میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تیندوے سے ڈرتاہوا بڈھا شیر

تیندوے سے ڈرتاہوا بڈھا شیر

جرات ڈیسک
منگل, ۲۴ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

مسلم لیگ ن کی جانب سے نواز شریف کو پاکستان کا نجات دہندہ ثابت کرنے اور نواز شریف کے جلسے میں شرکت کرنے والوں کو جنت کا ٹکٹ دینے کے خوشنما بیانات اور انواع واقسام کے کھانوں کی ڈشیں بھی لوگوں کی بڑی تعداد کو مینار پاکستان پر لانے میں ناکام رہی اور مسلم لیگ ن کی جانب سے ایک بڑا شو کرنے کی آرزو دل ہی میں دبی رہ گئی،عام طورپر یہ خیال کیا جارہاتھا کہ نواز شریف 4 سال وطن واپسی پر کوئی ایسا انقلابی لائحہ عمل پیش کریں گے جو اس ملک کے عوام کو ایک دفعہ پھر مسلم لیگ ن کی طرف دیکھنے پر مجبور کردے گا،اور ان کے مخالفین خاص طورپر تحریک انصاف جس کی مقبولیت عمران خان کے داخل زنداں ہونے کے باوجود کم ہونے میں نہیں آرہی زمین پر آجائے گی،لیکن ایسا معلوم ہوتاہے کہ جن طاقتوں کے ساتھ مبینہ ڈیل کے ذریعہ وہ واپس تشریف لائے ہیں ان کے پر کچھ زیادہ ہی کتر دیے ہیں، مقتدر قوتوں کے ساتھ ان کی مبینہ ڈیل کا تاثران کو عدلیہ کی جانب سے دی جانے والی غیر معمولی بلکہ حیرت انگیز رعایت سے مزید قوی ہوگیاہے کیونکہ دنیا کے کسی ملک میں اگرچہ وہ تیسری دنیا کا کوئی گرا پڑا ملک ہی کیوں نہ ہو کسی سزا یافتہ قیدی کو یہ سب کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہوگی۔ ساری دنیا حیرانی سے یہ منظر دیکھ رہی ہوگی اور سوچ رہی ہوگی کہ یہ بھی کیا ملک ہے یہاں کیا کیا عجوبے وقوع پزیر ہوتے ہیں جن کا دنیا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ ایک عجوبہ عدالتوں کا نوازشریف کو وطن واپسی پر حفاظتی ضمانت کا ریلیف فراہم کرنا ہے۔ احتساب عدالت اور عدالت عالیہ کے ججوں میں سے کسی نے اس پہلو پر سوچنے کو اہمیت نہیں دی کہ جس شخص کی حفاظتی ضمانت کی درخواست ان کی خدمت میں پیش کی گئی ہے۔ وہ 4ہفتوں میں واپسی کا عہد نامہ دے کر گیا تھا جس کی اس نے صریحاً خلاف ورزی کی ہے۔ جو شخص 4 ہفتوں کا چکمہ دے کر گیا اور 4 سال واپس نہ آیا کیا وہ کسی خصوصی رعایت کا مستحق ہوسکتاہے؟ یہ بھی معزز عدالتوں کے معزز ججوں نے نہیں سوچا کہ کیا یہ شخص اپنے ماضی کے ریکارڈ کی وجہ سے حال یا مستقبل کے لئے کسی قسم کے مزید استحقاق کی درخواست کرنے کا روادار ہوسکتا ہے؟ نواز شریف کی بدعہدی ہی اتنا بڑا جرم تھا جس کے پیش نظر عدالت حفاظتی ضمانت کی درخواست مسترد کر سکتی تھی لیکن عدالت نے ایسا نہیں کیا۔ جس طرح نواز شریف جاتے ہوئے خصوصی سلوک کے مستحق سمجھے گئے ویسے ہی ان کی وطن واپسی پر بھی انہیں عدالتوں کی جانب سے خصوصی رعایت دی گئی۔ظاہر ہے اس طرح کی رعایت اس ملک میں اس سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی،اس لئے قانون داں طبقے کی جانب سے اس پر سوال اٹھنا فطری بات ہے،اس کے علاوہ نواز شریف کو جس طرح اپنی اس پھس پھسی اور بے مزا تقریر کے درمیان میں اپنی تقریر کا مسودہ تبدیل کرنا پڑا اس سے بھی ڈیل کے تاثر کو تقویت ملی۔مینار پاکستان کے جلسے میں نواز شریف اس بڈھے شیر کی مانند نظر آرہے تھے جو اب تیندوے سے بھی ڈر رہاہو، جس کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ نواز شریف نے انتخابات کرانے سے متعلق اپنی تقریر میں کچھ نہیں کہا اور نہ ہی کسی سیاسی مفاہمت کا ذکر کیا۔
نواز شریف اپنی پھس پھسی اور بے مزا تقریر کے بعد بوجھل دل کے ساتھ اب جاتی امرا میں آرام کررہے ہیں کیونکہ بقول معروف افسانہ نگار رام لعل کے جو مزا اپنی دھرتی کی زمین پر سونے میں آتا ہے وہ کسی مرصع تخت پر سونے میں بھی نہیں آتا،نواز شریف کی آمد کے بعد اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ نواز شریف واپس آئے ہیں تو مستقبل کا سیاسی نقشہ کیا ہو گا۔اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل کے سیاسی نقشے میں جمہوری و سیاسی استحکام بھی موجود ہو گا؟فی الوقت تو لگتا ہے کہ ہوائیں اور فضائیں نواز شریف کے حق میں ہو چکی ہیں اورنئی سیاسی بساط بچھ چکی ہے،نواز شریف کی دھواں دار واپسی سے منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے الیکشن سے پہلے ہی یہ نقارہ بجا یا جارہا ہے کہ اگلے وزیراعظم نواز شریف ہوں گے۔یہ مستقبل کا ایک خاکہ ہے جس میں رنگ بھرنے کے تمام انتظامات گویا کر لئے گئے ہیں،لیکن اب معاملات کیسے آگے بڑھیں گے،آنے والے دِنوں میں شاید اِس راز کی گرہیں بھی کھلیں گی،پھر معلوم ہوگا کہ کیا سب کچھ اُس پلان یا منصوبے کے مطابق ہو جائے گا جومقتدر حلقوں نے سوچا ہے؟ نواز شریف کی واپسی پر ایک بھرپور سیاسی شو کے لئے مسلم لیگ (ن) نے جتنا زور لگایا ہے اُس سے تو یہی لگتا ہے کہ اُسے یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ اس شو کو کامیاب وہ بنائے باقی معاملات خودبخود سیدھے ہو جائیں گے،لیکن مسلم لیگ ن اپنی تمام تر کوششوں کو حسب مطلب کامیاب نہیں بنا سکی جس کے معنی یہ ہیں کہ ڈرامے کی ابتدا ہی غلط ہوگئی۔
نواز شریف کا پاکستان واپس آنابظاہر ایک ناممکن بات نظر آتی تھی۔وہ خود بھی پاکستان واپسی کے ہر سوال پر صرف مسکرا کر رہ جاتے تھے۔سزاؤں اور مقدمات کا پہاڑ اُن کی راہ میں دیوار بنا ہوا تھا۔اُن کا مذاق اڑایا جاتا تھا کہ گرفتاری کے خوف سے واپس نہیں آ رہے۔پھر حالات بدلتے گئے، پانسہ پلٹتا چلا گیا۔وہ رکاوٹیں جو پہاڑ جیسی نظر آتی تھیں، تنکوں کی طرح اُڑتی چلی گئیں۔ نواز شریف ایک امتحان سے گزر کر آئے ہیں اور ان کا ایک امتحان اب شروع ہو گا۔ن کا اصل امتحان یہ ہے کہ کیا وہ ملک میں سیاسی ہم آہنگی اور استحکام لا سکیں گے؟سیاسی حوالے سے ملک میں اِس وقت ایک کشیدہ فضا موجود ہے۔تحریک انصاف تو پہلے ہی یہ سمجھتی ہے کہ اسے دیوار سے لگا دیا گیا ہے وہ تو یہ الزام بھی دیتی ہے کہ نواز شریف اس شرط کے بعد وطن واپس آئے ہیں کہ عمران خان کو جیل میں رکھا جائے گا۔ انتخابات میں تحریک انصاف کو کھلے طور پر حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی، دوسری طرف پیپلزپارٹی ہے،اُس کے تحفظات بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔بلاول زرداری مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو نوازا جا رہا ہے۔ظاہر ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کا یہ اعتراض مزید شدت اختیار کرے گا۔ نواز شریف اگر اس صورتحال سے لاتعلق ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اقتدار میں آنے کا موقع مل رہا ہے تو کسی اور بکھیڑے میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے،تو آج نہیں تو آگے چل کر اُن کیلئے اسی قسم کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے جس سے وہ پہلے بھی گزر چکے ہیں۔نواز شریف ایک امتحان سے نکلے ہیں تو دوسرا امتحان شروع ہو چکا ہے وہ سیاسی طور پر ملک میں ٹھہراؤ پیدا کرنے کیلئے کیا کرتے ہیں، سب کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہیں۔آج مہنگائی، بے روزگاری اور بدحالی نواز شریف کے لئے چیلنج بنی ہوئی ہے۔ مہنگے کرایوں، ناقابل برداشت پٹرول کی قیمتیں، کاروباری مواقع کی کمی اور ان کی نوعیت میں تبدیلی، خوشحالی کا فقدان، گراوٹ کی شکار کاروباری سرگرمیاں اور معاشرے میں ایک دوسرے کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور تفریق آج کے بڑے چیلنج ہیں۔ نواز شریف سمیت جو کوئی بھی عوامی مینڈیٹ کا چمپیئن بنتا ہے اس کیلئے عوامی ریلیف کا پروگرام دے کر اپنے آپ کو قیادت کا اہل ثابت کرنا پڑے گا۔ ہر ایک
چاہتا ہے کہ ملک میں برسراقتدارآنے والی قیادت صحت،ا سکول، صفائی ستھرائی، قاعدہ قانون، معافی نامے، سیاسی کارکنوں کی رہائی، اور معاشرتی برداشت کی داعی ہو۔ خاص طور پر حقیقی انصاف کی فراہمی کا آغاز تو پاکستان تحریک انصاف سے کیا جانا چاہئے تاکہ عوام کا ملکی قیادت اور اداروں پر اعتماد بحال ہو سکے۔ عوام کی بھاری اکثریت اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے کہ نوازشریف معاشی طور پر تباہ حال ملک اور ان کے باسیوں کی حالت زار کو ٹھیک کرسکیں گے۔ان کے بارے میں ان کا چھوٹا بھائی شہباز شریف اس ملک کا ناکام ترین وزیراعظم ثابت ہوا ہے،لیکن وہ اب بھی عوام کو یہی تاثر دینے کی کوشش کررہاہے کہ عوام کے سماجی اور سیاسی حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔ عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ یہ ایک قسم کی لولی پاپ ہے۔ اگر نوازشریف میں ملک کے حالات بدلنے کے سلسلے میں اتنی ذہانت ہوتی تو وہ اپنے بھائی کی حکومت کو ایسے مشورے دیتے کہ جو حقیقی معنوں میں ملک کے مفاد میں سود مند ثابت ہوتے لیکن ایسا نہیں ہوا حالانکہ وہ لندن سے بیٹھ کر شہباز شریف کی حکومت چلارہے تھے۔ اور اس کے ساتھ وہ ”لندن پلان“ کے تحت ایسے کارنامے انجام دینے والے تھے جوکہ فی الوقت پورے نہیں ہوسکے،وطن واپسی پر اپنی پہلی تقریر میں نوا زشریف نیمہنگائی کے خاتمہ کے حوالے سے کوئی روڈ میپ نہیں دیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ملک مقبول بیانیہ سے نہیں چلے گا۔نواز شریف کا فوکس یہی تھا کہ ملک کے حالات کو بہتر کرنے کیلئے آگے بڑھنا ہے۔ ڈالر نیچے لانا، مہنگائی نیچے لانا، لیکن اتنا تو انھیں خود بھی معلوم ہوگا کہ ان باتوں پر عمل نہیں ہوسکتا، نہ ہی ہو پائے گا مگر وہ عوام سے ضرور یہ باتیں کررہے تھے۔ نواز شریف نے کوئی معاشی پلان نہیں دیا کہ وہ کس طریقے سے یہ سارے کام کریں گے جن کے وہ یہ وعدے کررہے ہیں۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا نواز شریف اپنے ووٹر اور سپورٹرز کو یہ یقین دلا پائیں گے کہ وہ عمرا ن خان کے مقابلے میں بہتر متبادل ہیں۔ وہ واقعی ملک کو مسائل سے نکال سکتے ہیں۔ اس وقت نوا زشریف کی واپسی سیاست کے عروج پر نہیں ہوئی۔ وہ 2017 تک کی ہی بات کررہے تھے۔پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے۔ معیشت کی بحالی کیلئے روڈ میپ دینا ہوگا موجودہ صورت حال میں فضل الرحمن کا یہ بیان حقیقت کے قریب تر ہے کہ ملک کے موجودہ حالات کو فردواحد پر نہیں چھوڑا جاسکتا ہے۔ ان کا بھی اشارہ نوازشریف کی طرف تھا جن کے ساتھ ان کے بڑے گہرے مراسم رہے ہیں لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ سیاستدانوں کے درمیان محبت، یکجہتی اور یگانگت کون پیدا کرے گا؟ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک دوسرے کے خلاف جو نازیبا کلمات ادا کئے ہیں، ان کا ازالہ کون کرے گا اور کس طرح ہوسکے گا؟ عوام یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت نادیدہ قوتوں نے اپنی محبتوں کے تمام پھول نوازشریف کے سر پہ سجادیئے ہیں حالانکہ یہ وہی نوازشریف ہیں جنہوں نے ”مجھے کیوں نکالا“ کے دوران ارباب اختیار پرجس قسم کا گند اچھالا تھا، اسے فراموش نہیں کیاجاسکتا،اب ایک ایسے شخص سے جو اقتدارسے محرومی کی صورت میں خود اپنے محسنوں کے خلاف الزام تراشی شروع کردے یہ امید رکھناکہ یہ شخص پاکستان کے جملہ مسائل حل کرکے پاکستان کو ایک جنت نظیر ملک بنادے گا۔ ایک امیدموہوم ہے جس کی بنیاد ریت کے ڈھیرپر رکھی جارہی ہے۔ہمارے خیال میں ملک میں شفاف انتخابات کرادیئے جاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ٹھیک ایک ایسی پارٹی ابھر کر وجود میں آسکتی ہے جس کوعوام کی حمایت حاصل ہوسکے گی جو بعد میں ملک اورعوام کیمسائل حل کرنے کیلئے پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ کام کرسکے گی۔ شفاف آزاد اور غیر جانبدارانتخابات کے انعقاد میں ہی ملک کے مسائل کا حل موجود ہے۔اگر اس ضمن میں ٹال مٹول سے کام لیا گیا تو حالات کے
مزیدخراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہاں یہ بات بھی مد نظر رکھی جانی چاہیے کہ مسلم لیگ(ن) کی تمام ترجیحات اب پنجاب کے چند علاقوں تک محدود ہوگئی ہیں اب یہ ایک ملک گیرپارٹی نہیں رہی ہے لیکن اگراس کو”انتخابی دھاندلی“ کے ذریعے ملک گیر پارٹی بنانے کی کوشش کی گئی تو یہ حکمت عملی ملک کے مفاد میں نہیں ہوگی اور نہ ہی اس طرح عوام کادل جیتاجاسکتاہے۔ عوام شخصیت پرستی کے سحر سے نکل کر اپنے دیرینہ مسائل کا حل چاہتے ہیں اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتاہے جب لیڈرکو خود پراورعوام کو لیڈر پر مکمل اعتماد ہو۔ عوام اب ایسے لیڈر دیکھنا چاہتے ہیں جوماضی کی کارکردگی کاڈھنڈورا پیٹنے کی بجائے مستقبل میں عوام کیلئے بہتری لانے کے حقیقی اقدامات کااعلان کرے ورنہ تبدیلی کے وعدے تو الیکشن سے پہلے تمام ہی لیڈر کرتے ہیں لیکن ان وعدوں کے نتیجے میں آج تک نہ تو تبدیلی آئی اور نہ ہی عوام کے معاشی وسماجی حالات بدل سکے چنانچہ اب عوام کے حالات بدلنے اور ملک کو مستحکم بنانے کیلئے آزاد شفاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات کا ہی صرف ایک راستہ۔ اگر اس سے گریز کیا گیا تو پھر بندگلی اور اندھیرا ہم سب کا مقدر بن جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں