میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاناماکا فیصلہ۔۔نواز شریف ابھی کٹہرے سے باہر نہیں آئے

پاناماکا فیصلہ۔۔نواز شریف ابھی کٹہرے سے باہر نہیں آئے

منتظم
هفته, ۲۲ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں


جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کورٹ روم نمبر 1 میںبالآخر پاناما لیکس کے معاملے پر آئینی درخواستوں کا فیصلہ سنایا، جو رواں برس 23 فروری کو محفوظ کیا گیا تھا۔فیصلہ 540 صفحات پر مشتمل ہے، فیصلے پر ججز کی رائے تقسیم ہے، 3 ججز ایک طرف جبکہ 2 ججز جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد خان نے اختلافی نوٹ لکھا اور وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے سے اتفاق کیا۔سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دے دیا، جسے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ‘فتح‘ قرار دیا۔فیصلے کے مطابق فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں 7 دن کے اندر جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔عدالتی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، قومی احتساب بیورو (نیب)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کا نمائندہ شامل کیا جائے۔
عدالت نے وزیراعظم نواز شریف کے وکلاکی جانب سے سماعت کے دوران بطور ثبوت پیش کیے گئے قطری خطوط کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ اس بات کی تحقیقات کی ضرورت ہے کہ رقم قطر کیسے منتقل ہوئی، جبکہ گلف اسٹیل ملز کے معاملے کی بھی تحقیقات کا حکم دیا گیا۔فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات میں ناکام رہے۔اپنے تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ نے لکھا، ‘ان پٹیشنز کی باقاعدہ سماعتوں کے دوران تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد اس عدالت کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ اس عدالت کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ ان درخواستوں کے محدود دائرہ کار کے اندر مدعا علیہ (وزیراعظم نواز شریف) اور ان کے خاندان کی کاروباری سرگرمیوں اور ذاتی زندگیوں کا جائزہ لے، یہ درخواستیں بنیادی طور پر، خاص طور پر نہیں، نواز شریف اور ان کے بچوں (مریم نواز، حسن نواز اور حسین نواز) کی جائیدادوں سے متعلق ہیں، جن کا انکشاف پاناما پیپرز کے ذریعے سے ہوا تھا‘۔لارجر بینچ نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے اس فیصلے پر عملدرآمد کروانے کے لیے خصوصی بینچ بنانے کی استدعا کی، تاکہ اس کیس میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات بند گلی میں نہ رہ جائیں۔
پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے فیصلے کو اپنی ‘جیت‘ قرار دیتے ہوئے ‘گو عمران گو‘ کے نعرے لگائے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اللہ کا جتنا شکر ادا کریں وہ کم ہے، ہم سرخرو ہوئے ہیں، عدالت عظمیٰ نے فیصلہ دیا ہے، مزید تحقیقات کی جائے جبکہ یہی بات 6 ماہ قبل خود وزیراعظم نواز شریف نے بھی کہی تھی۔انہوں نے کہا کہ مخالفین نے جو شواہد پیش کیے، وہ ناکافی تھے، ان کی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔دوسری جانب وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جے آئی ٹی کے ساتھ مکمل تعاون اور عدالتی فیصلے پر عمل کیا جائے گا۔تاہم انھوں نے عدالت کی جانب سے نواز شریف کے بیٹوں اور خود نواز شریف کے بیانات کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات کا کوئی ذکر نہ کرکے یہ ثابت کیا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر ان کی جانب سے خوشی اور اطمینان کا اظہار حقیقی نہیں ہے اور وہ یہ سمجھ چکے ہیں کہ اب انھیں جوابدہی کے مرحلے سے گزرنا ہی پڑے گا اور وہ اس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے حکم پر ہونے والی اس انکوائری سے دامن نہیں بچاسکیں گے، جبکہ ان کی جانب سے اب تک پیش کئے جانے والے ثبوت اور اس حوالے سے ان کے وکلا کے دلائل چونکہ عدالت عظمیٰ پہلے ہی رد کرچکی ہے اس لئے اب انھیں اپنے بیٹوںکی املاک اورغیر ممالک میں دولت کے ذرائع ظاہر ہی کرنا پڑیں گے اور اگر ان کے پیش کردہ شواہد کو عدالت عظمیٰ یا جے آئی ٹی کی ٹیم نے قابل اعتنا نہیں سمجھا تو پھر ان کے سامنے اپنے عہدے کو چھوڑ دینے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہے گا۔اس فیصلے کے حوالے سے تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کا یہ کہنا اپنی جگہ درست ہے کہ چونکہ پاناما لیکس کے بینچ کے 2 سینئر ججز نے فیصلہ دیا ہے کہ نوازشریف صادق اور امیں نہیں رہے،اس لئے اخلاقی طورپر نوازشریف کو استعفیٰ دے دیناچاہئے۔ ججوں نے نوازشریف کی جانب سے پیش کئے جانے والے قطری شہزادے کا خط اور منی ٹریل سے متعلق تمام تفصیلات کو مسترد کرتے ہوئے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا ہے،اس حکم کے بعد نواز شریف کے پاس وزارتِ عظمیٰ پر فائز رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا ہے۔اخلاقیات کا تو تقاضہ یہی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف ہمت و جرات کامظاہرہ کرتے ہوئے کم ازکم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تحقیقات مکمل ہونے تک اپنا عہدہ چھوڑ دیں اور اگر وہ 60 دن بعد بری ہو جاتے ہیں تو دوبارہ اپنے عہدے پر آ جائیں۔ یہ کوئی ناقابل عمل مشورہ نہیں ہے بلکہ خود نواز شریف نے بھی یوسف رضا گیلانی کو ایسا ہی مشورہ دیا تھاجے آئی ٹی کا فیصلہ آنے تک نواز شریف کا اپنے عہدے سے الگ ہوجانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان کے وزیراعظم ہوتے ہوئے کوئی بھی ادارہ ماسوائے فوج کے 2 اداروں کے جو ان کے ماتحت ہے ان سے سوال نہیں کرسکتا اورنہ ہی ان کے خلاف کوئی فیصلہ دے سکتا ہے۔ اس لئے انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ نوازشریف 60 دن کے لئے اپنے عہدے سے دستبردارہوجائیں اوراپنے حق میں فیصلہ ہوتے ہی منصب سنبھال لیں۔
اگرچہ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں انھیں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے دستبردار ہوجانے یا عارضی طورپر علیحدگی اختیار کرنے کی ہدایت نہیں کی ہے لیکن جے آئی ٹی کی کارروائی کے دوران کوئی بھی فریق عدالت میں جاکر یہ استدعا کرسکتاہے کہ چونکہ نواز شریف وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کی وجہ سے جے آئی ٹی کے افسران پر اثر انداز ہوسکتے ہیں یا ہورہے ہیں اس لئے انھیں اپنے عہدے سے علیحدگی کا حکم دیا جائے اور عدالت عظمیٰ موجود حقائق وشواہد کی بنیا د پر مخالفین کے اعتراض کو درست تصور کرلے تو انھیں اپنے عہدے سے علیحدہ ہونے کا حکم دے سکتی ہے لیکن عدالتی حکم پر عہدے سے علیحدگی کے بعد نواز شریف و ہ اخلاقی برتری کھودیں گے جو عدالتی احکام کے بغیر ہی از خود عہدہ چھوڑنے کے اعلان سے انھیں حاصل ہوسکتی ہے اور جسے وہ اگلے عام انتخابات میں اچھی طرح کیش کراسکتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف دانش مندی سے کام لیتے ہوئے خود ہی اپنے عہدے سے علیحدگی اختیار کرکے عوام کی نظروں میں سرخرو ہونے کی کوشش کرتے ہیں یا ا س کے لیے بھی کسی اور عدالتی حکم کا انتظار کرتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں