میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وزیر اعظم کے اہل خانہ کا احتساب‘کبھی ’’کارنامہ ‘‘ کبھی ’’سازش‘‘ قرار دینے کی کوشش کیوں ؟؟

وزیر اعظم کے اہل خانہ کا احتساب‘کبھی ’’کارنامہ ‘‘ کبھی ’’سازش‘‘ قرار دینے کی کوشش کیوں ؟؟

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۳ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیر اعظم کے بچوں کے پاس کون سا جادوئی چراغ ہے کہ بھٹو اور پھر مشرف دور میں قلاش ہونے کے باوجود کروڑ پتی بن گئے

میاں محمد نواز شریف کی اولاد نے جو جائیدادیں بنائیں اور کاروبار وسیع کیا، اس میں انہوں نے اپنے والدکے نام اور رسوخ کا استعمال کیا
ایچ اے نقوی
گزشتہ ہفتے جے آئی ٹی میں پیشی اور تقریباً 3 گھنٹوں کی پوچھ گچھ کے بعد جوڈیشل اکیڈمی کے باہر حسین نواز اور حمزہ شہباز کے ہمراہ میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ ‘میں جے آئی ٹی کے سامنے اپنا مؤقف پیش کرکے آیا ہوں، میرے تمام اثاثوں کی تفصیلات متعلقہ اداروں کے پاس پہلے سے موجود ہیں، میں نے آج پھر تمام دستاویزات جے آئی ٹی کو دے دی ہیں’۔وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ‘آج کا دن آئین اور قانون کی سربلندی کے حوالے سے سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے’۔وزیراعظم نے دعویٰ کیا میں اور میرا پورا خاندان اس جے آئی ٹی اور عدالت میں سرخرو ہوں گے’، ساتھ ہی انھوں نے سوال کیا کہ ‘ملک میں کوئی ایسا خاندان ہے جس کی تین نسلوں کا حساب ہوا ہو؟وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی نواز شریف کی جے آئی ٹی میںپیشی کو ایک تاریخی واقعہ قراردینے کی کوشش کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر نئی تاریخ رقم کی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جے آئی ٹی کے سامنے پیشی نواز شریف کاکوئی کارنامہ نہیں ہے، کیونکہ جب جرم کاکھرا ان تک پہنچے گا تو انھیںپوچھ گچھ کیلئے پیش توہوناہی پڑے گااس پیشی پر تو انھیں شرمندہ ہونا چاہئے تھا نہ کہ سینہ ٹھونک کراسے بھی انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اپناکارنامہ انجام دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
پاکستان کے عوام وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے چھوٹے میاںشہباز شریف سے یہ پوچھنے میں یہ حق بجانب ہیں کہ اس میں تاریخ رقم کرنے والی کون سی بات ہے،اگر وزیر اعظم نوازشریف کے دور حکومت میں ان کی اولاد راتوں رات کروڑ پتی بن سکتی ہے تو پاکستان کے عوام کیایہ پوچھنے میں حق بجانب نہیں ہیں کہ ان کے پاس ایسا کون سا جادوئی چراغ تھا جس سے بقول ان کے بھٹو کی جانب سے قلاش کردیے جانے کے بعد ان کاہربچہ کروڑ پتی کیسے بن گیا۔ وزیر اعظم نواز شریف کاکہنا ہے کہ ان کے والد نے کاروبار کیا، وہی کاروبار اب بچے کر رہے ہیں،انھوں نے یہ بھی کہاتھا کہ بھٹو دور میں ان کی اتفاق فائونڈری کو قومی ملکیت میں لئے جانے کے بعد وہ قلاش ہوچکے تھے،پھر ضیاالحق کی مہربانیوں سے وہ بام عروج پر پہنچے لیکن پرویز مشرف کے دور میں وہ ایک دفعہ پھر قلاش ہوگئے لیکن اس کے باوجود ان کی دولت میں اضافہ کیسے ہوتاگیااور ان کے بچے امیر سے امیر تر کیسے ہوتے چلے گئے لیکن عوام کی نمائندگی کرنے اور اپنے دامن کو صاف ستھرا قرار دیتے نہ تھکنے والے نواز شریف ان سے صرف یہ سوال کرنے پر کہ ان کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی اور یہ دولت پھر ملک سے باہر کس طرح گئی اپنی توہین تصور کررہے ہیں،نواز شریف الحمداللہ پکے سچے مسلمان ہونے کے دعویدار بھی ہیں اور اقتدار کے دوران رمضان کا آخری عشرہ خانہ خدا میں گزارنا ان کا معمول ہے ،اس لئے انھوں نے یقینا اسلامی تاریخ بھی پڑھی ہوگی اور اسلامی تاریخ کی مثالیں ان کے سامنے ہوں گی ۔ حضرت عمرؓ کے بیٹے حضرت عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے کچھ اونٹ خریدے اور انہیں سرکاری چراگاہ میں بھیج دیا، وہ موٹے ہو گئے تو انہیں بازار میں فروخت کے لیے لایا، اتفاق سے اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا، انہوں نے پوچھا کہ ایسے فربہ اونٹ کس کے ہیں؟ میں نے جواب دیا میرے ہیںتو پوچھا کہ یہ اتنے موٹے تازے کس طرح ہو گئے۔ میں نے کہا کہ میں نے انہیںسرکاری چراگاہ میں بھیج دیا تھا تا کہ جو فائدہ دوسرے مسلمان اٹھاتے ہیں ، میں بھی اٹھائوں ۔ یہ سن کر آپ کو سخت غصہ آیا کہ عام مسلمانوں کا ذکر کیوں کرتے ہو، یہ کہو کہ امیر المومنین کے بیٹے کے اونٹ تھے، اس لیے حکومت کی چراگاہ میں بھیج دئیے۔ سنو! اونٹ فروخت کرو، راس المال رکھ لو اور سارا منافع بیت المال میں جمع کرادو۔
ناقدین کے مطابق اس میںکوئی شک نہیںکہ میاں محمد نواز شریف کی اولاد نے جو جائیدادیں بنائیں اور کاروبار وسیع کیا، اس میں انہوں نے اپنے والدکے نام اور رسوخ کا استعمال کیا۔ اگر وزیر اعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق جے آئی ٹی میں بلایا گیا تو اسے سازش کیسے کہا جائے گا؟ اس پیشی سے وزیر اعظم کی توہین کا پہلو کیسے نکلتا ہے؟ ممتاز قانون دان شریف الدین پیرزادہ کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ انہوں نے قائد اعظم کے ساتھ برسوں کام کیا اور تحریک پاکستان کی ایک مستند تاریخ مرتب کی۔ وہ کئی حکومتوںاور حکمرانوں کے رازدان رہے۔ انہوں نے اپنی آپ بیتی میں لکھا تھا ’’بدقسمتی سے جنرل ضیا الحق کو ٹھیک طور پر نہیں سمجھا گیا لیکن وہ ایک بڑے لیڈر تھے جنہوں نے مسلم حکمرانوں کے ساتھ اچھے مراسم قائم کیے۔ میرا خیال ہے کہ اگرانتخابات ہو جاتے اور وہ زندہ رہتے تو ہمارے ہاں جمہوریت کو بڑا استحکام نصیب ہوتا اور یہ جو ہمارے ہاں دس برسوں میں چار بار اسمبلیاں ٹوٹیں اور قبل ازوقت انتخابات کرانے پڑے اور بھارت میں3 سال میں تین انتخابات ہوئے، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا، اصل گڑ بڑ یہ ہوئی کہ چیک اینڈ بیلنس کا نظام ختم کردیا گیا۔
قبل ازیں نواز شریف کی حکومتیں اپنی میعاد پوری نہ کر سکیں۔ موجودہ دور میں بھی بڑی مشکل سے 4سال مکمل کر پائے ہیں۔ایک سال بعد ہی جب عمران خان نے دھرنا دیا اور طاہرالقادری بھی ان کے ساتھ شامل تھے تو نواز شریف نے حسرت سے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ’’ابھی تو ہماری حکومت کو ایک سال ہی ہوا ہے۔ کم از کم 2-3 سال تو گزارنے دیتے‘‘ ان کی خوش بختی کہ2-3 سال کے بجائے 4 سال گزار چکے ہیں۔ آئندہ کا دارومدار سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہے۔
نواز شریف اور ان کے حواری ٹی وی چینلز پر بڑے فخر سے عدلیہ کے احترام کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں لیکن کیا وہ اس حقیقت سے انکار کریں گے اوران کے ان دعووں سے لوگ یہ بھلادیں گے کہ سپریم کورٹ پر کس طرح حملہ کیا گیا اور اس حملے کے ذمہ دار کون لوگ تھے۔ بی بی سی نے اس کی فلم بھی دکھائی تھی جس میں چند وزرااور حکومتی پارٹی کے ارکان حملہ آوروں کی قیادت کر رہے تھے۔ اس حملے کا منظر سپریم کورٹ کے احاطے میں نصب کیمروں نے بھی محفوظ کیا۔ بعد ازاں حملہ آوروں کو لنچ کے لیے پنجاب ہائوس لے جایا گیا۔ اس لیے اگرآج کرپشن کی تحقیقات ہو رہی ہے توعوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اسے سازش کیوں ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟؟
اونٹ امیر المومنین کے بیٹے کا ۔۔یا عام مسلمان کا ؟؟
حضرت عمرؓ کے بیٹے حضرت عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے کچھ اونٹ خریدے اور انہیں سرکاری چراگاہ میں بھیج دیا، وہ موٹے ہو گئے تو انہیں بازار میں فروخت کے لیے لایا، اتفاق سے اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا، انہوں نے پوچھا کہ ایسے فربہ اونٹ کس کے ہیں؟ میں نے جواب دیا میرے ہیںتو پوچھا کہ یہ اتنے موٹے تازے کس طرح ہو گئے۔ میں نے کہا کہ میں نے انہیںسرکاری چراگاہ میں بھیج دیا تھا تا کہ جو فائدہ دوسرے مسلمان اٹھاتے ہیں ، میں بھی اٹھائوں ۔ یہ سن کر آپ کو سخت غصہ آیا کہ عام مسلمانوں کا ذکر کیوں کرتے ہو، یہ کہو کہ امیر المومنین کے بیٹے کے اونٹ تھے، اس لیے حکومت کی چراگاہ میں بھیج دئیے۔ سنو! اونٹ فروخت کرو، راس المال رکھ لو اور سارا منافع بیت المال میں جمع کرادو۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں