میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سیلاب سے تباہ حال بلوچستان میں ایک اور سانحہ

سیلاب سے تباہ حال بلوچستان میں ایک اور سانحہ

ویب ڈیسک
جمعه, ۵ اگست ۲۰۲۲

شیئر کریں

بلوچستان میں جون میں مون سون بارشوں کے پہلے اسپیل کے بعد جولائی میں دوسرے اور تیسرے اسپیل کے ساتھ سیلاب کی آفت نے صوبے کے غالب حصے کو تہہ و بالا کردیا، یہاں تک کہ اس آفت نے کور کمانڈر 12 لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کو بھی 6 افسران سمیت نگل لیا۔یکم اگست کو جب وزیراعظم میاں شہباز شریف وفاقی وزراء کے ہمراہ کوئٹہ، ضلع چمن اور قلعہ سیف اللہ کے دورے پر تھے، عین اسی دن لیفٹیننٹ جنرل سرفراز بھی ضلع لسبیلہ کے دورے پر تھے، سیلاب و بارشوں سے ہونے والے جانی مالی نقصانات بحالی اور امدادی سرگرمیوںسے متعلق کمشنر قلات ڈویڑن محمد دائود خلجی اور دوسرے متعلقہ سول و فورسز حکام نے بریفنگ دی، کور کمانڈر نے خصوصاً پاک فوج کی جانب سے متاثرین کی بحالی اور ریلیف کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا، فوج کے جوان یقیناً صوبہ بھر میں سول انتظامیہ کے ساتھ امدادی اور ریلیف سرگرمیوں میں ہمہ وقت لگے ہیں۔جنرل سرفراز علی کے ہمراہ ڈی جی کوسٹ گارڈ میجر جنرل امجد حنیف ستی اور کمانڈر انجینئر 12 کور بریگیڈیئر محمد خالد بھی موجود تھے، یکم اگست کو 5 بجے آرمی افسران کے دو ہیلی کاپٹروں نے اوتھل سے کراچی کی جانب اڑان بھری، جسے ایک گھنٹہ میں کراچی پہنچنا تھا، ایک ہیلی کاپٹر منزل پر پہنچ گیا، جنرل سرفراز نے جاتے جاتے حب ڈیم کے معائنہ کا فیصلہ کیا تھا، یوں ان کے ہیلی کاپٹر کا رابطہ منقطع ہوا، ہیلی کاپٹر لسبیلہ کے علاقے وندر اور حب کے درمیان حادثے کا شکار ہوا۔ہیلی کاپٹر کی گمشدگی کی اطلاع ملنے پر پاک فوج کا فضائی سرچ آپریشن شروع ہوا، زمینی راستے اول دشوار گزار ہیں، ساتھ بارشوں کی وجہ سے مزید استعمال کے قابل نہ تھے، فرنٹیئر کور، کوسٹ گارڈ، ضلع کی پولیس اور لیویز فورس جو مقامی افراد پر مشتمل تھی، نے شام ہی کو تلاش کا کام شروع کردیا تھا۔جنرل سرفراز علی کے ساتھ ڈی جی کوسٹ گارڈ میجر جنرل حنیف ستی، کمانڈر انجینئر 12 کور بریگیڈیئر محمد خالد، پائلٹ میجر سعید احمد، معاون پائلٹ میجر محمد طلحہ منان اور کریو چیف نائیک مدثر فیاض بھی صوبے میں آفات کے دوران متاثرین کی امداد اور داد رسی کے فریضہ کے دوران خالق حقیقی سے جاملے۔ہیلی کاپٹر کا ملبہ اگلے روز 2 اگست کو لسبیلہ کے علاقے وندر میں گوٹھ موسیٰ بندیجہ کے مقام پر ملا۔
آئی ایس آر پی کے مطابق حادثہ موسم کی خرابی کی وجہ سے پیش آیا، یہ نقصان بہت بڑا ہے جس کی تلافی قطعی ناممکن ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی اور بریگیڈیئر محمد خالد کی نماز جنازہ کوئٹہ چھائونی میں ادا کی گئی، افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر باجوہ اور اعلیٰ فوجی حکام، قائمقام گورنر بلوچستان جان جمالی اور وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو شریک ہوئے، جس کے بعد میت راولپنڈی روانہ کی گئی، جہاں آرمی قبرستان ریس کورس گرائونڈ میں فوجی اعزاز کے ساتھ انہیں سپرد خاک کردیا گیا۔اس رنجیدگی کے ساتھ مون سون کی بارشوں کی ہولناکی اور وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کے دورہ بلوچستان پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں۔موسون بارشوں کی وجہ سے بلوچستان کا وسیع علاقہ متاثر ہوا ہے، جانی و مالی نقصانات ہوئے، 2 جولائی سے شروع ہونیوالی مسلسل بارشوں، دوسرے اور تیسرے شدید اسپیل نے صوبے کے 34 اضلاع میں سے 26 کو تہہ و بالا کردیا، ان میں بعض اضلاع جیسے لسبیلہ، جھل مگسی، قلعہ سیف اللہ، نوشکی، کچھی، پنجگور، قلات، پشین، ڑوب بشمول میٹرو پولیٹن کارپوریشن شدید متاثر ہوئے، جھل مگسی اور لسبیلہ پانی میں ڈوب گئے۔درماندہ بلوچستان کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہوگیا، کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی قومی شاہراہ این 25 نو مقامات پر پل اور سڑکیں ٹوٹنے کے باعث ایک ہفتہ تک بند رہی اور دونوں صوبوں کا زمینی رابطہ منقطع رہا، صوبے میں 700 کلومیٹر کے قریب سڑکیں بہہ گئیں، 16 پل ٹوٹ گئے، متعدد ڈیم اور حفاظتی پشتے پانی میں بہہ گئے، کوئٹہ کے مضافات میں کچ کے مقام پر بنایا گیا ڈیم بھی آخر کار پانی کا بہائو برداشت نہ کرسکا اور ٹوٹ گیا، نتیجتاً نواں کلی، سرہ غڑگئی اور چشمہ اچوزئی کے علاقے زیر آب آگئے، کئی مکانات منہدم ہوئے، قیمتی اشیاء سیلاب کی نذر ہوگئیں۔سیلابی ریلوں نے ضلع چاغی اور نوشکی میں ریلوے ٹریک کو اکھاڑ دیا، پاکستان اور ایران کو ملانے والے اس ٹریک کا 100 سے ڈیڑھ کلومیٹر حصے اور ایک بڑے پل کو نقصان پہنچا ہے، کئی مقامات پر پانی ریلوے لائن کے پختہ پشتوں، پلوں، بنکرز اور ریلوے لائن کو بہا کر لے گیا ہے، جس کی دوبارہ بحالی میں ایک ماہ سے زائد کا عرصہ لگ سکتا ہے۔بارشوں کے باعث کوئٹہ چمن سیکشن، جیکب آباد سبی سیکشن اور سبی ہرنائی سیکشن کو بھی مختلف مقامات پر نقصان پہنچا ہے، صوبہ بھر میں 150 سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، وسیع رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔
رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے تمام یعنی 34 اضلاع میں کھڑی فصلوں اور باغات کو نقصان پہنچا ہے، 2 لاکھ ایکڑ زرعی رقبہ شدید متاثر ہوا ہے، یہ ابتدائی تخمینہ ہے جبکہ بعد کی بارشوں اور سیلاب سے ہونیوالے نقصانات اس سے کئی زیادہ ہیں، 23 ہزار سے زائد مویشی ہلاک ہوئے، بلوچستان میں زراعت کے بعد گلہ بانی اہم ذریعہ معاش ہے، 14 ہزار کے قریب مکانات تباہ ہوئے ہیں، وبائیں پھیل چکی ہیں، اموات 170 تک پہنچ گئیں، بچھو اور سانپ کے ڈسنے کے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ ان نقصانات اور تباہی سے نبرد آزما ہونا صوبائی حکومت اور اس کی سرکاری مشنری کیلئے ممکن نہیں، وفاق اور دوسرے صوبوں اور عوام کی مدد آنا ضروری ہے، ملک کے عوام رفاعی تنظیموں کے ذریعے بحالی کے عمل میں حصہ ڈال سکتے ہیں، ان بارشوں نے صوبے کی حکومتوں اور سرکاری محکموں کی اہلیت و دیانت کا چہرہ نمایاں کردیا ہے۔آفات سے کرہ ارض کا کوئی بھی گوشہ محفوظ نہیں، مگر یہاں تباہی کی وجوہات میں بدعنوانیوں اور غفلت کا گہرا عمل دخل ہے، پانی ذخیرہ کرنے کے ڈیم، حفاظتی پشتے اور پل ناقص تعمیرات اور تکنیکی خامیوں کی بناء پر پانی کا بہائو برداشت نہیں کرسکے۔ کوئٹہ کے کچ ڈیم سے متعلق پہلے ہی محکمہ پی اینڈ ای نے تیکنیکی کمزوریوں کی نشاندہی کی تھی، جو در خور اعتنا نہ سمجھی گئی، چنانچہ اب بحالی کے آپریشن پر اخلاص کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
افسوسناک امر تو یہ ہے کہ صوبائی حکومت کے وزراء ، اسی طرح دوسرے اراکین اسمبلی اپنے اضلاع تک میں نہیں دیکھے گئے۔ ارکان کی غالب تعداد واجبی طور دکھائی دی۔ جام کمال خان فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد اپنے علاقے لسبیلہ میں دوروں پر ہیں، وہ یکم اگست کو کمانڈر 12 کور لیفٹیننٹ جنرل سرفراز کے ساتھ بھی اْوتھل میں رہے۔وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے 30 جولائی کو جھل مگسی کا دورہ کیا، بعد ازاں یکم اگست کو ضلع قلعہ سیف اللہ اور چمن گئے۔ کوئٹہ میں نواب اسلم رئیسانی کی رہائشگاہ ان کی والدہ کی وفات پر تعزیت کیلئے گئے، کوئٹہ چھاؤنی میں زیارت واقعے میں جاں بحق ہونیوالے کرنل لئیق کے گھر بھی جاکر اہل خانہ سے تعزیت کی۔ کوئٹہ ایئر پورٹ پر وزیراعظم کو سیلاب اور نقصانات کے بارے میں بریفنگ دی گئی، صوبے کی حکومت نے بھی امداد کا اعلان کر رکھا ہے جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے جاں بحق افراد کے ورثاء کو 10 لاکھ، تباہ شدہ گھر کی تعمیر کیلئے 5 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔وفاق اور صوبے کی جانب سے امدادی چیک کی تقسیم کے عمل کا آغاز بھی ہوچکا ہے، وزیراعظم متاثرین سے ملے، ان کی بات سنی اور داد رسی کی۔ ضرورت ہے کہ وفاقی حکومت متاثرین کی امداد اور انفرا اسٹرکچر کی بحالی کی مد میں فنڈز پر خود نگاہ رکھے، تاکہ اس کا مصرف ٹھیک ٹھیک ہو کیونکہ بدعنوانی کا قوی اندیشہ موجود ہے، صوبے کے اندر دیکھا یہ بھی گیا ہے اپنی نااہلی چھپانے کے لیے غیر ضروری اور سطحی اقدامات کر لئے جاتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے قلعہ سیف اللہ کے ڈپٹی کمشنر کی معطلی یا ایسی دوسری لاحاصل پھرتیاں اپنا قبلہ درست ظاہر کرنے کی کوشش ہے۔ حکومت کی خاتون ترجمان اسلام آباد میں بیٹھ کر پریس کانفرنسز کرتی ہیں۔غرض لازم ہے کہ اعلیٰ سطح پر تحقیقاتی عمل کا آغاز کیا جائے اور ان وزرائ، اراکین اسمبلی، ٹھیکیداروں اور متعلقہ محکموں کے مجاز افسران کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جائے، جن کی بدعنوانی نے عوام کو تباہی سے دو چار کیا، بڑے ڈیم کے ٹوٹنے سے بڑی مقدارمیں بارانی و سیلابی پانی ضائع ہوگیا ہے، ظاہر ہے کہ تعمیرات درکار معیار کے مطابق نہیں ہوئی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں