کراچی میں دہشت گردوں کومنظم نہ ہونے دیاجائے
شیئر کریں
کراچی میں رینجرز نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے دوران گزشتہ روز کالعدم تحریک طالبان کے دو دہشت گرد وں کو ہلاک کرکے ان کے قبضے سے دستی بم و دیگر اسلحہ و لٹریچر برآمدکرنے کا دعویٰ کیاہے جن میںپولیس سے چھینی رائفل کے علاوہ دیگر اسلحہ بھی شامل ہے۔
رینجرز کی اس کارروائی سے یہ ظاہرہوتاہے کہ رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پیہم کارروائیوں کے باوجود کالعدم تنظیمیں ہنوز کراچی کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے وزیر اعلیٰ سندھ کا یہ کہنا بالکل درست معلوم ہوتاہے کہ دہشت گرد دراصل پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوصلے پست کرنا چاہتے ہیں،اس سے قبل سندھ پولیس نے بھی اقرار کیا ہے کہ کالعدم تنظیمیں اب دوسرے ناموں سے یا نئی تنظیم بنا کر کارروائی کرتی ہیں۔ ان کا قلع قمع کرنا حکومت سندھ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اولین ذمہ داری ہونی چاہئے تاکہ کراچی کا امن برقرار رہے جو بڑے عرصہ بعد بحال ہوا ہے۔ یہ دہشت گرد اور ان کو پناہ دینے والے سہولت کار کسی رعایت کے مستحق نہیں۔اس حوالے سے یہ بات بھی مدنظر رکھی جانی چاہئے کہ پچھلے کچھ دنوں سے کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کا تعلق
ایم کیو ایم سے ثابت ہو رہا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے متحدہ لندن والے ایک بار پھر کراچی میں اپنی دھاک بٹھانے کے لیے اس شہر میں اپنے مخالف سیاسی کارکنوں کو راستے سے ہٹانے کے درپے ہیں۔ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے سیاسی و عوامی سطح پر خوف و ہراس پھیلا کر متحدہ لندن کے حامیوں کو سرگرم کیا جا رہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بغاوت و دیگر الزامات میں ملوث متحدہ لندن کے قائد کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے حکومت ہر ممکن اقدام کرے تاکہ اسے قانون کے شکنجے میں لایا جا سکے۔ اسی طرح جو لوگ پاکستان میں رہتے ہوئے متحدہ لندن والوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں ان کو بھی معاف نہ کیاجائے۔ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے اس کے پرچم کی توہین کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں، ان ملک دشمن عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹنا ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی میں اب دہشت گردوں کومنظم ہونے کاموقع نہ دیاجائے اور اس شہر کی بحال ہوتی ہوئی روشنیوں کو کسی صورت ماند نہ پڑنے دیاجائے ، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام اور اہلکاروں کویہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی ہوگی اور اس بات کااندازاہوگیاہوگاکہ ا س شہر کے لوگوں کی بھاری اکثریت امن کی خواہاں ہے اور کسی طور بھی دہشت گردوں اورامن دشمنوں کاآلۂ کار بننے یا ان کے ساتھ کسی طرح کی رعایت برتنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے اوررینجرز کسی خوف اور اندیشے کے بغیر دہشت گردوں ،ٹارگٹ کلرز اور امن دشمنوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کرسکتے ہیں ان کے اس عمل کی اس شہر کے لوگوں کی جانب سے پزیرائی تو کی جائے گی لیکن کسی بھی جانب سے کسی طرح کی مزاحمت کاانھیں قطعی سامنا نہیں کرنا ہوگا۔
امید کی جاتی ہے کہ رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے ادارے کراچی کے امن دوست عوام کی جانب سے ان پر کیے جانے والے اعتماد پر پورا اُترنے کی کوشش کریں گے اورعوام کے اس اعتماد کو بحال رکھتے ہوئے امن دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیاجائے گا۔
نصابی کتابوں سے اسلام ،پاکستان اورفوج سے
متعلق اسباق خارج کیے جانے کے الزامات
تحریک انصاف کی جانب سے گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں ایک تحریک پیش کی گئی ہے جس میں کہاگیا ہے کہ پنجاب ٹیکسٹ بورڈ نے نصابی کتب سے مبینہ طور پر اسلام، پاکستان اور فوج سے متعلق اسباق و تصاویر خارج کر دی ہیں۔ قرار داد میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پرائمری نصاب سے قائداعظم، مینار پاکستان اور 1965کی جنگ کے ہیرو میجر عزیز بھٹی کا مضمون نکال کر امریکی ہیرو اور ایک انگریز کنسلٹنٹ نکولسن کا نام شامل کر دیا گیا ہے۔ تحریک کے محرک کے اس دعوے پر ایم ڈی پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے وضاحت کی ہے کہ یہ مضامین دوسری کتابوں میں شامل کیے گئے ہیں۔ ایم ڈی نے الزام لگایا کہ کچھ مافیاز مطالبات منظور نہ ہونے پر غلط ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ ایم ڈی پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کی وضاحت نے معاملے کو متنازع بنا دیا ہے۔ تحریک کے محرک میاں محمود الرشید نے بعد میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے شبہ ظاہر کیا کہ نصاب سے اسلام، پاکستان اور فوج سے متعلق مضامین کا اخراج حکومت نے کسی کو خوش کرنے کے لیے کیا ہے۔ ممکن ہے کہ ان کا دعویٰ درست ہو لیکن کوئی پاکستانی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ امریکایا بھارت کو خوش کرنے کے لیے نصاب میں ایسی تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں جن سے نظریہ پاکستان پرزد پڑتی ہو۔ جنرل (ر) مشرف کے دور میں نصاب سے جہاد اور اس کے احکام کے بارے میں آیات و احادیث کو امریکا اور مغرب کی خوشنودی کے لیے نکال دیا گیا تھا، مگر اس پر عوامی حلقوں میں شدید رد عمل سامنے آیا تھا۔اس تناظر میں اگر پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ پر عائد کیے گئے الزامات درست ہیں تو حکومت کو فوراً اس معاملہ کی انکوائری کرانی چائیے کہ قائداعظم کی وارث ہونے کی داعی مسلم لیگ (ن) کے دور حکمرانی میں اتنا سنگین واقعہ کیسے ہو گیا؟ اگر نصاب میں واقعی ایسی تبدیلیاں ہوئی ہیں تو متعلقہ حکام کسی رعایت کے مستحق نہیں۔یہ انتہائی سنگین الزامات ہیں اور اس پر قومی سطح پروسیع تر تحقیقات کرائی جانی چاہئے اور اس میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک ہی نہیں بلکہ نشانہ عبرت بنادیاجانا چاہئے۔ امید کی جاتی ہے کہ ا س واقعے کاسنجیدگی سے جائزہ لیاجائے گااور اس حوالے سے کسی طرح کی رورعایت نہیں کی جائے گی۔