میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
محاذ آرائی حکمراں جماعت کے لیے کسی طور مناسب نہیں

محاذ آرائی حکمراں جماعت کے لیے کسی طور مناسب نہیں

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۴ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ کا اب ماہرین، سیاستدانوں ،شہریوں سب نے اچھی طرح مطالعہ کر لیا ہے۔ یہ رپورٹ ‘کامل’ تو نہیں ہے اور پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی اس پر اہم اعتراضات اٹھا دیے ہیں جن پر سپریم کورٹ کو بالآخر توجہ دینا پڑے گی مگر جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف کافی سنگین اور براہِ راست الزامات عائد کیے گئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق مدعا علیہان جے آئی ٹی کے سامنے رقوم کی ترسیلات کی وجوہات نہیں بتا سکے جبکہ انکی ظاہر کردہ دولت اور ذرائع آمدن میں واضح فرق ہے۔ شریف خاندان کی آمدن ذرائع سے زیادہ ہے اور انکے طرز زندگی سے مطابقت نہیں رکھتی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف‘ ان کے بیٹے اور بیٹی آمدنی کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے اور منی ٹریل ثابت نہیں کرسکے۔ رپورٹ کے مطابق جے آئی ٹی نے برٹش ورژن آئی لینڈ سے مصدقہ دستاویزات حاصل کرلی ہیں جن کے مطابق آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کی مالک مریم نواز ہیں اور ان دونوں کمپنیوں کے حوالے سے جمع کرائی گئی دستاویزات جعلی ہیں جبکہ ایف زیڈ ای کیپٹل کمپنی کے چیئرمین نوازشریف ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بے قاعدہ ترسیلات سعودی عرب کی ہل میٹلز اور متحدہ عرب امارات کی کیپٹل ایف زیڈ ای کمپنیوں کے ذریعے کی گئیں جبکہ بے قاعدہ ترسیلات اور قرض نوازشریف‘ حسن نواز اور حسین نواز کو ملے‘ برطانیا کی کمپنیاں نقصان میں تھیں مگر بھاری رقوم کے ہیرپھیر میں مصروف تھیں جبکہ یہ بات کہ لندن کی جائیدادیں اس کاروبار کی وجہ سے تھیں‘ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ رپورٹ کے مطابق اپنی آف شور کمپنیوں کو برطانیا میں فنڈز کی ترسیل کیلئے استعمال کیا گیا‘ ان فنڈز سے برطانیا میں مہنگی جائیدادیں خریدی گئیں۔ پاکستان میں موجود کمپنیوں کا مالیاتی ڈھانچہ مدعا علیہان کی دولت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ بڑی رقوم کی قرض اور تحفے کی شکل میں بے قاعدگی سے ترسیل کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیب آرڈی ننس مجریہ 1999کی دفعہ 19اے وی کے تحت یہ کرپشن اور بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے اس لئے جے آئی ٹی مجبور ہے کہ معاملہ نیب آرڈی ننس کے تحت ریفر کردے۔ اس رپورٹ میں جے آئی ٹی نے وزیراعظم نوازشریف‘ ان کے بیٹوں حسن اور حسین اور بیٹی مریم نواز کیخلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کی ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ میں صرف میاں نوازشریف اور ان کے بیٹے ہی نہیں‘ ان کی صاحبزادی مریم نواز کو بھی جعلسازی میں ملوث قرار دیا گیااور ان سب مدعا علیہان پر اپنے کاروبار اور آف شور کمپنیوں کے حوالے سے جعلی دستاویزات تیار کرنے کے ثبوت بھی جے آئی ٹی نے مبینہ طورپر اپنی رپورٹ کے ساتھ پیش کر دیے ہیں جس سے یقیناً اخلاقیات کے حوالے سے بھی اس حکمران خاندان کی عزت اور ساکھ کو جھٹکا لگا ہے۔
پاناما کیس ملک کی سیاسی اور عدالتی تاریخ کا بلاشبہ اہم ترین کیس ہے جس کے فیصلہ کے دوررس اثرات مرتب ہونے ہیں۔ اس لیے حکمران خاندان کو اس کیس پر سیاست کرنے کے بجائے قانونی تقاضوں کے مطابق اپنا دفاع کرنا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے انہوں نے سپریم کورٹ کے 20 اپریل 2017کے فیصلہ کی روشنی میں اپنے قانونی دفاع کو مضبوط بنانے کے بجائے اپنی بے گناہی کا ڈھنڈورا پیٹنا
شروع کردیا۔ پہلے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو تسلیم کرکے مٹھائیاں بھی تقسیم کرلی گئیں مگر جب سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ کی روشنی میں جے آئی ٹی تشکیل دی تو حکمران خاندان اور حکمران مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں اور وفاقی و صوبائی وزراکی جانب سے جے آئی ٹی کے بعض ارکان پر کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا اور اسے مجموعی طور پر متنازع بنانے کی حکمت عملی کے تحت ہر پیشی پر جے آئی ٹی کی کارروائی کو ہدف تنقید بنانے کی روش اختیار کرلی گئی جس پر اپوزیشن بالخصوص عمران خان کو بھی حکومت مخالف سیاست کو بھڑکانے کا موقع ملا جنہوں نے جے آئی ٹی پر حکومتی ارکان کی تنقید کو بالواسطہ سپریم کورٹ پر تنقید سے تعبیر کیا اور اس تناظر میں جے آئی ٹی پر تنقید کرنیوالوں کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی اور فوجداری مقدمات درج کرنے کے تقاضے بھی شروع کردیے ۔
سادہ سی بات ہے کہ کسی بھی جمہوری نظام میں اس قدر شکوک و شبہات کی زد میں موجود شخص کو وزارتِ عظمیٰ پر نہیں ہونا چاہیے۔مسلم لیگ ن شاید نواز شریف کو عہدے پر رہنے کے لیے مجبور کرے، اور نواز شریف شاید لڑائی جاری رکھنے کو ترجیح دیں، مگر اس کا جمہوریت کو بہت زیادہ نقصان پہنچے گا۔ وزیرِ اعظم کے پاس ایک واضح متبادل آپشن موجود ہے۔عہدہ چھوڑ دیں، اپنے خلاف یا اپنے بچوں کے خلاف عدالت میں تمام الزامات کو غلط ثابت کریں، اور اگر انہیں تمام الزامات سے بری کر دیا جاتا ہے، تو وہ قانون کے مطابق عہدے پر واپس آجائیں۔یہ بات بھی اہم ہے کہ عہدہ چھوڑ دینے کا مطلب خود کو مجرم تسلیم کرنا نہیں ہوگا۔ اس کے بجائے یہ جمہوری نظام کے تحفظ اور اس کی مضبوطی کے لیے ایک ضروری قربانی ہوگی۔ ایسا وزیرِ اعظم، جو کہ عدالتوں میں کرپشن کے مقدمات میں اُلجھا ہوا ہو، اس کی نہ تو ملک کو ضرورت ہے، اور نہ ہی ملک اس کا متحمل ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ، اب چوں کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ عوام میں جاری کی جا چکی ہے، تو مسلم لیگ ن کے اس بنیادی الزام، کہ پاناما پیپرز صرف ان کے خلاف سازش ہے، میں زیادہ دم نہیں رہا ہے۔ غیر جمہوری قوتیں اب بھی ملک میں ہوں گی اور شاید وہ نواز شریف کا برا چاہتی ہوں، مگر کسی نے بھی نواز شریف اور ان کے خاندان کو اپنے دفاع میں جے آئی ٹی کے سامنے ثبوت پیش کرنے سے نہیں روکا۔جے آئی ٹی نے اپنی تمام تحقیقات اس وقت کی جب سیاسی بساط شریف خاندان اور ملک کے سامنے پوری طرح واضح تھی۔ شریف خاندان کو تحقیقات کی معقولیت کو یقینی بنانے کے لیے ثبوت اور وضاحتیں پیش کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے تھی مگر جیسا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں لکھا گیا ہے، شریف خاندان ایسا نہیں کر سکا ہے۔وزیرِ اعظم کے لیے ایک دوسرا آپشن قبل از وقت انتخابات کا ہے۔ اگر وزیرِ اعظم کا مقدمہ قومی احتساب بیورو (نیب) میں بھیجا جاتا ہے، تو نگراں حکومت کی موجودگی نیب پر سیاسی دباؤ کے تاثر کو زائل کر دے گی اور ایک شفاف مگر تیز تر احتساب وزیرِ اعظم نواز شریف کو اپنے اور اپنے بچوں پر چھائے ہوئے شکوک و شبہات کے کالے بادلوں کے بغیر اگلے انتخابات لڑنے کا موقع دے گا۔
وزیرِ اعظم نواز شریف چاہے جس آپشن کا انتخاب کریں، یہ بات واضح ہونا چاہیے کہ چیزوں کا ایسے ہی چلتے رہنا کوئی آپشن نہیں ہے۔ دنیا کا کوئی بھی جمہوری نظام کرپشن کے مقدمات میں ملوث وزیرِ اعظم کا مستحق اور متحمل نہیں ہو سکتا۔نواز شریف کو نظام کی شفافیت پر شکوک ہوں گے، مگر نظام کو بھی ان پر شکوک ہیں اور نظام کو شخصیت پر فوقیت ہونی چاہیے۔یقیناً یہ قومی سیاست کا انتہائی اہم موڑ ہے جس میں حکمران خاندان اور مسلم لیگ (ن) کا اقتدار ہی نہیں‘ جمہوری نظام بھی دائو پر لگا ہے اس لیے ان مراحل میں بالخصوص حکمران پارٹی اور اس کے سیاسی
حلیفوںکو فہم و بصیرت سے کام لینا ہے تاکہ ملک کو جمہوریت کی گاڑی، پٹری سے اتارے جانیوالا ماضی جیسا بدقسمت دن نہ دیکھنا پڑے۔ اگرچہ حکمران مسلم لیگ (ن) نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا یقیناً اسے حق بھی حاصل ہے تاہم وہ قانونی جنگ کے ساتھ ساتھ جے آئی ٹی پر گند اچھالنے والی سیاست بھی جاری رکھتی ہے تو اس سے لامحالہ محاذآرائی کی سیاست حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں میں ٹکرائو کی نوبت لائے گی جس کا نتیجہ نوشتہ دیوار ہے۔اگر وزیراعظم نوازشریف اس صورتحال میں بھی ’’کرسی نہ چھوڑنے کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہیں جس کا گزشتہ روز میاں نوازشریف کے زیرصدارت منعقدہ مسلم لیگی اکابرین کے مشاورتی اجلاس میں عندیہ بھی دیا گیا ہے تو اس سے یہ تاثر پختہ ہوگا کہ میاں نوازشریف منصب کے ساتھ چمٹے رہنا چاہتے ہیں۔ جس کے نتیجے میںاپوزیشن کی تحریک میں تیزی آئے گی اور یہی وہ ممکنہ صورتحال ہے جو پورے سسٹم کو اپنی لپیٹ میں لینے پر منتج ہو سکتی ہے۔
اس تناظر میں اب وزیراعظم کو خود فہم و بصیرت کے ساتھ اپنے اور اپنی پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کرنا ہے تاکہ ان کی حکومت کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی اور ان کے خاندان کی عزت اور ساکھ پر بھی کوئی حرف نہ آئے۔ اگر وہ اس موقع پر خود ہی وزارت عظمیٰ سے الگ ہو کر اپنی پارٹی میں سے کسی کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر لے آتے ہیں تو اس سے حکومت پر پڑنے والا اپوزیشن کا دبائو بھی کم ہو جائیگا اورالیکشن تک کا وقت بھی پورا ہو جائیگا اور کسی سیاسی افراتفری اور غیریقینی کی فضاکی نوبت نہیں آئیگی جو معروضی حالات میںمقتدر قوتوں کو کسی ’’مثبت کردار‘‘ کا موقع فراہم کرسکتی ہو۔ بادی النظر میں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکمران خاندان اور حکمران مسلم لیگ (ن) نے جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کی سیاست کا راستا اختیار کرکے اپنے پائوں پر خود کلہاڑی ماری ہے جس کے ممکنہ نقصان سے اب اس پالیسی سے رجوع کرکے ہی بچا جا سکتا ہے۔ اگر میاں نوازشریف اور ان کی پارٹی نے اداروں کے ساتھ محاذآرائی والی سیاست ہی برقرار رکھی تو اس سیاست میں انکے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا اور وہ اپنی پارٹی کے اندر بھی اپنے لیے ہمدردیاں کھو دینگے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں