میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلے کو تماشا نہ بنائیں!

نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلے کو تماشا نہ بنائیں!

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۰ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی پر بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2018 کے انتخابات اپنے وقت پرہوں گے جس میں (ن) لیگ فتح حاصل کرے گی انھوں نے دعویٰ کیا کہ نومبر2017 کے بعد ملک میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی۔ شاہد خاقان عباسی نے نوازشریف کی نااہلی کو حکمراں پارٹی کے لیے بہت بڑا دھچکاقرار دیا،انھوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عدم اعتماد کرتے ہوئے نواز شریف کی نااہلی کو سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ نہیں چاہتے کہ پاکستان ترقی کرے وہ سازش کرتے ہیں اور جس معاملے سے ملک کا نقصان ہو اس کو سازش ہی سمجھا جائے گا انھوں نے سیاسی جماعتوں کے درمیان میثاق معیشت،اورآئین کی دفعہ 62 ون ایف تبدیل کرنے کی ضرورت کااظہار کیا ۔وزیراعظم نے اپنے انٹرویو کے درمیان بالواسطہ طورپر یہ تسلیم کیا کہ نواز شریف کی نااہلی کے باوجود ان کی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوں گی۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع آیا ہے جب کوئی وزیر اعظم تبدیل ہونے کے باوجود اس کی پالیسیوں کو جنھیں کسی بھی طورپر مضبوط ومستحکم پالیسیاں نہیں کہاجاسکتااستحکام ملا ہے۔
پاکستان میں اب تک برسراقتدار آنے والے تما م حکمرانوں نے وقت گزارو اور حکمرانی کرو کی پالیسیوں پر ہی عمل ہی کیاہے اور کبھی آئین میں موجود سقم اور قانون میں موجود جھول کو تبدیل کرنے پر توجہ نہیں دی اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ اب تک برسراقتدار آنے والے تمام ہی سیاستداں اپوزیشن سے خواہ کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو خوفزدہ رہے ہیں اور وہ اپنے مخالفین کو مزہ چکھانے کے لیے آئین میں ایسے سقم اور قوانین میں ایسے جھول برقرار رکھنا چاہتے تھے، جس کے ذریعے وقت پڑنے پر مخالفین کو سبق سکھایاجاسکے ۔
ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ سیاستدانوںاور انتظامیہ نے جب کبھی ضرورت محسوس کی ہے تو اپنی ہی بنائی ہوئی پالیسیاں بدل دی ہیں تا کہ ضرورت کے مطابق کام چل سکے یا ضرورت کے مطابق چلتا رہے کام اسی ضرورت کے تحت ہی چلتا ہے جب یہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے یا جوں توں کر کے پوری کر لی جاتی ہے تو پھر قانون سازی اپنے اختیار میں ہے اس کو ضرورت کے مطابق ڈھال لیا جاتا ہے اورنئے قانونی قاعدے اور ضابطے سامنے آجاتے ہیں جو اپنی جگہ پر اَٹل سمجھے جاتے ہیں۔ پھر کاروبار سرکار اپنے نئے ضابطوں کے تحت چلنا شروع ہو جاتا ہے۔حکمرانوں کو ان نئے ضابطوں اور قوانین کی یاد تب ہی آتی ہے جب وہ اپنے ہی بنائے ان ضابطوں اور قوانین کی وجہ سے ہی خود سے کسی مشکل میں پھنس جاتے ہیں اور ان ہی کے بنائے گئے ضابطے ان کو جکڑ لیتے ہیں تو یہ اس وقت کو کوستے ہیں کہ انھوں نے یہ کام کیا ہی کیوں تھا جس نے ان کو اس مشکل میں ڈال دیا ہے۔
ہمارے نئے منتخب وزیر اعظم اپنے ہر حکومتی معاملے میں اپنے پارٹی سربراہ کے جانب دیکھ رہے ہیں۔اسی پس منظر میں انھوں نے یہ بیان دیا ہے کہ وزیر اعظم گو کہ بدل گیا ہے لیکن اس کی پالیسیاں جاری رہیں گی۔ ایک طرح سے تو یہ ایک مثبت بات ہے کہ حکومت کی جاری پالیسیوں کے تسلسل کو برقرار رکھنا ملکی مفاد میں ہوتا ہے اور ترقی کا عمل جاری رہتا ہے اور اس میں رکاوٹ نہیں آتی منصوبے بروقت
مکمل ہوتے ہیں اور عوام کے پیسے کا ضیاع بھی نہیں ہوتا۔نواز شریف کی نااہلی کے بعد ملکی سیاست میں تبدیلی آئی ہے اور حکمران پارٹی کے سرکردہ چند لیڈر حضرات اس تبدیلی کو بظاہر قبول کرنے کا بار بار اعلان کررہے ہیں لیکن سب کو معلوم ہے کہ پس پردہ حقائق کیا ہیں، پارٹی قیادت اور اس سے منسلک قریبی رفقانے اس حقیقت کو قبول نہیں کیا اور اس کاا ظہار ان کے بیانیوں اور عملی طور پر اخبارات اور مختلف شہروں میں لگائے گئے بڑے بڑے اشتہارات کو ٹی وی پر دیکھ کر ہو رہا ہے کہ وہ اس فیصلے کو کلی طور پر ماننے سے انکاری ہیں اور اب بھی پارٹی قیادت سمیت کوئی بھی وقت کی نزاکت کو سمجھ نہیں پا رہا ہے اور ایک بار پھر نواز شریف ان ہی نادان دوستوں کے مشوروں پر عمل کرنے جا رہے ہیں جن کے مشورے ان کی موجودہ حالت کے ذمے دار ہیں۔
نواز شریف نے بطور وزیر اعظم پارلیمان کو مضبوط نہیں کیا اور اپنے دور اقتدار میںپارلیمنٹ کو وہ اہمیت نہیں دی جس کی پارلیمان کے ساتھ ان کو بھی ضرورت تھی، وہ اگر پارلیمان کی اہمیت کو سمجھتے تو جس طرح عوام نے ان کو ووٹ کی طاقت کے ساتھ تیسری بار اقتدار تک پہنچایا تھاتو یہی پارلیمان آج ان کے لیے ایک مضبوط طاقت بن کر ان کی پشت پر کھڑی ہوتی لیکن شو مئی قسمت کہ اس طرف توجہ نہیں دی گئی اور دوتہائی اکثریت کو ہی طاقت سمجھ لیا گیا حالانکہ وہ پہلے بھی دوتہائی اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہ چکے تھے لیکن جب حالات نے پلٹا کھایا تو یہ دو تہائی اکثریت بھی ان کے کسی کام نہیں آئی اور اب کی بار بھی وہ اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجوداقتدار سے الگ کر دیے گئے۔ عوام کو طاقت کا سر چشمہ کہا جاتا ہے اور یہی عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے کسی لیڈر کو اقتدار تک پہنچاتے ہیںلیکن لیڈر اقتدار حاصل کرنے کے بعد ان کو بھول جاتے ہیں اور ان کی یاد دوبارہ ان لیڈروں کو تب آتی ہے جب اقتدار ان کے پاس نہیں رہتا اور یہ لیڈر دوبارہ سے عوام کو بہلا پھسلا کر اپنی جانب متوجہ کر لیتے ہیں۔
نواز شریف اپنی نااہلی کے بعد بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی وجہ سے خاموش ہیں وہ بہت کچھ جانتے ہیں مگر خاموش ہیں لیکن زیادہ دیر خاموش نہیں رہ سکیں گے۔ انھوں نے بینظیر شہید کے ساتھ لندن میں کیے گئے میثاقِ جمہوریت پر عملدرآمد کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے۔ ایک بار پھر چوٹ کھانے کے بعد ان کو ووٹ کی طاقت کا اصل اندازہ اب ہوا ہے اور وہ شاید پیپلز پارٹی کی حمایت سے آئین کی ان شقوں کو ختم کرنا چاہ رہے جن کا وہ اس بار شکار بنے ہیں کیونکہ وہ تو حکومت کو برطرف کرنے کے آئینی صدارتی اختیار ختم ہونے کے بعد مطمئن تھے کہ ان کی منتخب حکومت کو اب کوئی خطرہ نہیں لیکن ابھی بھی آئین میں اس طرح کی بہت ساری شقیں موجود ہیں جن کو استعمال کر کے حکومتوں کو گھر بھیجا جا سکتا ہے۔ آئین میں متفقہ ترامیم کرنے کے لیے ان کو میثاق جمہوریت کی یاد آئی ہے لیکن شاید اب اس طرح کی ترامیم کا وقت گزر گیا ہے اور اس کے لیے اگلی نئی اکثریتی منتخب حکومت کا انتظار کرنا پڑے گا۔
جہاں تک سپریم کورٹ کے فیصلے پر عدم اعتماد کے اظہار کاتعلق ہے تو نواز شریف، نئے وزیر اعظم اوران کے رفقا کو یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے پر اس طرح اطہار ناراضگی کسی طور درست نہیں ہے ،اس طرح کے پراپگنڈے سے وہ نہ تو عوام کوبیوقوف بناسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے ماتھے پر لگ جانے والی کالک صاف کرسکتے ہیں۔امید کی جاتی ہے کہ نواز شریف اور ان کے رفقا اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں گے اورملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے کوتماشہ بنانے سے گریز کریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں