پارلیمنٹ کو آرمی چیف کی بریفنگ
شیئر کریں
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے گزشتہ روزسینیٹ کو ملکی اور خطے کی صورت حال پر بریفنگ دی گئی۔اس مقصد کے لییٍ سینیٹ کی پورے ایوان کی کمیٹی کا خصوصی بند کمرہ اجلاس ہوا جو 5 گھنٹے تک جاری رہا جس کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ارکان پارلیمان کو قومی سلامتی اور خطے کی صورت حال پر بریفنگ دی۔ یہ اجلاس اس حوالے سے بھی اہمیت کا حامل تھا کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاک فوج کے سربراہ اور ڈی جی ملٹری آپریشنز نے سینیٹ کو بریفنگ دی۔اس موقع پر ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار، ڈی جی ایم او جنرل ساحر شمشاد مرزا، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور اور ڈی جی ایم آئی بھی موجود تھے۔ ذرائع کے مطابق پاک فوج کے سربراہ نے سینیٹرز کو علاقائی و قومی سلامتی کی صورتحال خصوصاً سعودی اسلامی فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت پر اعتماد میں لیا۔ بریفنگ کے بعد سوال جواب کا سیشن بھی ہوا جس میں ارکان پارلیمنٹ کے سوالات کے عسکری حکام نے جواب دیے۔ کمیٹی کا اجلاس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے تناظر میں بلایا گیا تھا جس کے دوران آئندہ کی حکمت عملی بھی طے کی گئی۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں لاپتہ افراد، فیض آباد دھرنے اور طالبان و داعش سے متعلق بھی سوالات ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے دھرنے سے متعلق سوال کیا جس کے جواب میں آرمی چیف نے کہا کہ اگر ثابت ہوگیا کہ دھرنے کے پیچھے فوج تھی تو مستعفی ہوجاؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ دھرنا ہوا تو میرے ذہن میں لال مسجد کا واقعہ بھی آیا، میں نے ڈی جی آئی ایس آئی سے کہا کہ دھرنے والوں سے بات کریں، بات ہوئی تو پتہ چلا ان کے چار مطالبات ہیں، پھر وہ ایک مطالبے پر آگئے، سعودی عرب جاتے ہوئے بھی دھرنے سے متعلق معلومات لیتا رہا۔لاپتہ افراد کے حوالے سے سوال کے جواب میں آرمی چیف نے کہا کہ لاپتہ افراد کی مختلف وجوہات ہیں، کچھ لوگ خود غائب ہو کر لاپتہ ظاہر کرواتے ہیں، ایجنسیاں صرف ان افراد کو تفتیش کے لیے تحویل میں لیتی ہیں جو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہوں۔اجلاس میں آرمی چیف بار بار زور دیتے رہے کہ پارلیمنٹ ہی سب کچھ ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ آپ لوگ پالیسی بنائیں، ہم عمل کریں گے، ہم کو صرف یہ دیکھنا ہے، آج کیا ہو رہا ہے، آج کیا کرنے کی ضرورت ہے، ماضی میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آرمی چیف کی بات کے بعد بعض اوقات ڈی جی آئی ایس آئی وضاحت دیتے رہے۔ذرائع کے مطابق ڈی جی ایم او جنرل ساحر شمشاد مرزا کی جانب سے سینیٹ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ فوجی عدالتوں نے اب تک 274 مقدمات کا فیصلہ کیا، 161 مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی جن میں سے 56 مجرموں کو پھانسی دی گئی۔ 13 مجرموں کو آپریشن ردالفساد سے پہلے پھانسی دی گئی اور 43 کو آپریشن کے بعد پھانسی دی گئی۔اجلاس کے دوران ایک موقع پر سینیٹر یعقوب ناصر کے شور شرابے کی وجہ سے ہال میں بدمزگی پیدا ہوئی۔ مسلم لیگ ن کے سنیٹر یعقوب ناصر نے دوسرا سوال کرنے کی اجازت نہ ملنے پر شورشرابا کیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے ان سے کہا کہ آپ کا کوئی ذاتی مسئلہ ہے تو چیئرمین کو بتا دیں یا ہمارے پاس آجائیں، چیئرمین صاحب جیسے کہیں گے ہم ویسا کر لیں گے۔
ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں تمام سینیٹرز نے پاک فوج کے کردار کو سراہا اور قربانیوں کو تسلیم کیا جب کہ اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ سب کو مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہے۔ اسلام اآباد میں سینیٹ کی ہول کمیٹی کے ان کیمرہ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی (آئی ایس پی آر) میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ بند کمرہ اجلاس پر اصولی طور پر بات نہیں کرنی چاہیے، آئندہ آنے والے دنوں میں تفصیلی پریس کانفرنس کروں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ 18 ستمبر کو دفاعی کمیٹیوں کے چیئرمینز نے آرمی چیف سے بریفنگ کی درخواست کی، آرمی چیف نے درخواست قبول کرلی اور کہا کہ دعوت دی گئی تو ضرور آئوں گا، جس پر چیئرمین سینیٹ نے خط لکھ کر آرمی چیف کو بریفنگ کی دعوت دی۔ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ بہت سے سینٹرز ایسے ہیں جنہیں سوالات کرنے کا موقع نہیں ملا تاہم خوشی ہوئی کہ تمام سینٹرز موجودہ سیکیورٹی صورتحال سے آگاہ تھے، اجلاس میں تمام سینیٹرز نے پاک فوج کے کردار کو سراہا اور قربانیوں کو تسلیم کیا جب کہ اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ سب کو مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہے۔
ارکان پارلیمنٹ کوپاک فوج کی جانب سے مسلح افواج کی کارکردگی اورعالمی صورت حال کے پس منظر میں دفاعی تیاریوں اور مختلف حلقوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی افواہوں اور ان افواہوں کی بنیاد پر پاک فوج کے کردار پر انگشت زنی پر کھل کر بات کیے جانے اور عوام کے منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لے کر ان کے ذہنوں میں کلبلا نے والے سوالوں کے جواب دینے کاپاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ ہے،پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے چیئرمین سینیٹ کی جانب سے بریفنگ کی دعوت قبول کرتے ہوئے تمام گلے شکوے دور کرنے کی حامی بھرلی اور وقت مقررہ پر پہنچ کرتمام سوالوں کے کھل کر اور وضاحت کے ساتھ جواب دینے کے ساتھ ہی یہ غلط فہمی بھی دور کردی کہ پاک فوج خود کو ہرطرح کے احتساب اور جوابدہی سے بالا تر سمجھتی ہے۔
پاک فوج کے سربراہ کی جانب سے رضاکارانہ طورپر پارلیمانی رہنمائوں کے سامنے پیش ہوکر ارکان پارلیمان کے تمام سوالوں کے جواب دئے جانے کے بعداب پاک فوج پرکیچڑ اچھالنے اور ہر معاملے میں فوج کوملوث قرار دینے کی کوشش کرکے مسلح افواج کو بحیثیت ادارہ بدنام کرنے کی کوششوں کاسلسلہ بند ہوجانا چاہئے اور اس حوالے سے اب حکمراں مسلم لیگ ن کے سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دئے گئے سربراہ میاں نواز شریف ، ان کی ٹیلنٹیڈ اور انتہائی بااثر تصور کی جانے والی صاحبزادی مریم صفدر اوران کے چھوٹے بھائیوں کو اب اپنی اصلاح کرلینی چاہئے اور اس ملک کے باوقار ادارے کو بدنام کرنے کی مہم سے باز آجانا چاہئے، نواز شریف اور ان کے حواریوں کو اب اپنے رویئے پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور اداروں کو بدنام کرنے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ اگر اداروں کے درمیان جنگ شروع ہو گئی تو پاکستان کو بڑا نقصان ہوگا۔ عسکری حکام کی جانب سے پارلیمنٹ کو بریفنگ پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے خوش آئند ہے اب سیاستدانوں کابھی فرض ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور وقار کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔