بھی درپیش ہے جس میں یقینی طور پر حکومت کے حمایت یافتہ گروپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس مجموعی تناظر میں ابھی 26ویں آئینی ترمیم پر بحران اور شکوک کے سائے موجود ہیں۔