میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارت میں تاریخی مسجد و درگاہ مسمار

بھارت میں تاریخی مسجد و درگاہ مسمار

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۳ فروری ۲۰۲۵

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

بھارت میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کوئی نئی بات نہیں، اسی سلسلے کی کڑی میںصدیوں سے قائم گجرات میں مسجد اور قبرستان سمیت ایک مزار کو بھی مسمار کردیا گیا۔ گجرات کی انتظامیہ نے نام نہاد ‘انسداد تجاوزات مہم’ کا نام دے کر مسجد اور مزار کو مسمار کرنے کا عمل شروع کیا اور اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوگئی۔انتظامیہ نے مسجد کو مسمار کرنے کیلئے بھاری مشینری کا استعمال کیا جس میں 70 ٹریکٹرز اور 10 ڈمپر شامل تھے جبکہ اس دوران بھارتی پولیس کے 1400 اہلکار بھی موجود تھے۔واقعے کے خلاف مسلمانوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا،تاہم انتظامیہ نے 70 سے مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔اس سے قبل ایک اور واقعے میں بھارتی ریاست آسام میں 28 مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر حراستی کیمپ منتقل کر دیا گیا۔ آسام کے ضلع بارپیٹا میں 28 افراد (19 مرد اور 9 خواتین) کو ان کے گھروں اور خاندانوں سے کاٹ کر اچانک ”غیر ملکی” قرار دے دیا گیا ہے۔بنگالی مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مذکورہ افراد کو دستاویزات پر دستخط کرنے کے بہانے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے دفتر میں طلب کیا گیا تھا، لیکن انھیں بس میں بٹھا کر 50 کلومیٹر دور گول پاڑہ ضلع کے بدنام زمانہ مٹیا ٹرانزٹ کیمپ لے جایا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت کی کئی ریاستوں میں مسلمانوں کے گھروں، دکانوں اور عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کے متعلق رپورٹیں جاری کی ہیں۔ اور بھارتی حکام سے مسلمانوں کی املاک کی "غیر قانونی” مسماری کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ایمنسٹی کے مطابق مذہبی تشدد یا حکومت کی تفریقی پالیسیوں کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کے بعد "سزا” کے طورپر ان کی املاک مسمار کی گئیں۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم نے املاک کی مسماری کو ماورائے عدالت سزا کی ایک شکل قراردیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ تمام متاثرین کو مناسب معاوضہ دیا جائے کیونکہ مودی حکومت کے اس اقدام نے سینکڑوں لوگوں کو، جن میں بیشتر مسلمان ہیں، بے گھر اور ان کا ذریعہ معاش تباہ کردیا ہے۔
ایمنسٹی نے جے سی بی تعمیراتی سازو سامان تیار کرنے والی کمپنی سے بھی مطالبہ کیاہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے اپنی مشینوں کے استعمال کی عوامی مذمت کریں۔ اسی کمپنی کے بلڈوزر”بطور سزا” املاک کو مسمار کرنے میں بڑے پیمانے پر استعمال کیے گئے ہیں۔ صرف تین ماہ یعنی اپریل سے جون 2024کے درمیان کم ا ز کم 128 املاک کو مسمار کیے جانے کی دستاویز بندی کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کی وجہ سے کم از کم 617 لوگ یا تو بے گھر ہوگئے یا ان کا ذریعہ معاش تباہ ہو گیا۔عظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی، جس پر مسلم مخالف بیان بازی کا الزام لگایا جاتا ہے، کی ان پانچ میں سے چار میں حکومت ہے۔
حقائق معلوم کرنے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت بھر میں جاری مسلم دشمن مہم کے ایک حصے کے طور پرصرف ریاست گجرات کے قصبے بیٹ دوارکا میں حکام نے مسلمانوں کی 525جائیدادوں کو مسمار کر دیا ہے۔ ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس(اے پی سی آر)کی جاری کردہ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ مسمار کیے گئے زیادہ تر مکانات مسلمان ماہی گیروں کے تھے۔ رپورٹ میں ایسی مثالوں کا حوالہ دیاگیا ہے جہاں ہندوئوںنے درگاہوں کو بلڈوز کئے جانے سمیت مسلمانوں کے مذہبی مقامات کی تباہی کا جشن منایا اور نعرے لگائے۔چونکانے والی بات یہ ہے کہ منہدم کیے گئے مکانات میں سے 52سرکاری ہائوسنگ اسکیم” پردھان منتری گرامین آواس یوجنا ”کے تحت بنائے گئے تھے۔ رہائشیوںکی طرف سے سرکاری اہلکاروں کو ان کے قانونی دستاویزات دکھانے کے باوجود حکام نے انہیں نظر انداز کیا اور کاغذات پھاڑ ڈالے۔ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے جس میں اے پی سی آر اورپیپلز یونین فار سول لبرٹیز (پی یو سی ایل)کے نمائندے اور سماجی کارکن شامل تھے، 18 جنوری کو متاثرہ علاقے کا دورہ کیا۔ مکینوں نے بتایا کہ نوٹس موصول ہونے کے صرف دو دن کے اندر ان کے گھروں کو مسمار کر دیا گیا جسکی وجہ سے وہ وہاں سے چلے گئے۔ انہیں اپنے سامان کو بچانے کے لئے کوئی وقت نہیں دیا گیا۔کچھ مکانوں کو نوٹس جاری ہونے کے ایک دن بعد ہی مسمار کر دیا گیا۔ایک بے گھر خاتون نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہم یہاں 30سال سے مقیم ہیں، پھر بھی حکومت نے بغیر کسی معاوضے کے ہمارے گھر کو مسمار کردیا۔ اب ہم بے گھر ہیں، عارضی خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں سوائے مقامی خیر خواہوں کے اور کوئی سہارا نہیں۔ ایک اور بزرگ نے جو کئی دہائیوں سے ٹیکس اور بجلی کے بل ادا کر رہے تھے، ریاست کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ اگر ہم سرکاری زمین پر تھے تو ہمیں یہاں 50سال رہنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ حکومت نے متبادل فراہم کیے بغیر ہمارے گھروں کو تباہ کر دیا ہے جس سے ہمارے بچے بے گھر ہو گئے ہیں۔
انہدام کی اس مہم سے تعلیم بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے، تقریبا 400 بچے اپنے گھروں اور اسکولوں تک رسائی سے محروم ہو گئے ہیں۔ انہدام سے پہلے ہی پانی کی قلت سے دوچار رہنے والے یہ لوگ اب پینے کے پانی سے مکمل طور پر محروم ہو چکے ہیں۔اے پی سی آر کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ انہدام کی یہ مہم ایک راہداری اور ایک سیاحتی کمپلیکس کی تعمیرکے لیے راستہ ہموارکرنے کے لیے چلائی گئی تھی جس میں مندر تک جانے والی ایک وسیع سڑک بھی شامل ہے۔ رپورٹ میں حکومت پر تفرقہ انگیز ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا الزام لگاتے ہوئے کہاگیاکہ ریاست آئینی حقوق کو برقرار رکھنے کے بجائے اکثریتی ثقافت کا تحفظ اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلارہی ہے۔مسماری کی یہ مہم بھارت کے سیکولر تانے بانے اور ہم آہنگی کی روایات پر براہ راست حملہ ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں